ابو عمار قاسمی
گزشتہ دنوں عصرحاضر کے مشہور مسلم مفکر اور مورخ ‘ڈاکٹر مبارک علی ‘ کی کتاب’’گمشدہ تاریخ ‘‘کا پی ڈی ایف فائل میر ے ہاتھ لگا اور حسب معمول پوری رات اس کتاب کے نذر ہوگئی۔کتاب کے دیباچے کے ہی پہلے دو پیرا گراف میں ہی مسلم معاشرے کے زوال اور عروج کا جونقشہ کھینچا گیا ہے وہ ہمارے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے معاشرے کے عروج کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’جب عروج کا وقت ہوتا ہے تو اس وقت ادارے بنتے ہیں ، روایات پروان چڑھتی ہیںاور قدریں تشکیل پاتی ہیں ، یہ سب مل کر معاشرے کو آپس میں جوڑتی ہیں ۔اس مرحلے پر معاشرے میں تخلیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔ آر ٹ اور ادب میں ترقی ہوتی ہے۔سائنس اورتکنالوجی میں ایجادات ہوتی ہیں ،معاشرہ ان لوگوں کی قدر کرتا ہے کہ جو اس تخلیقی سرگرمیوں میں مدد دیتے ہیں ، نئے خیالا ت و افکار پیدا کرتے ہیں اور ذہنوں کو تازگی عطا کرتے ہیں ۔
مگر جب معاشرے زوال پذیر ہوتے ہیں توا دارے ،روایات قدریں اور لوگوں کو جوڑنے والےیہ تمام عناصر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں ۔اگر ایسے میں کوئی شاعر، ادیب یا آرٹسٹ کوئی چیز تخلیق بھی کرتا ہے تو ویرانے میں گم ہوجاتی ہے۔معاشرہ اپنی ذہن کی پختگی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔اس کےلئے احساس جمال بے اہمیت ہوجاتا ہے ۔ایک ایسے معاشر ے میں جھوٹ فریب ، سازش ،بدعنوانی اور منافقت کے علاو ہ کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔۔پس ماندہ معاشرہ پس ماندہ ذہنیت پیدا کرتا ہے ایک ایسی ذہنیت کہ جس میں نیکی اور بھلائی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ہے ۔ایک اسے معاشرہ میں اگر کوئی ایمانداری اور بھلائی پر عمل کرتا ہے تو وہ اس معاشرے کا اچھوت بن جاتا ہے‘‘۔
جب میں کتاب کے اس پیرا گراف کو پڑھ رہا تھا اس وقت کلکتہ کے اخبارات میں مسلم اداروں پر تصرف جمانے کےلئے ’’زاغوں‘‘کے درمیان’’ لاتم جوتم اور گولی بندوق‘‘ کی خبریں آرہی تھیں۔اس کے علاوہ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کےلئے قائم قائم عالیہ یونیورسٹی کے تعطل اور بیورو کریٹ و انتظامیہ کے درمیان رسہ کشی کی خبریں بھی گردش کررہی تھیں۔ چناں چہ جب میری نظر ان دونو ں پیرا گراف پر پڑا تو میں بار بار اس پیرا گراف کو اس لئے پڑھا کہ تاکہ یہ باتیں میرے تحت الشعور کا حصہ بن جائے۔ان دونوں پیرا گراف کے تناظر میں ’’کلکتہ کے مسلم اداروں پر قبضہ کرنے کےلئے زاغوں کی جنگ ‘‘کو سمجھنے کی کوشش کی اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ ڈاکٹر مبارک علی نے جن حقائق سے آگاہ کیا ہے وہ صد فیصد کلکتہ کے مسلم معاشرے پر صادق آتی ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کلکتہ کا مسلم معاشرہ زوال کی پسی میں نہ صرف پستا ہی جارہا ہے بلکہ ہر آنے والا دن زوال کے نیادلدل لے کرآرہا ہے ۔
