Monday, October 7, 2024
homeبنگالترنمول کانگریس انگریزوں کے وفادار پر مہربان کیوں ہے؟

ترنمول کانگریس انگریزوں کے وفادار پر مہربان کیوں ہے؟

ترنمول کانگریس انگریزوں کے وفادار پر مہربان کیوں ہے؟

نوراللہ جاوید

ہندوستان کی آزادی 75ویں سالگر ہ پر ترنمول کانگریس، وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور دیگر سیاسی لیڈروں کے سوشل میڈیا پر لگائی گئی ڈی پی پر سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ختم نہیں ہوئی تھی کہ اب 1905میں بنگال کو مذہبی بنیادوں پرتقسیم کرنے میں کلیدی کردار کی وجہ سے بدنام وائسرائے لارڈ کرزن کی پذیرائی اور ان کا استقبال کرنے والے بردوان کے مہاراجہ بیجے چند مہتاب اور ان کی اہلیہ رادھرانی کے مجسمے کو بردوان شہر میں واقع کرزن گیٹ کے قریب نصب کرنے کو لے کر سیاسی بحث تیز ہوگئی ہے۔ترنمول کانگریس کی قیادت والی بردوان میونسپلٹی اور مقامی ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی کے اس قدم کی نہ صرف سیاست داں بلکہ تاریخ اور بنگالی ورثہ کے ماہرین مخالفت کررہے ہیں اور حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کررہے ہیں۔

دراصل 14اگست کو ممتا بنرجی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر مجاہدین آزادی کی تصاویر پر مشتمل ایک ایسی ڈی پی لگائی جس میں رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا آزاد کی تصاویر غائب تھی۔ظاہر ہے کہ اس پر تنقید ہونی تھی اور ہوئی مگر چند گھنٹوں میں ہی اس ڈی پی کو تبدیل کردیا گیا اور بہت ہی بھونڈے انداز میں اس ڈی پی میں رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام، ڈاکٹر بی آر امبیڈکرکی تصاویر کو شامل کردیا گیا۔ مگر پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کو اس مرتبہ بھی نظر انداز کردیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب مرکز میں برسراقتدار بی جے پی ہندوستان کی تاریخ سے نہرو کی وراثت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نہرو کے کردار پر انگلی اٹھائی جارہی ہے اور مجاہدین آزادی کی فہرست سے نہرو کی تصاویر غائب کیا جارہا ہے ایسے میں ممتا بنرجی کا بی جے پی کی اتباع کرنا اپنے آپ میں کئی اہم سیاسی پیش رفت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ممتا بنرجی نے اقتدار کے دوام کیلئے ہندتو کے سامنے سپرڈال دیا ہے؟۔یاپھر اس کے پیچھے کوئی اور سیاسی مقاصد ہیں؟۔یہ وقت ہی بتائے گا کہ سیکولرسیاست میں یقین رکھنے والی ممتا بنرجی کا نہرو اور مولانا آزاد کو نظرانداز کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اور وہ اس کے ذریعہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟۔

