Saturday, July 27, 2024
homeدنیاخالصتان تحریک کیا ہے اور کینیڈا اس کا مرکز کیسے بنا؟

خالصتان تحریک کیا ہے اور کینیڈا اس کا مرکز کیسے بنا؟

بھارت اور کینیڈا کے درمیان حالیہ تناؤ بہ ظاہر علیحدگی پسند تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر محض حالیہ واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو 2015ء میں جسٹن ٹروڈو کے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل تنازعات جنم لیتے رہے ہیں۔

2017ء میں ٹروڈو کی خالصہ پریڈ میں شرکت ہو یا 2020ء میں بھارت کے اندر کسان تحریک سے ان کا اظہار ہمدردی یا رواں برس اونٹاریو میں اندرا گاندھی کے قتل کی منظر کشی ہو، بھارت نے ایسے واقعات کو خالصتان تحریک سے جوڑتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

2017ء میں کینیڈا کے وزیر دفاع اور خالصتان تحریک کے حامی ہرجیت سجن بھارت آئے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ 2018ء میں جسٹن ٹروڈو نے بھارت کا دورہ کیا تو ان کے استقبال کے لیے ایک جونیئر وزیر کو بھیجا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہ بھارت کا ٹروڈو سے ناراضی کا اظہار تھا۔

کینیڈا کے 16 گردواروں نے دسمبر 2017ء میں بھارت کے سفارتی عملے اور منتخب نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مبصرین کے نزدیک ایسے تمام واقعات کینیڈا میں سکھوں اور خالصتان تحریک کے بڑھتے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ کینیڈا اسے آزادی اظہار اور بے ضرر سیاسی سرگرمیوں سے تشبیہ دیتا ہے جبکہ بھارت کے نزدیک یہ ان کی ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہے، جس کے سبب دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ گہری ہوتی جا رہی ہے۔

لیکن یہ خالصتان تحریک کیا ہے اور اگر یہ بھارت میں آزاد سکھ ریاست کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کی سرگرمیوں کا مرکز کینیڈا کیسے بنا؟ آئیے اس سوال کا جواب کھوجتے ہیں۔

1947ء کے بعد سکھوں کی شناخت کا مسئلہ اور پنجابی صوبہ تحریک
انڈین نیشنل کانگریس نے 1920ء میں اپنی سالانہ میٹنگ میں وعدہ کیا تھا کہ آزادی کے بعد زبان کی بنیاد پر ریاستیں قائم کی جائیں گی۔ یہ وعدہ 1928ء کی موتی لال نہرو رپورٹ میں شامل ہے۔ مصنف جے ایس گریوال اپنی کتاب دی سکھس آف پنجاب میں لکھتے ہیں کہ ’1947ء میں پنجاب کی تقسیم کے بعد سکھ ان علاقوں میں اکثریتی آبادی (تقریباً 60 فیصد) بن گئے جو آج بھارتی پنجاب کا حصہ ہیں۔ اس نئی سماجی و سیاسی شناخت نے انہیں گانگریس کے سامنے ملک کے اندر الگ ریاست کے مطالبے کی بنیاد فراہم کی۔‘

اس وقت انتظامی بنیادوں پر ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش کے کچھ حصوں کو ملا کر ایک یونین ٹیریٹری قائم کی گئی تھی۔ سکھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے زبان کی بنیاد پر الگ صوبے کا مطالبہ کیا۔

1950ء کی دہائی میں پنجابی صوبہ تحریک زور پکڑتی گئی۔ 1955ء میں سیکشن 144 کا نفاذ کرتے ہوئے پنجابی صوبے کے حق میں لگنے والے نعروں پر پابندی عائد کر دی گئی اور سکھوں کے نمائندہ رہنما ماسٹر تارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا جس سے تحریک مزید زور پکڑ گئی۔