دس سال قبل جب بائیں محاذ حکومت کا زوال ہوا تو مسلم اداروں پر قبضہ کی مہم شروع ہوئی ۔’زاغوں کا جھنڈ جمع ہوا اور اس کی مدد سے’’شہنشاہ کلکتہ ‘‘ کو تمام مسلم اداروں کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔اقتداراور طاقت کا اپنا ایک نشہ اور بیانیہ ہوتا ہے۔زوال کے اندیشوں سے لاپرواہ ہوتا ہے ۔قوموں اور شخصیتوں کے ملیا میٹ کی روادادیںاس کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔اقتدار کی یہی ہوس ان کے زوال کا ذریعہ بن گئی مگر وہ دنیا میں مکافات عمل کی چکی میں پیسنے سے قبل ہی اللہ کے یہاں سدھار گئے۔اس کے بعد ایک بار پھر زاغوں کے جھنڈ نے مسلم اداروں کی تقسیم کی۔دسویں پاس کو کالج کا صدر منتخب کردیا تو اسلامیہ اسپتال جسے ڈاکٹروں کو چلانا تھا وہاں 8ویں پاس آپریشن کرنے لگا۔’’اسلامیہ اسپتال ‘‘ کے اقتدار پر قبضے کی جنگ اور اس کے کرداروں کو سبھوں نے دیکھا ہے۔مگر اس درمیان ایک اور کردار منظر عام سے غائب ہونے لگا۔بیماری نے اسے گھر میں مقید ہونے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد زاغوں کا یہ جھنڈ جن کی صبحیں ’’شہنشاہ کلکتہ‘‘ کے دربار عالی میں حاضری کے ذریعہ ہوتی تھی اورشامیں’اقبالِ کلکتہ ‘‘ کی محفل میں حاضری کی وجہ سے ہی رنگین ہوتی ۔ان محفلوں میں کتنے باعزت لوگوں کے کپڑے اتارے جاتے تھے اور کتنے مظلوموں کے گھر اجاڑے جاتے تھے اس کا حساب تو ان سب کو اللہ کے یہاں دینا ہے۔اس چانکیہ اور اقبال کا اقبال بلند ہونے کے بعد جب غروب ہوگیا تو ایک بار پھر مسلم اداروں کے ساتھ کھلواڑ کی نئی جنگ شروع ہوئی۔اس مرتبہ زاغوں کا وہ جھنڈ جو ’’شہنشاہ کلکتہ ‘‘ اور ’’چانکیہ کلکتہ‘‘ کو اپنا باپ ، دادا، استاذ اور گرو کے لقب سے پکارتا تھا ۔وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔چیلا نے گروہ کو ختم کرنے کااس طرح ٹھانی کہ اب غنڈہ گردہ ، کیس اور مقدمے کی نوبت تک پہنچ چکی ہے۔ان دونوں مارپیٹ کی جوخبریں آرہی ہیں وہ ان ہی زاغوں کے آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے۔سچائی تویہی ہے کہ ان میں کوئی بھی حق پر نہیں ہےسبھوں کے اپنے مفادات اور ناپاک عزائم ہیں ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسلم ادارے ان کے باپ دادائوں کی جاگیر ہے وہ جس طرح چاہے اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرے؟۔اگردس سالوں میںان زاغوں کی دولت کاتجزیہ کیا جائے تو جو لاکھ پتی تھا وہ کروڑ پتی بن گیااور جو کروڑ پتی تھا وہ اب ارب پتی بن گیا ہے مگر یہ ادارے کل بھی بدحال تھے اور آج بھی بدحال ہیں ۔مگر اس سوال سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ مسلم معاشر ے اور مسلمانوں کا وہ تعلیم یافتہ طبقہ جن کا نہ کوئی سیاسی عزائم ہے اور نہ کوئی ذاتی مفادات ان میں ان واقعات کے خلاف ناراضگی کا ارتعاش کیوں نہیں پیدا ہورہا ہے۔بے حسی اور بے غیرتی کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ برائی کو برائی کہنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں اور ایمان کے اس درجےکوپہنچ چکے ہیں کہ کھلی آنکھوں سے شروفساد کو دیکھنے کے باوجود اس کے خلاف ایک صدائے احتجاج بلند کرنے کی جسارت نہیں رکھتے ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں مسلم اداروں کی کا کردگی کا ملاحظہ کریں تونتیجہ ہاتھ میں صفر کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا۔