ترونت پورم (ایجنسی)
پانچ دہائیوں کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ نے مسلم خواتین کو ماورائے عدالت اپنے شوہر سے اسلامی قوانین کے مطابق طلاق لینے کے اختیارات کو بحال کردیا ہے ۔کیرالہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے مختلف سماعت اور فیملی عدالتوں کے فیصلہ جائزہ لینے کے بعد کیا ہے ۔
کیرالہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے 1972میں کیرالہ ہائی کورٹ کے یک رکنی بنچ کے اس فیصلہ کو بدل دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کہ مسلم خواتین کے لیے طلاق مانگنے کے لیے صرف ہندوستانی عدالت کے ذریعہ ہی طلاق لے سکتی ہیں ۔اسلامی قوانین کے ذریعہ طلاق لینا قانون کی خلا ورزی قرار دیا گیا تھا۔
کیرالہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ’’قرآن کریم نے مردو عورت دونوں کوطلاق کا مساوی حق دیا ہے۔بنچ نے کہا کہ 1972کے یک رکنی بنچ کے فیصلےکے بعد سے ہندوستان میں بالخصوص کیرالہ میں مسلم خواتین کےلئے اپنے شوہر سے طلاق لینا کافی مشکل ہوگیا ہے ۔
دراصل ہندوستان میں مسلم خواتین کے لیے ’ڈیسولیوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939‘ کے تحت نو صورتوں میں اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لیے فیملی کورٹ جانے کی گنجائش ہے۔اس میں شوہر کی طرف سے ظالمانہ سلوک، دو سال تک گزارے کے لیے رقم نہ دینا، تین سال شادی نہ نبھانا، چار سال تک غائب رہنا، شادی کے وقت سیکس کی صلاحیت نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
جسٹس اے محمد مصدق اورجسٹس سی ایس ڈائس پر مشتمل بنچ نے کہا ہے کہ خواتین کا اپنے شوہر کو اسلامی طریقے سے طلاق دینا ہندوستانی قانون کے تحت صحیح ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں یہ ہندوستانی قانون کے تحت طلاق لینے کے علاوہ، اب مسلم خواتین کے پاس اسلامی قوانین کے تحت طلاق لینے کے اختیارات ہوں گے اور انہیں ماورائے قانون نہیں سمجھاجائے گا ۔
کیرالہ فیڈریشن آف وومن لائرز‘ کی سرکردہ وکیل شاجنا ایم نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بتایاکہ ’عدالت کا راستہ مسلم خواتین کے لیے بہت مشکل رہا ہے، کئی بار دس دس سال تک کیس چلتے ہیں، خرچہ ہوتا ہے، وقت لگتا ہے اور شوہر کی طرف سے بدسلوکی ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد جمع کرنا پڑتے ہیں۔جماعت اسلامی ہند کی سینٹرل ایڈوائزری کمیٹی کی رکن شائستہ رفعت بھی کہتی ہیں کہ مسلمان خواتین کی پہلی ترجیح اسلامی طریقے سے طلاق لینا ہے نہ کہ قانون کے راستے سے جو طویل اور پیچیدہ ہے۔
کیرالہ میں فیملی کورٹس میں مسلم جوڑوں کے کئی ایسے کیس تھے جن میں کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا اور ان کے خلاف اپیل جب کیرالہ ہائی کورٹ پہنچی تو دو ججوں کے ایک بینچ نے انھیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا۔فیصلے میں عدالت نے یہ بات واضح کی ہے کہ ہندوستانی قانون کے علاوہ مسلم خواتین شریعہ قانون کے تحت بھی اپنے شوہر سے طلاق لے سکتی ہیں۔اس کا ایک مقصد فیملی کورٹس کے کیس لوڈ کو کم کرنا اور دوسرا مسلمان خواتین کے طلاق دینے کے حق کو یقینی بنانا بھی ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا ’تین طلاق جیسے غیر اسلامی طریقے کو رد نہ کیے جانے کے لیے تو کئی لوگوں نے آواز اٹھائی تھی لیکن ماورائے قانون کہلائے جانے والے مسلم خواتین کے طلاق کے اسلامی راستوں کا حق واپس دینے پر کوئی مجموعی مطالبہ نظر نہیں آتا۔‘
مسلم خواتین اسلامی طریقے کے تحت طلاق کب لے سکتی ہیں
اسلامی قوانین کے تحت ایک مسلم عورت کے پاس طلاق دینے کے چار راستے ہیں۔
طلاقِ تفویض: جب شادی کے کانٹریکٹ میں ہی عورت یہ لکھوا دے کہ کس صورت میں وہ اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہیں۔ مثلاً اگر وہ بچوں کی پرورش کے لیے پیسے نہ دے، گھر چھوڑ کر چلا جائے، جسمانی تشدد کرے وغیرہ۔
خلع: جس میں عورت ایک طرفہ طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی۔ اس میں شادی کے وقت طے کیا گیا حق مہر عورت کو نہیں ملتا۔
مبارت: عورت اور مرد آپس میں بات چیت کر کے طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں۔
فسخ: عورت اپنا طلاق کا مطالبہ قاضی کے پاس لے جاتی ہے تاکہ وہ اس پر فیصلہ دیں۔ اس میں بھی عورت کو حق مہر شوہر کو واپس کرنا پڑتا ہے۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان تمام راستوں کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ ’خلع‘ کے معاملے میں طلاق سے پہلے ایک بار صلح صفائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔
’فسخ‘ کے علاوہ باقی سارے راستوں کے لیے عدالت نے کہا ہے کہ جہاں تک ہو سکے فیملی کورٹ صرف ان فیصلوں پر مہر لگائے، ان کی سماعت نہ کرے۔
شائستہ رفعت اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اسے خواتیں کے حقوق کے لیے صحیح قدم قرار دیتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’جو عورتیں شوہر سے بہت پریشان ہیں اور جو انھیں طلاق نہیں دینے دے رہے، انھیں کچھ راحت ملے گی۔ قاضی کو بھی عورت کی بات سننا ہو گی ۔۔‘
دراصل پچاس سال پہلے 1972 میں طلاق کے اسلامی طریقوں کو ’ماورائے قانون‘ قرار دیے جانے کے باوجود زمینی حقیقت یہی تھے کہ مسلم خواتین عدالتوں کا چکر کانٹنے کے بجائے اسلامی طریقے سے طلاق حاصل کرتی رہیں ہے
یہی راستے منتخب کرتی رہیں۔
کیرالہ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ’اِنٹروینر‘ یعنی ماہر کے طور پر شامل ہونے والی شاجنا ایم نے بھی یہی دلیل سامنے رکھی تھی۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ قانونی طور پر ان راستوں کو صحیح تصور نہ کیے جانے کا اثر یہ تھا کہ اگر طلاق مانگنے والی عورت کا شوہر انکار کر دے تو اس کے پاس عدالت جانے اور پھر طویل قانونی عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا تھا۔یعنی اسلامی قانون میں طریقہ ہونے کے باوجود انھیں طلاق اس لیے نہیں ملتی تھی کیونکہ شوہر اسے ’ماورائے قانون‘ قرار دیے جانے کا حوالہ دے کر منع کر سکتے تھے۔اب شاجنا کہتی ہیں ’کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عورتیں عدالت کے بغیر اسلامی طریقوں سے طلاق حاصل کر پائیں گی اور اسے قانونی درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے شوہر اورقاضی کو بھی ماننا پڑے گا۔‘