محمد حمید شاہد
گذر چکی صدی جب آخری سانسوں پر تھی تو لوگ اسے، دی موسٹ وائیلنٹ سنچری، کے نام سے موسوم کرنے لگے تھے۔ اور اب جب کہ اس صدی کے چوتھائی برس ہم پر بیتنے کو ہیں کہنے والے صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ صاحب! یہ انسان اور انسانی اقدار کی سر بلندی کا نہیں، یہ توطاقت اور دہشت کا زمانہ ہے۔
طاقت اوردہشت کے اس زمانی عرصے میں ہمارے یقین اور ایقان کو بے یقینی اور وسوسوں کی پھپھوندی لگ چکی ہے۔
ایسے اوندھا کر رکھ دینے والے زمانے میں یقین کی دولت سے مالا مال اور اپنے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر شعر لکھنے والے فیض کو ہم یاد کرتے ہیں اور نئے حوالوں سے یاد کرتے ہیں تو دل امنگوں اور جذبوں سے کناروں تک بھر جاتا ہے۔
پہلے تو یہ بات کیا کم اہم ہو گی کہ عین اس عہد میں کہ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام پر نام نہادانفارمیشن کے گاربیج سے آج کے انسانی ذہن کو لاد کر ناکارہ کیا جارہا ہے اورڈس انفارمیشن کے حیلے سے ظالم حق پر اور مظلوم دہشت گرد ثابت ہو چکا ہے، ہم ایک شاعر کو یاد کر رہے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ الٹی گنگا بہانے کی کوشش لگتی ہے۔
ایک ایسی کوشش جس کی مادے کی منڈی میں کوئی قیمت نہیں ہے۔
آج کل تو طاقت ور کا راج ہے۔ دہشت دہشت کھیلنے کا زمانہ چل رہا ہے کہ اس کی آڑ میں نئی نئی منڈیاں تلاش ہو رہی ہیں یوں دہشت منڈی کی چیز ہو کر بہت اہم ہو گئی ہے۔ لہذا دوسروں کے قومی وسائل اور توانائی کے سرچشموں پر دھونس دھاندلی اور طاقت سے قبضہ کرنا جائز ہوا۔ جہاں حملہ کرنا اور افواج بھیجنا بوجوہ موقوف کرنا پڑا ہے وہا ں کئی دل خوش کن نعروں کی سنہری زنجیریں آدمی کے گلے میں ڈالی جارہی ہے۔ سو صاحبو، عجب زمانہ آ لگا ہے کہ جس میں اپنی تہذیبی اقدار کا سوال قدامت پسندی اور کسی مربوط فکر اور نظریے کی بات کرنا ٹیکناجی کی برکات کا انکار اور بے وقت کی راگنی ہو گیا ہے۔ ایسے میں فیض کو یاد کرنا اور اس کی اس شاعری کو یاد کرنا جو سامراج پر کاری ضرب لگاتی ہے، کسی کی بھی پروا کیے بغیر، واقعی بڑے حوصلے کی بات ہے۔ حوصلے کا یہ قرینہ تو لگ بھگ فیض کے اس کہے پر چلنے کی کوشش سا ہوگیا ہے :
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
نئے وقت کے تناظر میں فیض کی شاعری کا مطالعہ میرے لیے بہت پر لطف رہا ہے۔ دیکھیے ایک طرف مجہول اعتدال پسندی کے پر فریب نغمے گونج رہے ہیں اور ادھر فیض کی شاعری ہے جس میں در زنداں پر صبا کی دستک کی بات ہوتی ہے۔ ایک طرف استعمار کے لاڈلے اپنے محبوب کی ہر قاتلانہ کروٹ پر سبحان اللہ اور ہر ٹھوکر پر حسبی اللہ کہتے نہیں تھک رہے اور دوسری طرف فیض کا فرمانا ہے:
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہیں آہن
کُھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک ز نجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزباں کی موت سے پہلے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔ اور اس پر ایک اور سانحہ یہ گزرا ہے کہ ایسے میں ہمیں سمجھایا جارہا ہے کہ زبانیں اہم ہوتی ہیں نہ ان کے بولنے والے۔ کہ اب صرف منڈی کی زبان اور منڈی کے آدمی کا چلن ہوگا۔ ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ کسی نظامِ فکر کی بات کرنا یا کسی نظام حیات سے وابستہ ہونا سب لا یعنی اور فرسودہ باتیں ہیں۔ ایسے میں فیض کو پڑھنا اور اس انسان کی بابت سوچنا جو مادے اور منڈی کے اس زمانے میں کائنات کے مرکز سے دھکیل کر حاشیے پر بھیج دیا گیا ہے اور ان افکار کی بابت سوچنا جس میں آدمی کا آدمی سے جڑنا اہم ہو جاتا ہے۔ آدمی جو فرد بھی ہے اور اجتماع سے جڑ کر انسانیت بھی تشکیل دیتا ہے۔ فیض کی شاعری ہمیں اسی انسانیت پر حملہ آور ہونے والے سامراج کے خلاف بغاوت پر اکساتی ہے۔ یہ شاعری بتاتی ہے کہ سامراجیت کی ہر سیاہ شاخ کی کماں سے جتنے بھی تیر چلائے گئے وہ سب انسانیت کے جگر میں پیوست ہو کر ٹوٹے ہیں۔ تاہم زندہ معاشروں کا یہ چلن رہا ہے کہ انہوں نے ان تیروں کو اپنے جگر سے نوچ کر تیشہ بنا لیا ہے۔
ماننا پڑے گا کہ فیض اپنے دھیمے مزاج اور خود ضبطی کو چلن بنا لینے کی وجہ سے ان ترقی پسند وں سے بہت مختلف ہو گئے تھے جو اپنے بلند آہنگ شاعری سے فلک میں شگاف ڈالنے اور اپنی تدبیروں سے اسی آسمان میں تھگلی لگانے کے جتن کرتے کرتے ہلکان ہوئے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فیض کو رومانی رویہ عزیز رہا مگر اس سے کون منکر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں مسلسل زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف لپکتے رہے ہیں اور اسی لپک کی للک کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ اسی علاقے سے انہوں نے اپنی شاعری کے لیے جمالیاتی قرینے اخذ کیے اور یہ ایسے قرینے ہیں کہ ہم جیسے فیض کے ہاں دو آوازیں الگ سے شناخت کرنے والے بھی ان کی شاعری کے کشتگاں میں شامل ہو گئے ہیں۔ فیض نے آہنگ کے دیباچے میں مجاز کو انقلاب کا مطرب کہا تھا اور کسی نے خوب کہا ہے کہ انقلاب کے مطرب تو خود فیض تھے۔ ایک نئی طرز فغاں ایجاد کرنے والے۔ اور ایک ایسے انقلابی شاعر کہ جس کی شاعری پڑھتے ہوئے دل جھوم جھوم اٹھتا ہے اور قدموں میں مقتل کی طرف اٹھنے کا حوصلہ آجاتا ہے:
رختِ دِل باندھ لو، دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو
یا پھر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
یہیں بتاتا چلوں کہ فیض کی شاعری میں ‘رات’ اور ‘شب’ ایک مرکزی استعارے کی صورت ظاہر ہوتی ہے جس کے مقابل وہ ‘صبح’ اور’ طلوع سحر’ کو لے کر آتے رہے ہیں۔
رات باقی تھی ابھی سر بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا، جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب، جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے
ہاں تو میں فیض کی شاعری کی جمالیاتی سلطنت کی بات کر رہا تھا اور اسی باب میں مجھے یہ کہنا ہے کہ فیض نے اپنی تہذیبی روایت سے ملنے والی زبان اور تمثالوں کو نئی معنویت کی مہک اور تاثیر کی کرامت عطا کی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ کسی بھی فرد کی شاعری میں مضامین کی تکرار بہت کھٹکتی ہے۔ فیض کے ناقدین اس جانب انگشت نمائی کرتے آئے ہیں مگر میرا کہنا یہ ہے کہ فیض نے اپنے جمالیاتی وسیلوں سے دہرائے ہوئے مضامین کو الفاظ کے تخلیقی استعمال اور لہجے کو گداز رکھ کر اتنا مختلف بنا لیا تھا کہ پڑھنے والے کے سیدھا دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔ فیض کے اسی ہنر کا قرینہ ہے کہ روایت کے خزینے سے وہ اپنی محبوبہ کے لیے رسوا ہوتے عاشق کو نکالتے ہیں اور اسے انقلابی بنا دیتے ہیں۔ یہاں گوشت پوست محبوبہ بھی اپنا منصب بدل کر انقلاب کی ساعت سعید ہو جاتی ہے۔ ایک طرف فیض کے ہاں ‘رقیب روسیاہ’ سامراجیت کی علامت بنا، ‘محتسب’ اور ‘شیخ جی’ جیسے سامراج کے ہرکارے ٹھہرے، ‘جنوں’ سماجی انصاف کی للک ہوا، ‘ عقل عیار’ عسکری نظام سے سمجھوتے کا نشان بن گئی اور ‘وصل’ کے معنی ‘انقلاب’ ہو گئے تو دوسری طرف فیض کے ہاں یہ قرینہ بھی ملتا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے ان معنوں اور کیفیات کو سرے سے تلف نہیں ہونے دیتے جو ہماری تہذیبی اور شعری روایت کے اندر ان الفاظ اور تراکیب سے وابستہ چلے آتے ہیں۔
