وراللہ جاوید / کولکتہ Nurullah Jawed
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے سیاسی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی جارہی ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے بنگال میں برسراقتدارممتا بنرجی کو سخت چیلینجوں کا سامنا ہے۔ایک طرف جہاں بی جے پی تیزی سے اپنی زمین ہموارکررہی ہے وہیں مسلم ووٹ بینک جو ممتا بنرجی کی سب سے بڑی طاقت تھی اس میں بھی سیندھ لگتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ایک طرف جہاں اسدالدین اویسی کی ایم آئی ایم اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدواروں کو اتارنے کی تیاری کررہی ہے وہیں مغربی بنگال کے مشہور بااثر مذہبی گھرانے ”فرفرہ شریف“ کے ایک بہت ہی بااثر پیر زادہ عباس صدیقی نے بھی ممتا بنرجی کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔عباس صدیقی پر حال ہی میں ترنمول کانگریس کے لیڈروں نے حملہ کیا تھا۔ عباس صدیقی دلت اور پسماندہ ہندو جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک فرنٹ بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عباس صدیقی کے میدان میں آنے سے ممتا بنرجی کو 10سے 15مسلم اکثریتی سیٹوں پر نقصان ہوسکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر بنگالی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ممتا بنرجی سے ناراض کیوں ہیں؟۔’سنٹر فار اسٹڈیز ان اسٹڈیز پولی ٹیکل سائنس کلکتہ‘کے پروفیسر معید الاسلام اس سوال کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ ممتا بنرجی کے 10سالہ دور اقتدر میں 85فیصد بنگالی مسلمانوں کومکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور کلکتہ جیسے شہر میں آباد مسلم لیڈروکو فوقیت دی گئی ہے۔اس کی وجہ سے بنگال کے دیہی علاقوں میں ترنمول کانگریس کے تئیں بیزاری پائی جاتی ہے۔
رابندرا بھارتی یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے پروفیسر بسواناتھ چکرورتی بھی کہتے ہیں کہ بنگال کے دیہی علاقوں میں آباد مسلم کسانوں کو یہ احساس جاگزیں ہونے لگا ہے کہ وہ بائیں محاذ کے دور اقتدار میں زیادہ محفوظ تھے۔ چکرورتی کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں ممتا بنرجی مسلمانوں کی امیدیں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو سابقہ بایاں محاذ حکومت نے 2010 میں نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سرکاری ملازمت میں اوبی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا مگر ممتا بنرجی نے 2011 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس میں اضافہ کرتے ہوئے اوبی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو سترہ فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔ ملازمت کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ممتا بنرجی کے اس فیصلے کا مسلمانوں کے ہر طبقے نے خیر مقدم کیا تھا۔ اگر ریزرویشن پالیسی صدق دلی سے نافذ کیا جاتاتو یقینا اس سے مغربی بنگال کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی صورت حال میں تبدیلی آتی۔ مگر”مسلم اوبی سی ریزرویشن“ پالیسی کا وہی حشر ہوا ہے جو اقلیتوں کی فلاح وبہود کیلئے چلائی جارہی دیگر اسکیموں کا حشرعموما ہوتا ہے۔
