توہین رسالت کے خلاف قانون کیوں ضروری ہے؟:
نور اللہ جاوید
مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے توہین رسالت مغرب کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔اس طرح کے واقعات پر مسلمانوں کی شدید برہمی، ناراضگی اور مسلم دنیا میں توہین رسالت کے مرتکبین کیلئے سزائے موت کے قانون کو حقوق انسانی ، اظہار رائے کی آزادی مخالف قرار دے کر مسلمانوں کا مذاق بنایا جاتا ہے اور مسلمانوں پر یہ الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں مسلمانوں میں قوت برداشت کا فقدان ہے ۔اظہار رائے کی آزادی اور حقو ق انسانی کی دہائی دے کر مغربی دنیا نے اس قدر پروپیگنڈہ کیا ہے کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد مغرب کے موقف کی تائید اور ہمنوائی کرنے لگتی ہے۔ توہین رسالت اور شاتمین رسول اللہ کی سزا سے متعلق مسلمانوں کا موقف ہمیشہ سے واضح رہاہے ۔در اصل اس معاملے میں مغرب کے منافقانہ رویہ کو بے نقاب کرنے کے ساتھ پوری دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں امت مسلمہ کی دل آزاری اور انہیں تکلیف پہنچانا حقوق انسانی کی پاسداری نہیں ہوسکتی ہے بلکہ یہ انسانیت کی تذلیل ہے کہ چندگروپ اپنے انا کی تسکین کیلئے ایک ارب سے زاید مسلمانوں کی دل آزاری کیسے کرسکتے ہیں؟۔کیا فرد کی آزادی اجتماعی عزت نفس سے بڑھ کرہے؟ ۔اس کے ساتھ ہی اظہار رائے کی آزادی سے متعلق مغرب کے خود کے رویے پر بھی بحث ہونی چاہیے کیا وہ خود اپنے معاشرے میں مطلق آزادی کے حق میں ہیں؟ اور اس کی پاسداری کرتے ہیں ؟اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنے کی ضروررت ہے کہ بے لگام آزادی اظہار رائے کی آزادی کے خبط میں مبتلا مغرب توہین رسالت کا بار بار ارتکاب کرکے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟۔
اس وقت مسلمان دنیا کے ہر خطے میں سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے مکمل طور پر مغلوب اور شدید نوعیت کے مذہبی اختلافات میں مبتلا ہے۔زوال ،پستی ان کا مقدر بن چکا ہے ، دنیا کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہیں جہاں مسلمانوں کو برتریت حاصل ہے اور کوئی بھی ایسا خطہ اس وقت نہیں ہے جہاں مسلمان پرسکون ماحول میں جی رہے ہیں ۔حتی کہ مسلم ممالک میں بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، مصر سے لے کر شام تک مسلمانوںکے خون بہائے جارہے ہیں، لیبیا،عراق، یمن، صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں مسلمانوں کو مقتل بن چکے ہیں۔مسلم حکمراں حرم اور اہل حرم کی پاسبانی کرنے بجائے اپنوں کے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں ۔قصہ مختصر مسلمان اس وقت سراپا زوال پذیر معاشرہ کی تصویر ہے ۔امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال کے باوجود اب بھی پوری دنیا اسلام فوپیا کی شکار ہے ، دنیا کی ہرایک تہذیب و تمدن کو اسلام سے ہی خطرہ محسوس کرتی ہے۔آخر کیوں ؟ اسلام تمام مذاہب کا احترام اور تمام انبیاء علیہ السلام کی صداقت و حقانیت پر ایمان کی تلقین کرتا ہے اس کے باوجورہبر اعظم محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان کے نشانے پر رہتے ہیں؟ اس کی وجوہات کو سمجھنے کیلئے مغرب کے مقبول ومشہور مصنف سموئیل ہن ٹنگٹن کی کتاب ’’تہذیبوں کے ٹکراؤ‘‘ (Clash of Civilizations)کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔انہوں نے لکھا ہے کہ
’’مغرب کیلئے اصل مسئلہ ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ (Islamic Fundamentalism) نہیں ہے بلکہ اسلام بذات خود ہے‘‘۔