مسلم انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ آمدنی 30لاکھ سے زاید ہے۔مگر اس ادارے نے گزشتہ چار سالوں میں مسلم معاشرے کیا کچھ نیا دیا ہے؟ اگراس کا ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔جب کہ بڑے بڑے چغادری یہاں براجمان ہیں ۔کہنے کو اس ادارے میں نصف درجن شعبے ہیں مگر کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جو فخر سے کہہ سکے ہماری کارکردگی مثالی ہےاور ہم نے روایات اور جمود کو توڑ کر ترقی کی نئی عبارت رقم کی ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادارے سے جو تعلیم یافتہ اور باشعور افراد جو جوڑے ہوئے ہیں انہیں اقتدار کی للک اس قدر ہے وہ حق اور باطل کی تمیز تک کو بھول گئے ہیں ۔چناں چہ کبھی اس کونسلر کے دربار میں حاضری لگائی جارہی ہے تو کبھی کسی اور کونسلرکے یہاں حاضری لگاکر اپنے عہدہ کی گرانٹی مانگی جارہی ہے۔ان حالات پر یا اسفا کے کہنے کے علاوہ اورکیا کچھ کہا جائے۔
اس بات کو بہت ہی فخر سے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانان کلکتہ کی جانب سے قائم ہونا والا پہلا تعلیمی ادارہ ملی الامین کالج ۔جب کہ یہ شرم کی بات ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں مسلمانان کلکتہ صرف اور صرف ایک ہی ادارہ قائم کرسکے وہ بھی ناکامیوں اور نامرادوں کا ملبہ ہی صاف کررہا ہے۔گزشتہ دنوں یہاں یوم اساتذہ کے نام پر جو دھماچوکڑی مچائی گئی وہ ذلت اور زوال کا منھ بولتا ثبوت ہے۔باریش و نورانی چہرہ والے صدر محترم کی ہدایت پر یوم اساتذہ کے موقع پر ایک ایسے عزت مآب وزیر کو استقبالیہ دیا گیا جنہوں نے اپنے حلقے میں ہونے کے باوجودگزشتہ دس سالوں میں کالج کو اس کا حق نہیں دلا سکے۔بلکہ اگر ذرائع کی خبروں کو سچ مان لیا جائے تو وزیر موصوف بھی’’حسینہ کلکتہ‘‘ کے زلفوں کے اسیری میں ملی الامین کالج کو برباد کرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔حقیقت کا علم تو اللہ کو ہی ہے ۔
نورانی چہرے والے صدرمحترم نے اپنے شہزادے کووزیر موصوف کی نگاہوں میں لانے اور کونسلری کا ایک عد ٹکٹ دلانے کےلئے ’’یوم اساتذہ‘‘ کی تقریب و ہ ستیاناس کیا کہ اساتذہ اور طالبات ہی پس منظر چلی گئیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ عزت مآب وزیر کوئی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ملی الامین کو پانچ لاکھ روپے کا گرانٹ دلایا ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی عوامی نمائندے ہیں جنہوں نے وزیر موصوف سے کہیں زیادہ رقم دلایا ہے ۔ظاہر ہے کہ وزیر موصوف کو استقبالیہ کے نام پر ادارے کا سیاسی استعمال کیا گیا اور سیاست و شہرت کی دوکان چمکائی گئی ۔
کم وبیش یہی صورت حال اسلامیہ اسپتال ، انجمن مفید الاسلام، یتیم خانہ اسلامیہ ، محمڈن اسپورٹنگ کلب اور خلافت کمیٹی کا ہے۔سبھوں پر زاغوں کا تصرف ہے اور عقابوں کا نشیمن تہہ وبالا ہورہاہیے ۔اور اہل نشیمن خواب خرگوش میں ہیں ۔