دس سال قبل بائیں محاذ کے دور اقتدار میں ہی مغربی بنگال میں انگلش میڈم مدرسے قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ممتا بنرجی نے بھی 2011کے اسمبلی انتخابات سے قبل سو انگلش میڈیم مدرسے ریاست بھر میں قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ترنمول کانگریس نے اپنے پہلے دور حکومت میں اس سمت میں کچھ بھی کام نہیں کیا اور دوسری دور حکومت کے آخری سال میں اس پر کارروائی شروع کی گئی اور حال ہی میں دس انگلش مدرسوں میں جغرافیہ، تاریخ،عربی اور انگریزی کے سبجیکٹ لئے اساتذہ کی تقرری کا عمل شروع ہوااور 36اساتذہ کی تقرری بھی ہوئی جس میں صرف 8مسلم امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ حکومت کے اس قدم پرمسلم حلقوں میں سخت پے چینی پید ا ہوئی۔ سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ مدرسہ کے اساتذہ کی تقرری کا پورا عمل مدرسہ سروس کمیشن سے کرنے کے بجائے پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ کیوں نہیں کیا گیا۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ ریاست کی 30فیصد آبادی میں سائنس، جغرافیہ اور انگلش پڑھانے کیلئے کوئی بھی اہل مسلم امیدوار نہیں تھا؟ ۔ سماجی کارکن اور آل انڈیامائناریٹی یوتھ فیڈریشن کے سربراہ قمرالزماں کہتے ہیں زیادہ تر مسلم برادریاں اوبی سی اے کے تحت آتی ہیں۔ حالیہ دنوں بیشتر سرکاری ملازمتوں کے لئے ہونے والے انٹرویو میں میں اوبی سی اے کے کوٹے کے تحت امیدواروں کو بلایا ہی نہیں گیا۔ یہی صورت حال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم اوبی ریزرویشن کی ہے۔ ریاست کی یونیورسٹیوں میں ریزرویشن کے نفاذ کیلئے جدوجہد کرنے والے محمد صادق کی کہانی مشہور بنگلہ اخبار ”برتمان“ کے 21 اگست کے شمارے میں شائع ہوئی تھی کہ محمد صادق کی جدو جہد کے باوجود مغربی بنگال کے بیشتر معیاری یونیورسٹیوں میں باضابطہ ریزرویشن پالیسی نافذ نہیں ہے۔ کئی مرتبہ انہوں نے جادو پور یونیورسٹی اوردیگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور انتظامیہ سے ملاقات کی مگر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ تکنیکی وجوہات کا حوالہ دے کر ریزرویشن پالیسی کے نفاذ سے گریزاں ہیں۔ مغربی بنگال اسٹیٹ ہائر ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنزرولز کے سیکشن 2 کے مطابق بنگال کے ہرکالج اور یونیورسٹیوں میں ریزرویشن پالیسی نافذ العمل ہوجانا تھا۔
حکومت کے اصول کے مطابق ریزرویشن کیلئے سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ جنرل کوٹہ(غیر ریزرویشن) زمرے کی سیٹیں کم نہ ہوں۔آسان لفظوں میں اگر کسی شعبے میں 100 سیٹیں ہیں تو”اوبی سی“ریزرویشن پالیسی کے نفاذ کیلئے سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرکے 118 کردیا جائے گا۔ مگر صادق بتاتے ہیں کہ جادو پوریونیورسٹی سمیت مغربی بنگال کے بیشتر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں نے ”ریزویشن پالیسی“کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا ہے۔ صادق نے وزیر اعلی ممتا بنرجی اور محکمہ پسماندہ طبقات فلاح وبہبود کو کئی خطوط بھیج کر اس کی شکایت بھی کی مگر کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ سات سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود تعلیم کے شعبے میں اوبی سی کوریزرویشن کا فائدہ مسلم بچوں کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ مگر اس سے زیادہ بے حسی اور بے مروتی کا مظاہر ہ مسلم تنظیموں اور مسلم لیڈروں کی جانب سے کیا گیا ہے۔محمد صادق کی جدو جہد اور ان کی کاوشوں کو چھوڑ دیاجائے تو آج تک اس مسئلے پر مسلم تنظیم، ادارے، طلبا تنظیم، سیاسی و ملی لیڈران اور صاحب جبہ و دستا رمیں سے کسی نے بھی ریزرویشن پالیسی کے نفاذ کیلئے نہ جد وجہد کی اور نہ ہی حکومتی حلقے پر دباؤ بنانے کی کوشش کی۔