چوں کہ اسلام نے مغرب کے کلیات وجزئیات کے برخلاف الہی بنیادوں پر انسانوں کی رہنمائی کی ہے اور زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں اسلام نے اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آفاقی پیغام اور قرآن مجید کی لازوال تعلیمات اور اس کی سچائیاں مقناطیسی صلاحیت رکھتی ہے ۔اگریہ سب صحیح شکل و صورت کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائے تو مغرب کی معاشی ،سماجی اور علمی برتریت خطرے میں پڑجائے گی ۔اسلام ’’ترقی یافتہ‘‘ ،’’ ترقی پذیر‘‘ اور‘‘ تیسری دنیا‘‘ کے نام پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف ہے ۔اس کے نزدیک دنیا کے سارے انسان برابر ہیں ، افضلیت اور برتریت صرف اور صرف علمی و تقویٰ کی بنیاد پر ہے ۔ اسلام کے دور عروج میںیہ عملی صورت میں دنیا کے سامنے ظاہرہوچکا ہے۔ انصاف، حقو ق انسانی ، اظہار رائے کی آزادی ، خواتین کو معاشرہ میں عزت ومقا م جو اسلامی دور میں حاصل تھے اس کا آج تصور تک نہیں کیا جاسکتاہے۔ برابری کے نام پر آج خواتین کو نمائش کی شی بنادی گئی ہے ، صنف نازک پردوہری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے ۔چناں چہ مساوات اور انصاف کے تمام نعرے دھڑے کے دھڑے رہ گئے ہیں اور آج بھی خواتین انصاف کی منتظر ہیں ۔
ہونا یہ چاہیے تھا’’ انسانیت اور آزادی کے علمبردار مغرب ‘‘اسلامی تعلیمات کی روشنی سے دنیا کو جنت بنانے میںمعاون ومدگار بنتے مگر اس نے صرف اپنی برتریت ،حکمرانی اور باقی دنیا کو سماجی ، معاشی نوآبادیات بنائے رکھنے کیلئے اسلامی تعلیمات کو مشکوک اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو داغدار کرنے کا محاذ کھول دیا ۔پہلے علمی تحقیق کے نام پر مستشرقین کی ایک پوری جماعت تیار کی گئی جن کا کام ہی اسلام اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں نقص نکالنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مشکوک بنانا تھا ۔حقائق سے ماوراء مستشرقین کی علمی کاوش کو پوری دنیا میںسند کی حیثیت سے پھیلا یا گیا مگر اس مہم میں مغرب کومنھ کی کھانی پڑی بلکہ مستشرقین کی جدو جہد اسلام اور مسلمانوں کی رحمت ثابت ہوئی علمائے اسلام نے ان کا بھرپور جواب دیا اور اس کی وجہ سے اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے کئی ایسے پہلو سے دنیا روبرہوئی جس پر بہت ہی کم بات ہوتی تھی۔معاشی، عسکری اور ابلاغی برتریت کے باوجود اس ناکامی نے مغرب کے دانشوروں کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیا۔اور اس کے بعدحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ہرزہ سرائی اور قرآن مجید کی بے حرمتی کیلئے تضحیک آمیز اور دل آزار اسلوب اپنا یا تاکہ مسلمان غم و غصہ میں آپے سیباہر ہوجائیںتاکہ مسلمانوں کورجعت پسند،متشدد اور دقیانوس ثابت کیا جاسکے۔ان حرکتوں کو اظہار رائے کی آزادی ، حقوق انسانی کی پاسداری کے خوشنما نعروں کے فریب میںجواز بخشنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مغرب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس مسلمانوں کی قوت کا اصل سرمایہ ہے، مسلمانوں کی وحدت آپؐ سے وابستگی میں مضمر ہے، آپؐ سے نسبت ہی مسلمانوں کو ایک ملت بنارکھا ہے اورجسد ملی میں تبدیل کردیا ۔ان کی وجہ سے ایمان ایمان ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع مسلمانوں کا سب سے قیمتی متاع ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک اہل ایمان کیلئے تحریک ہے اور یہ رگوں میں خون بن کر دوڑ تا ہے ، قلب کی دھڑکن ،آنکھوں کا نور بن چھلکتا ہے۔کسی بھی ملک یاخطہ سے وابستہ کلمہ گو مسلمان اسی ہستی سے وابستہ ہے، احساسات و جذبات کے لطیف ارتعاش سے لے کر زندگی کے جملہ مسائل تک اسلامی تہذیب و تمدن اور فکر و عمل کیلئے قوت محرکہ بننے والا مبارک نام بلاشبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت مومن گراں بہا سرمایہ ہے اور کسی مومن کا دل اس سے خالی نہیں ہوسکتا ہے۔