کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن)
مغربی بنگال کے جنوبی 24 پرگنہ ضلع کے بروئی پور سنٹرل جیل میں عدالتی حراست میں چار مسلم نوجوانوں کی پراسرار موت کے دو ہفتے بعدبھی مغربی بنگال پولس یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آخر ان چاروں قیدیوں کے ساتھ کیا ہوا کہ محض پانچ دنوں کے دوران یکے بعد دیگرے ا ن کی موت ہوگئی۔
دوہفتے بعد بھی عبد الرزاق، ضیا لشکر، اکبر خان اور سید منشی کی پوسٹ مارٹم رپورٹس اہل خانہ کو نہیں دی گئی ہے۔گرچہ پولس ان چارومسلم قیدیوں کی موت کے پیچھے کسی بھی سازش سے انکار کرتی ہے اور ایک ہفتے کے دوران چار مسلم قیدیوں کی موت کو محض اتفاق بتارہی ہے۔ان چاروں قیدیوں کو مختلف معاملات میں جولائی کے آخری ہفتے میں گرفتار کیا گیا ہے اور چند دنوں بعد ان چاروں کے اہل خانہ کو خبر دی گئی کہ جیل میں طبیعت خراب ہونے کی وجہ وہ بیمار ہوگئے ہیں اور انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے مگر بعد میں ان چاروں کو مردہ قرار دیدیا گیا۔
24جولائی کو 34سالہ عبد الرزاق کو پولس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنی بیوی 27 سالہ سہانا بی بی اور اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ چائے پی رہا تھا کہ عام لباس میں ملبوس پولس نے اس کے دروازے پر دستک دی اور گرفتار کرلی۔چند لمحوں بعد بی بی اپنے شوہر کی جان بچانے کیلئے ایک آٹو میں پولیس کی گاڑی کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
بہار میں پولٹری کا کاروبار کرنے والا عبدلرزاق اپنے گھر والوں کے ساتھ عید منانے کے لیے کچھ دنوں کے لیے گھر آیا تھا۔ آخری بار اسے تقریباً 20 سال قبل حراست میں لیا گیا تھا جب وہ 14 سال کا تھا۔ اس وقت یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ عبد الرزاق نے ایک چوری شدہ فون خریدا تھا۔عبد الرزاق کے چچا سراج نے بتایاکہ ایک ماہ بعد عبد الرزاق رہا ہوگیا۔مگرا س کے بعد سے ہی پولس اس پر پولس کا مخبر بننے کیلئے دباؤ بناتی رہی ہے۔سراج الحق نے بتایا کہ ”وہ پولیس کی نظروں میں رہا لیکن وہ بے قصور تھا۔
تاہم اس مرتبہ گرفتاری کا انداز مختلف تھا اور گرفتاری کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔27 جولائی کو سہانا اپنے شوہر سے ملنے گئی۔اس وقت عبد الرزاق صحت مندتھے اور امید تھی کہ جلد سے جلد رہا کردیا جائے گا۔مگر دو دن بعد ہی فون کال موصول ہوا کہ عبد الرزاق کی طبعیت خراب ہوگئی ہے۔گھر والوں کو اسپتال پہنچنے کی ہدایت دی گئی۔اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات تھے۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا حالانکہ وہ مر چکا تھا۔ جسم پر زخم کے نشانات بتا رہے تھے کہ ”اس کے ساتھ کچھ کیا گیا ہے۔سراج الحق نے بتایا کہ عبد الرزاق کے موت کی اصل وجہ بتانے سے پولس قاصر رہی۔
سراج الحق سوال کرتے ہیں کہ جب جیل میں عبدالرزاق کی طبیعت خراب ہوئی تو جیل انتظامیہ نے بروقت اہل خانہ کو اطلاع کیوں ہیں دی۔سراج دعویٰ کرتے ہیں کہ اسپتال ملازم نے اسے بتایا کہ عبد الرزاق کی موت ایک د ن قبل ہوئی تھی جب کہ گھروالوں کو سوموار کو اس کی اطلاع دی تھی۔
ضلع مجسٹریٹ نے 5 لاکھ روپے معاوضہ، خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری، اور اس معاملے میں کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
سراج اس وقت عبدالرزاق کی بیوی اور چارسالہ اور 10 سال کی دو بیٹیوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مستقبل اب روشن نظر نہیں آتا۔ ”یہ پیسہ کب تک چلے گا؟ اور کیا اس سے ضائع ہونے والی زندگی کی تلافی ہو جائے گی؟’
بروئی جیل میں قید ضیالشکرکی بہن بھی اپنے بھائی کی اچانک موت کے حوالے سے ایسے ہی سوالات کھڑے کرتی ہیں۔تاہم ضیا لشکر کی بہن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ وہ پولس کا مقابلہ نہیں لڑسکتی ہے۔
”آپ کسی ایسے شخص سے لڑتے ہیں جو طاقت میں آپ کے برابر ہو۔ وہ (پولیس)انتہائی طاقتور ہیں۔ وہ سوال کرتی ہے کہ جب جرم وہ کرتے ہیں جنہوں نے انصاف کرنا ہے تو آپ واقعی کیا ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