2011تک بنگال کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی تعداد چار فیصد تھی اب اس میں اضافہ ہوکریہ تعداد 5 فیصد ہوگیی ہے۔ یعنی دس سالوں میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی درجے میں تسلی بخش نہیں ہے۔اس میں بھی عالیہ یونیورسٹی اور گوربنگویونیورسٹی جہاں مسلم طلبا کی اکثریت ہے کو نکال دیا جائے تو ریاست کی معیاری یونیورسٹی میں مسلم طلبا کی تعداد میں تین فیصد سے بھی کم ہے۔ جادو پوریونیورسٹی جہاں دس ہزار کے قریب طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں وہاں مسلم طلباکی تعداد اس وقت 350سے 400 کے درمیان ہے۔یہی صورت حال بنگال کی دیگر یونیورسٹیوں کی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر بات کیجاتی ہے تو دوسری طرف مسلم اکثریتی علاقوں میں کالجوں اور تعلیمی اداروں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ شمالی دیناج پور جہاں مسلم آبادی 51 فیصد ہے وہاں محض 7کالج ہیں۔ یعنی 76380 آبادی پر ایک کالج ہے۔ جب کہ جنوبی دیناج پورجہاں شمالی دیناج پور کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں 36.5 آبادی پر ایک کالج ہے۔ مرشدآباد میں مسلمانوں کی آبادی 68 فیصد کے قریب وہاں 50561 آبادی پر ایک کالج ہے۔ مالدہ جہاں مسلمانوں کی آبادی 51 فیصد ہے وہاں 63575 آبادی پر ایک کالج ہے۔ حکومت کے اعداد وشمار بتاتے ہیں جن اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں کالج کی تعداد زیادہ ہے۔یہی صورت حال سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کا ہے۔ مرکزی وزارت تعلیم کے تحت آل انڈیا سروے آف ہائیر ایجوکیش کی رپورٹ میں مغربی بنگال میں تعلیمی صورت حال کی بھیانک تصویر دکھائی گئی ہے۔
مغربی بنگال میں فی لاکھ آبادی پر صرف 13 کالج ہیں، جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں فی لاکھ آبادی پر 28 کالج ہیں۔ ریاست میں اعلی سطح کا تعلیمی انفراسٹرکچر عام طور پر بہت خراب ہے اور وہ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں مرکوز ہیں۔ دوسری طرف جن اضلاع میں مسلم آبادی ہیں وہاں تعلیمی ادارے بہت ہی کم ہیں۔ کلکتہ شہر میں 11یونیورسٹیاں ہیں۔ جب کہ مسلم اکثریتی اضلاع مرشدآباد، مالدہ اور شمالی دیناج پورتینوں اضلاع میں صرف ایک یونیورسٹی مالدہ میں ہے۔ اور یہ یونیورسٹی بھی 2008 میں ہی قائم ہوئی جہاں اب بھی کئی اہم شعبے قائم نہیں ہوئے ہیں۔ ممتا بنرجی نے دو سال قبل مرشدآباد جہاں مسلم آبادی 68 فیصد ہے میں یونیورسٹی قائم کرنے کااعلان کیا۔ مگر دوسال بیت چکے ہیں اب تک مرشدآباد میں اعلان کردہ یونیورسٹی کیلئے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ جب کہ اس کے بعد شمالی 24 پرگنہ میں ٹھاکر چندریشور یونیورسٹی اور ندیا میں کنیا شری یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا گیاتھا اور اس پر کام شروع ہوگیا ہے۔مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی قلت کی وجہ سے مسلم بچوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت ہی زیادہ ہے۔ کلکتہ کے مشہور اردو میڈیم محمد جان ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عالمگیر نے بتایا کہ بارہویں جماعت میں سائنس لینے والے طلبا کی تعداد انتہائی کم ہے۔جب محمد جان ہائی اسکول کی یہ صورت حال ہے تو کلکتہ شہر کے دیگر اردو میڈیم اسکولوں کے حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب کہ بیشتر اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی نصف سیٹیں خالی ہیں۔ بیشتر مضامین کے اساتذہ نہیں ہیں