پوری انسانی تاریخ میں اگر کوئی زندگی ہر لحاظ سے سینوں اور سفینوں میں محفوظ ہے تو وہ صرف حضرت خاتم النبین احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی ہے۔یہی ایک زندگی ہے جو پوری کی پوری حافظے میں ذہن و فکر میں بلکہ اعمال و کردار میں محفوظ ہے۔چناں چہ ادنی سے ادنی ایمان والے کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین یا پھر آپ کی ذات اقدس پرچھینٹے اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے توایمان و عمل سے کوسودور مسلمان جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے اورناموس رسالت کے تحفظ کیلئے جا ن کی بازی لگادیتا ہے۔بقول شاعر :
نماز اچھی ،روزہ اچھا، حج اچھا، زکوہ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلمان ہونہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروںخواجہ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہونہیں سکتا
کسی اور نے کہا ہے کہ
محمدؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
’’مغرب کی برتریت کا خوب دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی وحدت، قوت و توانائی،سربلندی کا راز حضور صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستگی اور عشق و محبت میں پوشیدہ ہے’’دردل مسلم مقام مصطفی است‘‘۔ملت اسلامیہ کا یہی ’’قلب ‘‘ اور دارالحکومت ہے۔اس کی شکست و ریخت ،بربادی اور اس پر قبضہ کے بغیر اس ملت کو زیر کرنے کا اور کوئی نسخہ نہیں ہے ۔ چناں چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اولین ہدف رہا ہے ۔ہروہ شخص مغرب کی آنکھوں کا تارا ہے جو ناموس رسالت کی توہین کرے،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے تیسرے درجے کے ادیب کی پذیرائی کا راز بھی یہی ہے ۔ہر وہ جو شریعت مصطفوی کو بے وقعت کرے، تعلیمات محمد کو مشکوک بنائے اور مقام مصطفی کو مجروح کرے وہ ان کا محبوب اور ہردل عزیز ہے ۔حکیمان مغرب کا فتویٰ ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیںذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
( توہین رسالت کا مقدمہ :تحفظ ناموس رسالت)
طرفہ تماشا ہے ایک ارب سے زاید مسلمانوں کی دل آزاری کو اظہار رائے کی آزادی ،جینواکنونشن کے چارڈر اور امریکی دستور کی پہلی ترمیم کا بھونڈا حوالہ دے کر توہین رسالت کے واقعات کو یہ کہہ کر مغرب کے حکمراںجواز بخشتے رہے ہیںوہ اپنے شہریوں کی آزادی میں مداخلت نہیںکر سکتے ہیں ۔تعجب خیز بات ہے کہ’رسالت‘ توبڑی چیز ہے، مہذب دنیا میں انسان کی عزت و آبرو کو تحریری یا زبانی نقصان پہنچانا جرم رہا ہے۔دنیا کے ہرملک میں ’’ہتک عزت‘‘(defamation)کے جرم کیلئے سزا کا قانون موجود ہے ۔کسی انسان کی بے عزتی و توہین کوفرد کی آزادی اور اس کا بنیادی حق مان کراجازت نہیں دی گئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب ایک عام آدمی کی ہتک عزت قابل تعزیر جرم ہے تو پھر مذہبی پیشوا کی توہین پر پابندی کیوں نہیں ہے اور قابل تعزیر کیوں نہیں ہے ؟ ایک ایسا پیشواجس کیلئے ایک ارب سے زاید مسلمان جان و مال قربان کرنے کو تیار ہے ۔جن کی عزت سے مسلمانوں کی عزت و توقیر وابستہ ہے ۔بلکہ وہ مسلمان ہی نہیں ہوسکتا ہے جس کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اس کے جان ومال ،والدین اور اولادسے بڑھ کر نہ ہو۔
لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ ولدہ والناس اجمعین(بخاری ومسلم)