35 سالہ ضیا لشکر آٹو رکشہ ڈرائیور ہے 25 جولائی کی شام گھر واپس نہیں آیا۔ وہ سیدھے اپنے ایک دوست کے گھر گیا تھا اور وہاں سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے گھر والے رات بھر اس کی تلاش کرتے رہے اور آخر کار اسے ڈکیتی کے الزام میں صبح اس کی گرفتاری کا پتہ چلا۔
بروئی پور پولیس اسٹیشن پہنچنے پر صابرہ نے بتایا کہ اس کے بھائی کو بہت مارا پیٹا گیا اور جب اس نے پولیس سے درخواست کی کہ اسے جانے دیا جائے تو اسے عدالت جانے کو کہا گیا۔
ہمیں عدالت میں بتایا گیا کہ اسے 28 دن کے بعد جانے کی اجازت دی جائے گی۔ ہم متوسط طبقے کے لوگ ہیں، ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ جب اسے تھانے واپس لایا گیا تو اسے دوبارہ بہت مارا پیٹا گیا۔ضیا لشکر بعد میں برئی پور سنٹرل جیل میں بھیج دیا گیا۔ دو دن بعد جب ان کی بیوی ان سے ملنے گئی تو صابرہ نے بتایا کہ اس نے اسے بتایا تھا کہ اسے بری طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اور ان سے ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی ہے جن کے بارے میں انہیں قطعی طور پر علم نہیں تھا۔
ضیا لشکر کی بہن نے بتایا کہ جب ہم نے پولیس سے پوچھا کہ اسے اس طرح کیوں مارا جا رہا ہے، تو انہوں نے ہم سے پیسے مانگے۔ انہوں نے صحیح رقم کا ذکر نہیں کیا لیکن کہا کہ جب ہم رقم ادا کر دیں گے تو وہ اسے جانے دیں گے،“۔
2اگست کو ضیا کے اہل خانہ کو دوپہر تقریباً1:30بجے ان کی موت کی اطلاع دی گئی۔ تاہم صابرہ نے بتایا کہ ان کی موت گزشتہ رات ہوئی تھی۔ ”ہم نے پولیس سے پوچھا کہ انہوں نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی۔ وہ ہمیں کہتے رہے کہ انہوں نے ہمیں بلایا لیکن ہم نے جواب نہیں دیا۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں کال ریکارڈ دکھائیں لیکن وہ کچھ نہیں دکھا سکے کیونکہ پہلے کسی نے ہمیں کال نہیں کی تھی۔
صابرہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اسپتال کے حکام کو پوسٹ مارٹم کے دوران خاندان کے کسی فرد کو موجود رہنے کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا، تاہم پولیس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔میرے بھائی کا ماضی میں کوئی خراب ریکارڈ نہیں تھا۔ وہ ساری زندگی کبھی پولیس سٹیشن تک نہیں گیا تھا۔
صابرہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اسے اور دیگر کو ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔ مسلمان ان کا ہدف ہیں،“۔ ”میں بہت کچھ نہیں کہہ سکتی ہوں کہ کیونکہ اب میرا ایک ہی بھائی رہ گیا ہے۔ ایک چلا گیا اور میں دوسرے کو کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
انگریزی ویب سائٹ کے مطابق دی وائر کی خبر کے مطابق ضیا لشکر کے معاملے کی پیروی کرنے والے وکیل ٹونوئے بھٹاچاریہ نے بتایا کہ لشکر کے ساتھ مزید دو افراد سروجیت ہلدار اور ربیع ہلدار کوگرفتار کیا گیا تھا ان دونوں نے بتایا کہ لشکر کی موت تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔
ایڈوکیٹ اشفاق احمد جو ان چاروں کو انصاف دلانے کیلئے جدو جہد کررہے نے بتایا کہ چاروں افراد کو پہلے مارا گیا اور پھر اسپتاللے جایا گیاہے۔انہیں ڈکیتی کا منصوبہ بنانے کیلئے دفعہ 403 کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ صرف چار آدمی نہیں تھے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا لیکن صرف ان چارو مسلم لڑکوں کی موت کیوں ہوئی؟
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ کیوں کہ ان چارو افراد کا تعلق مسلم طبقے سے تھا اور ان کی شناخت بطور مسلم تھی۔اس کے ساتھ ہی وہ غریب ہیں۔ پولیس اہل خانہ کو پیسے کے لیے بلیک میل کرتی ہے لیکن یہ لوگ رقم ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔اس لئے بے رحمی سے مارا پیٹا گیا اور ان کی موت ہوگئی۔اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اس بہت سے پہلو ہیں۔جو آزادانہ جانچ میں ہی کھل کرآسکتے ہیں۔