اس دوران کانگریس کا موقف رہا کہ اگر زبان کی بنیاد پر پنجاب کو الگ شناخت دی گئی تو چھوٹی چھوٹی لسانی اکائیاں بھی یہ مطالبہ کرنے لگیں گی۔ احتجاج، گرفتاریاں، کریک ڈاؤن اور مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 1966ء میں اندرا گاندھی نے سکھوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے انہیں الگ صوبہ دے دیا۔

گریوال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تب خالصتان یا الگ خودمختار ریاست کا تصور نہیں تھا۔ اس کی ایک مثال 1962ء کی چین بھارت جنگ ہے۔ ’اس جنگ کے دوران سکھوں نے دفاعی چندے میں 2 کروڑ روپے جمع کروائے‘۔

پنجابی صوبہ تحریک کے مصنف کرنیل سنگھ دود کے مطابق ’1962ء اور 1965ء کی جنگوں میں سکھوں کی وفاداری کے بعد کانگریس کے ذہن میں اگر شکوک و شبہات تھے بھی تو وہ ختم ہوگئے۔ ان واقعات نے اندرا گاندھی کو نئے صوبے کی تشکیل پر مائل کیا۔‘

مگر اس کے باوجود سکھ خوش نہیں تھے۔ کرنیل سنگھ کے مطابق ’چندی گڑھ کو پنجاب میں شامل ہونا تھا مگر ہریانہ والے اس پر تیار نہ تھے۔ یوں چندی گڑھ کو دونوں کا مشترکہ کیپیٹل بنا دیا گیا۔ بعد میں سکھوں کے مطالبات میں چندی گڑھ ہمیشہ نمایاں رہا‘۔


خالصتان تحریک کیسے شروع ہوئی؟
1967ء اور 1969ء کے انتخابات میں کانگریس کو پنجاب سے بری طرح شکست ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجابی صوبہ تحریک چلانے والی سماجی و سیاسی جماعت شرومنی اکائی دل کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی تھی۔ یہ صورت حال کانگریس کے لیے تشویش ناک تھی۔

تاہم بنگلہ دیش کے قیام سے اندرا گاندھی دوبارہ بھارت میں مقبول ہوئیں اور 1972ء میں پنجاب کے اندر کانگریس جیت گئی۔ ذیل سنگھ وزیر اعلٰی منتخب ہوئے۔ مگر 1977ء کے انتخابات ایک بار پھر کانگریس کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوئے اور وہ 117 کے ایوان میں محض 17 نشستیں جیت سکی۔

نامور مصنف کلدیپ نائر اپنی کتاب بیانڈ دی لائنز میں لکھتے ہیں کہ ذیل سنگھ اور سنجے گاندھی نے اکائی دل کی طاقت توڑنے کے لیے سکھوں میں کوئی نیا ’سنت‘ لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کلدیپ نائر کے بقول ’سنجے اور خاص طور پر ذیل سنگھ جانتے تھے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیرون نے اکالیوں کا کیسے مقابلہ کیا تھا۔ کیرون نے اکالی لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کے خلاف سنت فتح سنگھ کو کھڑا کیا تھا۔ اب سنجے گاندھی اور ذیل سنگھ نے کرنیل سنگھ بھنڈراں والا میدان میں اتار دیا۔‘

جی بی ایس سدھو بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسسز ونگ (را) کے ملازم رہے ہیں۔ انہوں نے دی خالصتان کانسپریسی نامی کتاب میں بھنڈراں والا کو کانگریس کا سیاسی ایجنٹ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’کانگریس کی پلاننگ اکبر ون روڈ پر (اندرا گاندھی کے دفتر) ایک گینگ کے ہاتھ میں تھی جس میں سنجے گاندھی، ذیل سنگھ اور کمل ناتھ جیسے لوگ تھے۔ یہ بھنڈراں والا کے ذریعے ایک طرف سکھوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے تھے تو دوسری طرف خالصتان کا مسئلہ پیدا کر کے ہندوؤں کو خوف زدہ کرنا چاہتے تھے۔ مقصد بس آئندہ الیکشن جیتنا تھا۔ تب انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘

جی بی ایس سدھو اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’ذیل سنگھ، بھنڈراں والا سے مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے آپریشن ٹو کا آغاز کیا جس کے تحت 1978ء میں دل خالصہ کی بنیاد رکھی جس نے خالصتان کا مطالبہ کیا۔ دل خالصہ کی پہلی میٹنگ روما ہوٹل میں ہوئی، میٹنگ کے اخراجات چھ سو روپے بنے جو ذیل سنگھ نے ادا کیے‘۔

جرنیل سنگھ بھنڈراں والا— تصویر: ایکس
کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ دل خالصہ کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ مرکز کے پاس ’دفاع، امور خارجہ اور کرنسی‘ ہوگی باقی تمام معاملات میں خالصتان کی ریاست آزاد اور خودمختار ہوگی۔

آپریشن بلیو اسٹار
بھنڈراں والا کی مقبولیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ 1982ء میں وہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں منتقل ہو گئے۔ مصنف سی کے محمود اپنی کتاب وائے سکھس فائیٹ میں لکھتے ہیں کہ ’بھنڈراں والا نے وہاں ایک متوازی حکومت قائم کر دی۔ وہ لوگوں کے فیصلے کرنے لگے۔ ان جیسا احترام تب کسی اور شخصیت کا نہ تھا۔ ان کے اسلحہ بردار جانثار ہر وقت ان کے ارد گرد ہوتے۔‘

اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکریٹری پی سی الیگزینڈر اپنی کتاب مائی ائیرز ود اندرا گاندھی میں آپریشن سن ڈاؤن کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں اس آپریشن کے ذریعے ’بھنڈراں والا کو اکال تخت سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لےجایا جانا تھا۔ اندرا جی نے کہا ایسے تو بہت خون خرابہ ہوگا۔‘ یوں اس آپریشن کی اجازت نہ دی گئی۔

جی بی سندھو کہتے ہیں کمل ناتھ اور ذیل سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ بھنڈراں والا کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ وہ خوفزدہ تھے کہ پس پردہ سازشیں بے نقاب نہ ہوں۔ اس لیے آپریشن بلیو اسٹار کی منصوبہ بندی ایسے کی گئی کہ زیادہ سے زیادہ خون خرابہ ہو اور شور مچے، تاکہ خالصتان کا معاملہ مزید گرم ہو اور کانگریس کو فائدہ ہو۔

جون 1984ء کی ایک شام گولڈن ٹیمپل کو فوجی دستوں نے گھیر لیا اور ایک خونی آپریشن کا آغاز ہوا جس میں ٹینکوں کا بھی استعمال ہوا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں بھنڈراں والا سمیت 492 لوگ مارے گئے جبکہ اس دوران بھارتی فوج کے 83 فوجی ہلاک اور 248 زخمی ہوئے۔


آپریشن بلیو اسٹار کے بعد آکال تخت کا منظر— فائل فوٹو

اندرا گاندھی کا قتل اور خالصتان تحریک کا عروج
اپنے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر حملے سے سکھوں کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ فوجی آپریشن تو کامیاب رہا مگر اس سے سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان نہ ختم ہونے والی دوریاں پیدا ہوگئیں۔ آپریشن کی منصوبہ بندی میں یہ بھی شامل تھا کہ اندرا گاندھی کی سیکیورٹی سے تمام ایسے سپاہیوں کو ہٹا دیا جائے گا جن کا تعلق سکھ مذہب سے ہے۔ مورخین آج بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں اس ضابطے کو کیسے پامال کیا گیا۔

31 اکتوبر 1984ء کو صبح نو بجے اندرا گاندھی گھر سے دفتر کے لیے نکلیں تو دو سکھ سپاہیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ شام تک پورے بھارت میں یہ خبر پھیل چکی تھی۔ جواب میں کئی روز تک ہندوؤں کے ہاتھوں سکھوں کا قتل عام ہوتا رہا اور محض دلی میں 3 ہزار سکھ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