چناں چہ شروع سے ہی مسلمانوں کا موقف اور تسلسل عمل رہا ہے کہ نبی آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے علیہم السلام کی توہین ناقابل معافی جرم ہے ۔اس معاملے میں کبھی بھی امت میں اختلاف نہیں رہا اور نہ امت نے اس معاملے میں ذرہ برابر کوتاہی برتی ہے اورسیاسی مصلحت سے کام سے لیا ۔اسلام مذہبی بحث و تحقیق کا کبھی بھی منکر نہیں رہا ہے ، علم و تحقیق کی ہمیشہ سے حوصلہ افزائی کی ہے مگر علم و تحقیق کی آڑ میں توہین اور کردارکشی کی سخت ممانعت کی ہے ۔۔قرآن کریم اپنے ماننے والوں یہ پیغام دیتا ہے کہ لاتسبوالذین یدعون من دون اللہ ۔جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں مت دو ‘‘۔سماج و معاشرہ میں امن ، اجتماعی جذبات کو بے قابو ہونے سے روکنے کیلئے انبیاء علیہم السلام کی توہین پر ’’سزائے موت‘‘ دے کر اسلام نے پرامن معاشرہ کی تعمیر کی ہے ۔یہ سخت سزا اس لیے بھی ہے کہ کوبھی سرپھرا پنی انا وجذبات کی تسکین اور تعصب میں اندھے ہوکر کروڑوں افراد کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے ۔اس سزا پر نہ صرف فقہائے امت کا اجتماع ہے بلکہ قرآن و سنت اور دورسالت میں رونما ہونے والے واقعات سے ثابت ہیں۔دنیا کے ہر ایک مسلم ملک میںیہ قانون نافذ ہے ۔ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمد سے قبل یہ قانون نافذ العمل تھا ۔غلامی کے دور میں بھی مسلمانوں نے شہادتیں پیش کرکے اس قانون کو نافذ کیا ہے ۔کوئی بھی نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس معاملے میں امت انتشار خیال کی شکار رہی ہے۔
اسلام کے اس قانون کواظہار رائے کی آزادی اور اقوام متحدہ امن چارڈر کے منافی قرار دے کر مغربی دنیا میں خوب واویلا مچایا جاتا ہے ۔مغربی تہذیب و تمدن کی عظمت کے اسیر مسلم دانشوروں کا بھی ایک بڑا طبقہ توہین رسالت کے واقعات پر مسلمانوں کی ناراضگی اور مسلم دنیا میں سزائے موت پر معترض ہے یہ دلیل پیش کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رسول رحمت ہیں ان سے اس طرح کی سزا کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کو ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مگر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار افراد کو معافی نہیں دی تھی ۔توہین رسالت کی سزا کے منکرین کا علمی محاکمہ پروفیسر محمد محسن عثمانی ندوی نے اپنے مضمون میں ’’شاتم رسول کے قتل کی سزا سے انکار کا فتنہ‘‘ میں کرتے ہوئے روشن خیال اور لبرل مسلم طبقے کو آئینہ دکھایا ہے ۔جہاں تک شاتم رسو ل اللہ اور اہانت کے مرتکبین کی سزا کا قرآنی ثبوت کی بات ہے تو قرآن مجید میں کئی ایسی آیتیں جس میں واضح طور پر شاتم رسول کی سزاکا اعلان کیا گیا ہے۔
ان الذین یوذون اللہ و رسولہ لعنم اللہ فی الدنیا والآخرۃ و اعدلہم عذابا مھینا(الاحزاب 57)
دوسرجگہ ارشاد باری تعالی ہے
ملعونین اینما ثقفوااخدو و قتلو تقتیلا سنۃ اللہ فی الذین خلو من قبل و لن تجد لسنہ اللہ تبدیلا(الاحزاب 61-62)
قرآنی آیات کے علاوہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی شاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصحاب کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے قتل کیا ہے۔بعض مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بعد میں ہوا اور آپ نے اس کی تصدیق کی جسے ہلاک کیا گیا ہے وہ واقعی میں شاتم تھا یا نہیں ۔امام محمد ابن تیمیہ کی شاہکار تصنیف ’’الصارم المسئول‘‘ میں اس طرح واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ توہین رسالت کے واقعات کو اظہار رائے کی آزادی قراردینے والے اس پہلو کو فراموش کردیتے ہیں کہ ’’ فردہو یا قوم، دونوں کے وجود کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک جسمانی اور طبیعی اور دوسرا روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی جس سے اس کی شناخت واضح ہوتی ہے۔ جس طرح نفس اور جسم پر ہروہ حملہ یا ضرب جو قانون سے ماوراہو، ایک جرم اور لائق تعزیر ہے، اسی طرح روحانی اور نظریاتی وجود اور شناخت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر جارحیت کے خلاف مزاحمت، ہر فرد اور قوم کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ معاملہ ملک کے اندر ہو یا اس کا تعلق اقوامِ عالم سے ہو، انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امن و آشتی اور سلامتی و استحکام کا انحصار قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان پر عمل اور ان کی نگرانی پر ہے۔ ان حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ انتشار، تصادم اور فساد فی الارض کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا ہے ۔ اہانت رسول پر سزا کے نفاذ کی حکمت کو جسٹس محمودد غازی نے اس طرح توضیح کی ہے۔
’’توہین رسالت کے قانون کا مقصدتو پیغمبر اسلام کی شخصیت کاا حترام اور تحفظ ہے ،یہ قانون اور ان روایتی معنوں میں توہین کا قانون نہیں ہے جو مختلف مغربی ممالک میں رائج ہے ۔نہ اسے قرون وسطیٰ کے یورپ کے ان قوانین کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے ،جومذہبی شخصیات کی توہین یا ان کے خلاف باتیں کرنے والوں پر نافذ کیے جاتے تھے۔نہ اسے اسپین میں مسلم دور کے بعد ملحدین کے خلاف رائج قوانین سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔درحقیقت یہ قا نون رہنمائی اور ہدایت کے اس سرچشمہ کی حرمت کی ضمانت ہے ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ ، پیغمبراسلام کی شخصیت کی حرمت کے بارے میں نہایت حساس رہا ہے ۔صحابہ کرام (رضوا ن اللہ علیہم اجمعین)کے دور سے اب تک دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف حالات اور تاریخ کے مختلف مراحل کے دوران رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی حرمت کے بارے میں مسلمانوں کا رد عمل کا تسلسل بھی دیکھا جاسکتاہے۔‘‘
ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام تنہا مذہب ہے جس نے شاتم رسو ل اللہ کی سزا متعین کی ہے ۔بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی اس طرح کی سزائیں موجود ہیں ۔ یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتابوں عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید پر نظر ڈالی جائے تو عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں توہین مذہب اور مذہبی پیشوائوں کی توہین پر سزا رکھی گئی ہے ۔عہدنامہ قدیم میں ایک خدا کی توہین سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جو خدا کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے‘ ۔ساری جماعت اس قطبی کو سنگسار کرے خوا وہ دیسی ہو یایردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے گا۔انگریزی کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
And he that blaspjhemeth the name of the lord, he shal surely be put to death, and all the congregation shal certainy stone him:as well as the stranger, as he that is born in the land ,when he basphemeth the name of the Lord, shall be put to the death(Leviticus24:11-6)
میثاق جمہوریت کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں
Wherefor I say uto you, all manner of sin and blasphemy shal be forgiven unto men:but to blasphemy against the Holy Christ ,shal not be forgiven unto men (Mathew12-31)
اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ’’اس لیے میں کہتاہوں کہ آدمیوں کا ہرگناہ اور کفر معاف کیا جائے گا مگر جو کفر و روح مقدس کے بارے میں ہو وہ معاف نہیں کیا جائے گا.