نہ سوال ِ وصل، نہ عرض ِ غم، نہ حکایتیں نہ شکائتیں
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
فیض کی شاعری کا فیضان یہ بھی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے ایک عجب طرح کے درد کی لذت عطا ہوتی ہے۔ وہ وجود جو لمحہ لمحہ منہدم ہو رہے ہوتے ہیں، توانائی اور قوت کی مئے سے مست ہو کر جھومنے لگتے ہیں۔ اس مئے کی مستی میں کوئی بھی محرومی یا نارسائی، رسوائی یا دل شکستگی کا سامان نہیں ہوتی، عزم اور حوصلے کا نشان ہو جاتی ہے۔ اسی شاعری کا اعجاز ہے کہ زنداں کا پھاٹک محبوب کے آستان کادروازہ بن جاتاہے اوراحترامِ آدمیت کی منزل، وصل جیسے لطف کا بدل ٹھہرتی ہے۔ میں نے کہا نا کہ فیض کی شاعری میں ظلم، ظالم، اہل جنوں، اہل ہوس، مدعی، منصفی، طواف، جسم و جان، فلک، فراق جیسے بظاہر روایتی الفاظ آئے ہی چلے جاتے ہیں اور یہ بھی کہہ آیا ہوں کہ فیض کا سوز دروں اور مزاج کی نرمی پاکر یہ الفاظ ایک نفاست اور خاص تخلیقی قرینے سے متن کا حصہ ہوتے ہیں جو صرف فیض ہی سے مختص ہے۔ یہاں اپنی بات دہر اکر یہ اضافہ کرنا مقصود ہے کہ اس تخلیقی قرینے نے فیض کی شاعری میں اپنی تہذیبی زندگی کے بھید کو بھی ایک معنیاتی پرت کے طورمحفوظ کر دیا ہے۔
فیض کے ہاںموضوع سخن ہو جانے والی زنداں کی ایک شام ہو یا زنداں کی ایک صبح، مجھے کسی نہ کسی حوالے سے آج کے عہد سے جڑی ہوئی لگتی ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ زینہ زینہ شام اتر چکی ہے۔ ہمارے روشن تہذ یبی وجود کو لمحہ لمحہ قدم جمانے والی رات نگل لینے کے جتن کر رہی ہے۔ ہمارا تہذیبی وجود کیا خود انسانیت کو منڈی کی معیشت چرکے پر چرکا لگا رہی ہے۔ انسانی دانش پر مصنوعی ذہانت نگران بنا دی گئی ہے۔ تہذیبی مکالمے کا فلسفہ مات کھا رہا ہے اور تہذیبی تصادم کی تھیوری کا الاؤ خوب خوب دھکایا جا رہا ہے۔ ایسے میں فیض کی شاعری کے ساتھ جڑنا ایک لحاظ سے سیاہ رات کی لمبی سرنگ کے دوسرے کنارے پر موجود اس روشن صبح کی امید سے جڑنا ہے جسے بہرحال ایک نہ ایک روز انسانیت کے بخت کا مقدر ہونا ہے۔
فی الاصل فیض اپنی زندگی میں ہی ان شاعروں میں پہچانے جاتے تھے جو اپنے بخت کا مقدر پالینے کے لیے جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے تاہم وہ ان شاعروں سے الگ پہچانے جانے لگے تھے جن کے ہاں تجربہ اور حقیقت سامنے کی چیز ہیں۔ فیض کا قرینہ یہ رہا ہے کہ وہ اسے اپنے دھیمے رومانی مزاج کے معطر پانیوں سے دھو کر اور اپنے جذبوں کی نرم نرم مگر مسلسل آنچ سے تپا کر یوں چمکا لیا کرتے تھے کہ مصرعے کی تاثیر بدل جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ‘سحر’، ‘رات ‘، ‘ظلمت’، ‘سویرا’، ‘مہتاب’، ‘ستارے’، ‘ نور’، ‘افلاک’ جیسے عام سے الفاظ کا ذخیرہ فیض کی شاعری میں عام نہیں رہتا، اپنی الگ جمالیاتی قدر بنالینے کی وجہ سے بہت اَہم ہو جاتا ہے۔ یہی لطیف جمالیاتی قدر، اجتماعی فرد سے جڑت اور انسانیت کش سامراج سے شدید نفرت اردو شاعری کے باب میں فیض کی عطا ہے اور یہ ایسی عطا ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