اگلے کئی برس پنجاب میں سرچ آپریشنز اور سکھوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہا۔ اس کے باوجود علیحدگی پسند عناصر خاصے مضبوط رہے۔ 1987ء سے 1992ء تک مسلسل سات برس پنجاب میں صدراتی راج نافذ رہا۔ مبصرین کے مطابق ریاستی انتخابات اس لیے نہیں ہونے دیے گئے کیونکہ دور دور تک کانگریس کی جیت کا امکان نہ تھا۔

پنجاب کی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1981ء سے 1993ء تک خالصتان تحریک کے حوالے سے ہونے والے 12 سالہ طویل پُرتشدد واقعات میں 21 ہزار 496 افراد اپنی جانوں محروم ہوئے۔

کینیڈا خالصتان تحریک کا مرکز کیسے بنا؟
بھارت کے بعد آج سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں مقیم ہے۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 1971ء میں یہ تعداد تقریباً 35 ہزار تھی جو اگلے دس برس میں 67 ہزار اور 1991ء میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ 2021ء تک یہ تعداد پونے آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ ہجرت 1980ء کی دہائی میں ہوئی۔

لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر اور محقق ڈاکٹر جسجیت سنگھ کی کتاب دی آئیڈیا، کونٹیکسٹ، فریمنگ اینڈ ریئلٹیز آف سکھ ریڈی کلائزیشن آف بریٹن اس معاملے پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’پہلے برطانیہ میں رہنے والے سکھوں کی جدوجہد اسکولوں اور دفتروں میں پگڑی باندھنے کے حق کے مطالبے تک محدود تھی۔ یہاں تک کہ 1971ء کی جنگ کے دوران انہوں نے بھارت کے لیے چندہ مہم بھی چلائی۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کی نسل کشی نے برطانیہ میں رہنے والے سکھوں کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔‘

کینیڈا کے شہر وینکوور میں سکھ برادری کے افراد احتجاج کررہے ہیں— تصویر: گلوبل نیوز
وہ لکھتے ہیں ’یہی کچھ کینیڈا میں ہوا۔ اکا دکا واقعات کے سوا کینیڈا کے سکھ کبھی پُرتشدد کارروائیوں کا حصہ نہیں بنے۔ ان کے مطالبات سماجی انصاف کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کینیڈا نے انہیں ’انتہا پسند یا دہشت گرد‘ کے بجائے ’سیاسی کارکن‘ سمجھا۔‘

’مغربی ممالک جمہوریت کی خاطر بھارت کو نظر انداز نہیں کریں گے‘
ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ولسن سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا بھارت اور کینیڈا کے تعلقات کے بارے میں کہنا ہے کہ ’اگرچہ دونوں تعلقات میں دراڑ نہیں چاہتے ہیں لیکن انہیں گزشتہ چند دنوں کے واقعات نے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ مشکل سے ہاتھ آئے گا۔‘

کوگل مین کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی نے کینیڈا کو بھارت کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے پر بات چیت روکنے پر مجبور کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ’ان کے تعلقات اتنے لچک دار اور فول پروف نہیں ہیں جتنا بہت سے لوگ چاہتے ہیں‘۔

اگرچہ دونوں ممالک نسبتاً معمولی تجارتی شراکت دار ہیں، لیکن مبصرین کے مطابق یہ تجارتی معاہدہ دونوں کے لیے ملازمتوں اور جی ڈی پی کے حوالے سے خاصا اہم ہے۔

کوگل مین مزید لکھتے ہیں کہ ’الزامات سے مغرب میں مودی کی بڑھتی ہوئی سافٹ پاور کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ مغربی ممالک جمہوریت کی خاطر بھارت کو نظر انداز کریں گے بالخصوص ایسے تناظر میں جب چین کے خلاف بھارت ان کا اہم اتحادی ہے۔‘

اگرچہ تاحال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ عروج پر ہے۔ بھارت نے کینیڈا کے لیے ویزا سروس بھی معطل کر دی ہے۔ مبصرین کے مطابق نظریں امریکا، برطانیہ اور فرانس پر ہیں کہ وہ اپنے دونوں اتحادیوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں

متعلقہ خبریں

تازہ ترین