1905 میں بنگال کی تقسیم کی وجہ سے بدنام وائسرائے لارڈ کرزن نے 1903میں بردوا ن شہر کا دورہ کیا تھا۔ان کے استقبال میں بردوان کے مہاراجہ بیجے چند مہتاب نے بردوان شہر میں کرزن گیٹ کی تعمیر کی ۔گزشتہ 119سالوں سے یہ گیٹ بردوان کی شہر کی شناخت بنا ہوا ہے۔مگراب بنگالی شناخت کے نام پر ترنمول کانگریس کی قیادت والی بردوان میونسپلٹی نے اس گرزن گیٹ کے سامنے مہاراجہ بیجے چند مہتاب اور ان کی اہلیہ رادھرانی (جسے بیجے توران بھی کہا جاتا ہے)کا مجسمہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے کی جہاں سیاسی سطح پر مخالفت ہورہی ہے کہ اس کی وجہ سے کرزن گیٹ کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔علاوہ ازیں آثارقدیمہ کے ماہرین خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ اس قدم سے تاریخی کرزن گیٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے وہیں مورخین مہاراجہ بیجے چند مہتاب کے مجسمہ لگانے پر ہی سوال پر کھڑا کررہے ہیں؟ بردوان کی کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں اہم کردارا اداکیا ہے ان کا مجسمہ لگانے کے بجائے مہاراجہ بیجے چد مہتاب جنہوں نے انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی کا مجسمہ لگانے کا مطلب کیا ہے؟۔
ہم کرزن گیٹ کے نزدیک مہاراجہ بیچے چند مہتاب کے مجسمے کو نصب کرنے کی مخالفت کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے۔کرزن گیٹ کو معمار نریش چندر بوس نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان کے بھتیجے اور تاریخی ورثے کی حفاظت کیلئے جدو جہد کرنے والے دیباسیس بوس کہتے ہیں کہ وراثتی یادگار میں اضافہ یا تبدیلی ماہرین کی رائے کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ماہرین کی رائے کے بغیر معمولی تبدیلی تاریخی ورثے کو برباد کرن کے مترادف ہے۔گرزن گیٹ کے قریب مہاراجہ اوران کی اہلیہ کے مجسمے کو نصب کیا جانا میرے لیے ذاتی طور پر تکلیف دہ ہے کیونکہ گیٹ کی تعمیر کی منصوبہ بندی اور ڈیزائن میرے دادا کے بڑے بھائی نے کیا تھا۔
رشی بنکم چندر کالج نیہاٹی میں پروفیسر اور مورخ کاکالی مکھرجی سوال کرتے ہیں کہ مہاراجہ بیجے چند مہتاب کے مجسمے کو نصب کرکے ترنمول کانگریس کیا پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے۔؟کرزن گیٹ واقعہ تاریخی ورثہ ہے، اس کی حفاظت ہونی چاہیے مگر بیجے چند مہتاب کی عظمت و رفعت ثابت کرنے کی ضرورت کیو ں آن پڑی؟ جب کہ مہاراجہ بیجے چند مہتاب نے نہ صرف لارڈ کرزن کے استقبال کے لیے کرزن گیٹ بنایا بلکہ انہوں نے ان کی تاجپوشی کا بھی پروگرام منعقدکیا۔ مہاراجہ نے اور اس کے خاندان نے انگریزوں کی مستقل آبادکاری کی پالیسی کا بھرپور فائدہ اس وقت اٹھا یا تھا جب ملک میں انگریزوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ دوسری جانب بردوان شہر انگریزوں کے خلاف مسلح اور غیر مسلح دونوں طرح کی تحریکوں کا گواہ رہا ہے۔قاضی نذرالاسلام جیسے عظیم شاعر کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔انقلابی لیڈ ر شہید بھگت سنگھ کے ساتھی بٹو کیشور دتہ جنہیں شہید بھگت سنگھ کے تعاون کرنے کی وجہ سے کئی برسوں تک جیل کی سزا کاٹنی پڑی تھی ان کا بھی تعلق اسی بردوان ضلع سے ہے۔ایسے میں سوال ہے کہ بنگالی شناخت کی حامل شخصیات قاضی نذرالاسلام اور بٹو کیشور دتہ جو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کی علامت تھے۔مگر ان لیڈروں کی یادگار کو زندہ کرنے کے بجائے مہاراجہ کی شخصیت کو دوبارہ زندہ کرنے کے مقاصد سمجھ سے بالا تر ہے۔