(متی باب 31;12کتاب مقدس)
برطانیہ اور امریکہ میں بھی حضرت عیسی علیہم السلام کی توہین پر سزا انتظام کیا گیا۔ برطانیہ جیسے متنوع اور تکثیری سماج میں بھی ملکہ برطانیہ کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا Blashemyکے زمرے میں ٓاتا ہے ۔حضرت عیسی ٰ و حضرت موسی علیہم السلام کی شخصیت تو واقعی میں عظیم ہیں ۔اگر ان کی توہین پر سزا ہے تو ہمیں بھی اعتراض نہیں ہے ۔مگر اعتراض صرف یہ ہے کہ جن بنیادوں پر حضرت عیسی اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی توہین قابل تعزیر ہے انہی بنیادوں پرنبی آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین قابل تعزیر کیوں نہیں ہے ؟۔
سلمان رشدی کوبرطانیہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی اجازت دینے والے اپنی ملکہ کی توہے کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔منافقت کا عالم یہ ہے برطانیہ حضرت عیسی ٰ علیہم السلام کی توہین کی سزا کے ساتھ نبی آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو بھی جرم کے زمرے میں میں شامل کرنے سے صاف انکار کردیتاہے ۔ ’’ہولوکاسٹ‘‘ایک تاریخی نوعیت کا واقع ہے۔اس کے وقوع ہونے یا پھر اس کے اثرات و اعداد وشمار پر بحث کی گنجائش ہے ۔مگراسی مغرب میں ہولوکاسٹ پر تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر تحقیقی و علمی گفتگو کرنا اور اس کے وقوع پر شک کا اظہار بھی قابل تعزیر ہے اور اس کے مرتکبین کو طویل مدت کی سزاد ی جاتی ہے۔ یورپ کے 43ممالک میںAnti Semitismاور ہولوکاسٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں ۔اس قانون کے تحت اس واقع سے متعلق میں ہر نوعیت کا منفی تبصرہ قابل جرم ہے اس پر قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ امریکا میں بھی ایک دوسرے انداز میں قانون تک موجود ہے جسے: Global Anti-Semitism Review Act of 2004کہا جاتا ہے اور عملاً جس کے نتیجے میں یہودی مذہب تک کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر صہیونی لابی کے زیراثریہ قانون سازی ہوسکتی ہے تو 1.6ارب مسلمانوں اور ان کی 75آزاد مملکتوں کے جائز دینی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی؟
بلجیم ، چک ری پبلک ، فرانس ، جرمنی ، ہنگری ، سوئزر لینڈ، ہالینڈ، اور پولینڈ ،اسپین ، پرتگال اور رومانیہ میں باضابطہ قانون ہے۔مشہور صحافی و مصنف رابرٹ فکس نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ کے 31ستمبر 2012 کے شمارے میں ’نیوزی لیڈ کے ایک ایڈیٹر کی گفتگو نقل کیاہے ۔
ایڈیٹر بڑے فخر سے دعویٰ کرتا ہے کہ’’ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے والے ڈینش کارٹون اپنے اخبار میں شائع کیے ہیں ،جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ جب اسرائیل لبنان پر دوبارہ حملہ کرے گا تو کیا تم ایک ایسا کارٹون شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہو جس میں ایک ربی (rabbi) کے سر میں بم لگا ہو، تو اس نے مجھ سے فوراً اتفاق کیا کہ یہ یہود مخالف ہوگا‘‘۔
جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے بڑے دل نشیں انداز میں اس عقدہ کو یہ کہہ کر حل کردیا تھا کہ ’’مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے لیکن میرے ہاتھ کی جولانیاں وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔ آزادی اسی وقت خیر کا ذریعہ ہوگا جب وہ دوسروں کی آزادی اور حقوق پر دست اندازی کا ذریعہ نہ بنے۔ اظہار راے کی آزادی کے معنٰی نفرت، تضحیک اور تصادم نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کو باقی تمام اقدار سے الگ کرکے نہیں لیا جاسکتا۔ اس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ ہرشخص آزاد ہے لیکن اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے شخص کا غلام بن جائے۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیش تر قوانین میں آج بھی خودکشی ایک جرم ہے، اس لیے کہ آپ خود اپنی جان لینے کے لیے آزادی نہیں ہی۔ نہ کوئی دوسرا بلاحق کے آپ کی جان لے سکتا ہے اور نہ آپ خود اپنی جان کو تلف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اب مغربی مفکرین و دانشور بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ جس آگ سے کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی اخبار Charlie Heboمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے کی اشاعت کے بعد مشہور برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ اپنے اداریہ میں لکھتا تھا کہ :
’’ایک آزاد پریس کا دفاع کرنے کی اس کی خواہش قابلِ تعریف ہوسکتی ہے لیکن اس نتیجے سے بچنا ناممکن ہے کہ یہ رویہ (یعنی ایسے خاکوں کی اشاعت)غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس اقدام سے لازماً دوسرے مشتعل ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ لازماً تشدد کو اُبھارے گا اور اموات واقع ہوں گی۔ سنسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن دوسروں کے گہرے عقائد کا لحاظ نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو اپنا رسالہ فروخت کرنے سے پہلے ان خاکوں کو ہٹا لینا چاہیے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔‘‘
لندن سے شایع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی آبزرور‘‘23ستمبر 2012کے شمارے مغربی دانشور ’’ہنری پورٹر‘‘ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم آزادیِ راے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ یورپ اور امریکا میں مذہبی اور نسلی جذبات اُبھارنے کے خلاف قوانین موجود ہیں جن کو فلم اور کارٹونوں نے توڑا ہوگا‘‘۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون Free Speech Issue Bedevils Web Giants(آزادیِ راے کے مسئلے نے ویب کے بڑوں کو چکرا دیا ہے)میں یہ چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے گئے ہیں کہ اگر گوگل کے خیال میں اس بے ہودہ فلم کو یوٹیوب پر ڈالنا اظہارِ راے کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اسی گوگل نے لیبیا اور مصر کے لیے اس کی اشاعت کیوں روک دی ہے۔ اسی طرح انڈیا اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسے روکا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے لیے روکا جاسکتا ہے تو باقی دنیا کے لیے کیا چیز مانع ہے؟ کیا اسی کا نام اصول پرستی ہے؟
بات صرف اس حد تک دوغلے پن اور دھاندلی کی نہیں۔ Counter Punchکے ایک مضمون نگار نے 14ستمبر 2012کی اشاعت میں ”گوگل کے بارے میں ناقابلِ انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ Jewish Pressکی یکم اگست 2012 کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں170ویڈیو جن میں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا 24گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔ اسی طرح جولائی 2011میں فیس بک نے اسرائیل کے کہنے پر فلسطینی اداروں کے درجنوں اکاؤنٹ بند کردیے حالانکہ ان کے مندرجات کسی قانون سے متصادم نہ تھے۔ فرانس کی حکومت نے مشہور مصنف اور نام وَر فلسفی روجر گارودی کو اسرائیل کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر قید کی سز دی تھی اور آسٹریا میں1989میں انگریز مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کرنے پر تین سال جیل کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔
23ستمبر 2012کے ‘دی آبزوَر” نے ’مسلم غصہ اور برہمی‘ کے عنوان سے اپنے اداریے کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ تصادم کے بجاجائے اور تعاون کا کوئی راستہ نکل سکے‘‘۔