جاوید نقوی
کینیڈین شہری اور خالصتان تحریک کے حامی شخص کے قتل پر بھارت اور کینیڈا کے درمیان جاری تکرار کو اگر قوم پرستی کے جذبے سے الگ کرکے دیکھیں تو ایک واضح تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
خالصتان کا تصور 17ویں صدی سے موجود ہے۔ یعنی یہ خیال ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور اس سے آزادی سے بھی کافی زیادہ پرانا ہے۔
بریٹینیکا کے مطابق 1699ء میں گرو گوبند سنگھ کی جانب سے خالصہ کے اعلان نے سکھوں کی اس سوچ کو تقویت دی کہ پنجاب پر حکومت کرنا ان کا حق ہے۔ 1710ء میں سکھ رہنما بندہ سنگھ بہادر کی قیادت میں سکھ افواج نے سِرہِند پر قبضہ کیا جوکہ مغل دور میں لاہور اور دہلی کے درمیان واقع اہم انتظامی مرکز تھا۔ اس پر قبضے کے بعد قریب واقع مخلص پور میں دارالحکومت قائم کیا گیا۔
انہوں نے اپنے سکے جاری کیے، سرکاری مہر بنائی گئی اور خدا اور گرو کے اختیارات کی بنیاد پر احکامات جاری ہوئے۔ بس تب سے یہ تصور کہ ’راج کرے گا خالصہ‘ سکھوں کی دعاؤں کا حصہ ہے اور یہ آج بھی ان کی مذہبی دعاؤں میں لازمی شامل ہوتا ہے۔ بندہ سنگھ کا خالصہ راج کا تصور 19ویں صدی کے اوائل میں مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780ء-1839ء) کی بادشاہت کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ رنجیت سنگھ کے بعد خالصہ راج کا زوال ہوا لیکن یہ تصور زندہ رہا۔
1947ء میں پنجاب کی تقسیم سے قبل ہونے والے مذاکرات میں آزاد سکھ ریاست کا تصور بھی واضح طور پر ابھرا۔ پنجاب کے دیگر باشندوں کے مقابلے میں سکھوں کی آبادی کم تھی جس کی وجہ سے ان کی تجویز پر اس وقت غور نہیں کیا گیا۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں خالصتان کے لیے شروع ہونے والی پُرتشدد علحیدگی پسند تحریک نے پنجاب کو ایک دہائی تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ یہ تحریک بھی ختم کردی گئی لیکن خالصتان کا تصور زندہ رہا اور یہ بات دن میں دو بار گردوارے میں دہرائی جانے لگی-
یوں خالصتان اپنے آپ میں ایک مذہبی تصور ہے جسے پُرتشدد اور عقیدت مند سکھوں نے پروان چڑھایا ہے۔ مذہبی بنیاد پر آزاد ریاست کا یہ خیال ایک ایسے ہندوستان کے لیے ناگوار ہے جس کا نظریہ جامع اور سیکولر ریاست ہے جس میں مختلف ثقافتوں، زبانوں، مذاہب، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے جن کا کوئی مذہب نہیں۔
تاہم وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں بھارت ایک ہندو اکثریتی ریاست بنتا جارہا ہے، ایک ایسا ہندو راشٹرا جہاں ان اقلیتوں کو ناپسندیدہ تصور کیاجاتا ہے جو اپنی آزاد ریاست کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نہرو کے بھارت میں تو خالصتان پر بات ہوسکتی تھی لیکن آج کے ہندوتوا کے تحت چلنے والے بھارت میں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
ہندوتوا کے حامی اپنے حقیقی یا نام نہاد مخالف عناصر پر پاکستانی یا خالصتانی کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کچھ لوگ اپنے پاکستانی یا خالصتانی ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن بھارت میں رہنے والا ہر سکھ یا مسلمان پسند نہیں کرتا کہ اسے ان دونوں ناموں سے پکارا جائے۔
مودی کے کسان مخالف قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے سکھ کسان جنہوں نے بہادری اور پرامن طریقے سے ایک سال تک کامیابی سے جنگ لڑی، انہیں حکومت کے حامی ٹی وی اینکرز نے خالصتانی قراردیا۔ یہ بالکل ایسا کہنے کے مترادف تھا کہ ’چونکہ ہم آپ کو پسند نہیں کرتے، اس لیے آپ کو ہم نے یہ نام دیا ہے‘۔
وہ ہندو مرد اور خواتین جنہوں نے بھارت کی اقلیتی آبادی کے لیے ہندوتوا کے جبر کے خلاف اصولی مؤقف اختیار کیا، انہیں بھی نہیں بخشا گیا اور پاکستانی قرار دے دیا گیا۔ کمیونسٹوں کو پہلے بھی چینی ایجنٹ کہا جاتا تھا اور اب بھی کہا جاتا ہے حالانکہ زیادہ تر بھارتی حامیوں نے چین پر اعتماد نہیں کیا اور وہ سوویت یونین کے قریب تھے جوکہ 1962ء کی سرحدی جنگ میں بھارت کے ساتھ تھا۔
اس کے علاوہ کمیونسٹ شاعر کیفی اعظمی نے فلم حقیقت کے لیے صدا بہار قومی نغمے لکھے۔ اس فلم میں چین کے ساتھ سرحدی جنگ میں بھارتی سپاہیوں کی بہادری کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ تمام عناصر بھارتی شہریوں کی کینیڈا اور دیگر ممالک میں ہجرت کا باعث بنتے ہیں۔
خالصتانی کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی وجہ سے کھڑے ہونے والے تنازع میں سب سے اہم پہلو دونوں ممالک کی طرف سے خودمختاری کے معاملے پر اٹھائے جانے والے سوالات ہیں۔
کینیڈا اس بات سے نالاں ہے کہ اوٹاوا میں سفارتخانے سے منسلک بھارتی ایجنٹس نے کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کو قتل کیا جس سے اس کی خودمختاری مجروح ہوئی ہے۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے مشتبہ بھارتی ایجنٹس کے ہاتھوں ہردیپ سنگھ کے قتل کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈا کی جمہوری روایت اور انسانی حقوق کو سراہا۔
تاہم خیال رہے کہ کینیڈا فائیو آئیز گروپ کا رکن ہے جوکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بنائی جانے والی پانچ اینگلو سیکسن ممالک کی تنظیم ہے۔ یہ ممالک آپس میں انٹیلیجنس کا اشتراک کرتے ہیں اور بے شمار ممالک کی خودمختاری کی بےرحمی سے خلاف ورزی کرچکے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں قتل، بغاوت، اغوا اور خودمختار ممالک اور ان کے رہنماؤں کو تباہ کرنا شامل ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کینیڈا اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہتا ہے۔
تو کیا بھارت دیگر ممالک کی خودمختاری میں دخل اندازی کرتا ہے؟ بھارت نے ہردیب سنگھ کے قتل میں ملوث ہونے کی یکسر تردید کی ہے جبکہ ایک سابق انٹیلیجنس سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے آپریشن کی کبھی اجازت نہیں دی جاتی۔
غیرمتوقع طور پر اس سفارتی تنازع کا سب سے زیادہ فائدہ ممبئی کے مفرور ڈان داؤد ابراہیم کو ملے گا۔ وہ اس وجہ سے کیونکہ بھارت دنیا کو یہی بتا رہا ہے کہ اس کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے جس کے تحت وہ دوسرے ممالک میں جاکر اپنے مطلوب ملزمان کو پکڑ سکے۔ یہ دعویٰ بالکل ویسا ہی ہے جیسا دعویٰ اسرائیل کرتا ہے۔
انڈیا ٹوڈے گروپ نے کچھ سال پہلے ایک سابق ہندوستانی سیکریٹری داخلہ کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کے بارے میں کہا گیا تھا اس نے ’بھارت کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے ایک سب سے زیادہ بدنام باب پر سے پردہ اٹھا دیا ہے‘۔
آر کے سنگھ جو اس وقت بی جے پی کابینہ کے وزیر ہیں، انہوں نے دبئی میں داؤد ابراہیم کو قتل کرنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ داؤد ابراہیم کو مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ کچھ لوگوں کو اسے قتل کرنے کے لیے چنا گیا تھا اور انہیں تربیت دی جا رہی تھی۔ ممبئی پولیس میں کئی پولیس اہلکار داؤد ابراہیم کے لیے کام کررہے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ منصوبہ کیسے لیک ہوا لیکن ممبئی پولیس کو یہ اطلاع ملی کہ ان لوگوں کو فلاں جگہ پر تربیت دی جا رہی ہے۔ ممبئی پولیس وارنٹ گرفتاری کے ساتھ اس مقام پر پہنچ گئی۔ اب تربیت پانے والے تمام غنڈوں کے خلاف مقدمات بن چکے ہیں۔ ممبئی پولیس کی اس کارروائی کی وجہ سے داؤد ابراہیم کو مارنے کا پورا آپریشن درہم برہم ہوگیا تھا‘۔
یہ بات غیریقینی لگ رہی ہے کہ فائیو آئیز کی نظروں سے اتنا حیران کُن انٹرویو نہ گزرا ہو۔