ایک طرف یتیم خانہ اسلامیہ اور محمڈن اسپورٹنگ کلب پرقبضے کولے کر مقدمات میں لاکھوں روپے پھونکے جارہے ہیں تو دوسری طرف سیکڑوں ایسے بچے اور بچیاں ہیںجووالدین کی غربت کی وجہ سے بارہویں کی وجہ سے کالج میں داخلہ نہیںلے پارہےہیں۔گزشتہ چند دنوں میں مولانا حسرت موہانی فائونڈیشن کے دفتر اور دیگر جگہوں پر کئی ایسی بچے اور بچیوں سے ملاقات ہوئی جو داخلہ لینے سے قاصر تھیں ۔مگران کےلئے کچھ کرنے کے بجائے غنڈے اور موالیوں کی یہ فوج مسلم اداروں پر قبضہ کرنے کےلئے جھوٹ فریب ، سازش ،بدعنوانی اور منافقت کی ہرروز نئی کہانیاں عبارت رقم کررہے ہیں۔ کل زاغوں کا یہ جھنڈ ’’شہنشاہ کلکتہ‘‘ کے پیچھے گھوم رہا تھا اور تو آج ’’امیرکلکتہ‘‘ زاغوں کے اس جھنڈ کی قیادت کررہا ہے اور آنے والے کل میں کوئی اورکردار سامنے آئے جس کے ارد گرد یہ جھنڈ جمع رہیں گے۔
مگراس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے آباد واجدادکے تاریخی ادارے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں ۔ہمارا معاشرہ بے بسی کا مجسم تصویر بن کر ایک تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے۔ حال ہی میں کلکتہ کے ایک نوجوان صحافی کی کتاب ’’بنگال کے مسلمان‘‘کو پڑھنے کا موقع ملا جس میں مصنف نے’’ کلکتہ کے اردو اشرافیہ کی بے حسی ‘‘ پر ایک پورا چیپٹر ہی لکھ دیا ہے۔اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف کلکتہ کے مسلمان ہیں جو قدیم اداروں میں توڑ پھوڑ کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بنگالی مسلمان ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا ہے ۔
معاشرے میں شاعر، ادیب اور آرٹسٹ کی بے وقعتی کا نمونہ اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے مغربی بنگال کے استاذ الشعرا قیصر شمیم کا انتقال ہوگیا تو اردو کے ایک اخبار نے اس خبر کو اپنے اخبار کے چوتھے صفحہ پر اس طرح شائع کیا کہ گویا قیصر شمیم کوئی معمولی شخصیت ہو۔جب کہ قیصر شمیم نہ صرف گیسوئے ادب کو سنوارا ہے بلکہ وہ نے60سالوں تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں ۔انہوں نے تین نسلوں کی پرورش کی ہے ۔مگراسی اخبار میں دو موالیوں کے جھگڑے کی خبرکو اس قدر اہمیت سے شائع کیا ہے گویا کلکتہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔یقینا اس کا فیصلہ کرنے کا حق مجھے نہیں ہے مگر آج جو شخص اسپتال میں مبینہ طور پر موت و حیاس کی کشمکش سے گزررہا ہے ۔اس کا یہ کردار یہ بھی ہے کہ اس نے اسی مسلم انسٹی ٹیوٹ میں اپنے آقا(جن کی بیٹی کے حواریوں سے مارکھایا ہے) کے اشارے پر پروفیسر سلیمان خورشید اور آر ئی آرایس آفیسر شمشیر عالم کی شخصیت کی راہوں میں کانٹا بچھایا اور علم و فضل کی حامل شخصیتوں کو ذلیل کیا ۔یہ شخص کل بھی مہرہ تھا اور آج بھی کسی اور مہرے کا کردار ادا کررہا ہے ۔سچائی ہے یہ اس کھیل ہر ایک منافق ہے اور کوئی بھی قابل رحم نہیں ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہدایت کی دعا ضرور کرنی چاہیے مگر ساتھ ہی لعنت اللہ علی الکاذبین والمنافقین کا ورد بھی جاری رہنا چاہیے۔