بردوان میونسپلٹی کے صدر پریش سرکار نے اس پورے تنازع پر بتایا کہ یہ مقامی ممبراسمبلی کھوکن داس کا پروجیکٹ ہے۔لیکن میونسپل کارپوریشن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہم اس پورے منصوبے کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔کرزن گیٹ کے سامنے مجسموں کی تعمیر کو لے کر ہورہے تنازع سے ہم واقف ہیں۔مگر یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے بیجے چند مہتاب نہ صرف کرزن گیٹ کے معمار ہیں بلکہ بردوان شہر کو آباد کرنے میں ان کاکردار کافی اہم رہا ہے۔کرزن گیٹ کے سامنے ان کا مجسمہ نصب کرنے کو لے کر تنازع سمجھ سے بالاتر ہے۔ممبراسمبلی کھوکن داس بھی اپنے اس قدم کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بردوان کے زیادہ تر علاقے مہاراجہ کے ہیں۔اس لئے ہمیں اس کوئی برائی نظرنہیں آتی ہے۔
ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے ہندتو سیاست کا مقابلہ کرنے کیلئے”بنگالی شناخت“کے احیاء کا نعرہ بلند کیا ہے۔اس کیلئے بنگالی پوکھو جیسی لسانی عصبیت کی حامل تنظیم کی سرپرستی بھی کررہی ہے۔اسی مہم کے تحت بنگال کی تاریخی شخصیات کے مجسمے کلکتہ شہر اور ریاست کے دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر لگائے جارہے ہیں، ترنمول کانگریس اس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ بنگالی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اس کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتی ہے۔بی جے پی کا بنگال کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ترنمول کانگریس کے اس دعویٰ میں کسی حدتک صداقت بھی ہے کہ بی جے پی کے ہندتو کی سیاست بنگال کے کلچر کیلئے اجنبی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اجنبیت کتنے دنوں تک باقی رہے گی؟۔بنگال کی ثقافت و کلچر کی حفاظت کا یہی ایک ذریعہ ہے؟۔ کلکتہ شہر میں ہی نیتا جی سبھاش چندر بوس، رابندر ناتھ ٹیگور، سوامی وویکانند، رام کرشن پرم ہنس، سسٹر نویدیتاکے مجسمے کے علاوہ شہر کے بیلیا گھاٹہ، مانک تلہ اور پٹولی جیسے علاقے میں بڑے پیمانے پر مجسمے لگائے گئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی پریش پال کادعویٰ ہے کہ ان کے انتخابی حلقے بیلیا گھاٹا میں ہی ”100 چھوٹے، درمیانے اور بڑے مجسمے“ ہیں۔مجسمے لگانے کے مقاصد سے متعلق وہ بتاتے ہیں جب بچے سڑکوں پر چلیں گے تو انہیں ہندوستان اور بنگال کی تعمیر نو میں ہم کردار ادا کرنے والی شخصیات سے متعلق ان مجسموں کے ذریعہ واقفیت ہوگی۔نیتا جی اور گاندھی جی کے علاوہ، ہم نے بنگال کی نشاۃ ثانیہ سے جڑی شخصیات جیسے راجہ رام موہن رائے اور ودیا ساگر کے ساتھ ساتھ شری چیتنیا، سوامی وویکانند اور رام کرشن جیسی مذہبی شخصیات کے مجسمے لگائے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنے ملک اور اس کے روشن خیالوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ بنگال میں مسلمانوں کی 30فیصد آبادی ہے۔مگر ترنمول کانگریس کے ذریعہ لگائے جارہے مجسمہ میں قاضی ندرالاسلام کے علاوہ کوئی اور مسلم شخصیات نظر نہیں آتی ہے۔ایسے میں ترنمول کانگریس سے سوال کیا جانا چاہیے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں بنگالی مسلمانوں کا اہم کردار نہیں رہا ہے؟اگر مسلمانوں کا کردار رہا ہے تو پھر مسلم شخصیات کے مجسمے کیوں نہیں لگائے جارہے ہیں۔بنگالی ثقافت کے احیاکی اس پوری مہم اورمنظر نامے سے مسلم شخصیات کا غائب ہوجانا ترنمول کانگریس کی نیت پر سوال کھڑا کرتے ہیں۔کیاان سوالوں کا جواب بنگالی ثقافت و کلچرکے پرچارکوں کے پاس ہے۔ مولانا آزاد جن کاکلکتہ سے گہرے تعلقات رہے ہیں وہ اب اس شہر کیلئے اجنبی بنتے جارہے ہیں۔ان کا نام تک مجاہدین آزادی کی فہرست میں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔19ویں صدی میں انگریزوں کے خلاف کسانوں کی پہلی مسلح تحریک کی قیادت کرنے والے تیتو میر کو اب ہندو مخالف قرار دے کر معلون کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بنگا ل میں جدید تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے حاجی محمد محسن، نواب عبد اللطیف،جسٹس سید امیر علی کا ذکر ہی غائب ہوچکا ہے۔انگریزوں کے خلاف میدان جنگ میں لوہا لینے والے نواب سراج الدولہ کے شہر مرشدآباد کی تاریخی اہمیت ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین