کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن )21جولائی کو ترنمول کانگریس کی ریلی میں کل مذاہب دعائیہ کے نام پر ’’اذان کے کلمات ‘‘ کو میوزک پر بجائے جانے کے بعد مسلم حلقے اور بالخصو ص سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔اس کو آذان کی توہین قرار دیا جارہا ہے کہ اذان دینی شعائر میں شامل ہے۔دینی شعائر کا تقدس و احترام ہے۔
حکومت کے پروگراموں میں شرکت اور حکمراں جماعت سے قربت کے باوجود کلکتہ شہر کے دو مشہور ائمہ مولانا قاری فضل الرحمن اور قاری شفیق الرحمن نے بھی ایک بنگلہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آذان کے کلمات کو میوزک پر بجانا توہین آمیز ہے اس طرح کی حرت سے گریز کرنا چاہیے۔
مولانا قاری فضل الرحمن نے واضح لفظوں میںکہا ہے کہ یہ سراسر کلمات اذان کی توہین ہے۔دراصل کلمات اذان ایک مقدس کلمات ہیں ۔اس کو ادا کرنے کے موقع و محل ہے۔مگر قومی یکجہتی کے نام پر جس طریقےسے سیاسی جلسے میں موسیقی پر کلمات اذان اداکئے گئے وہ کسی درجے میں مناسب معلوم نہیں ہوتاہے۔
سماجی تنظیم ’’آواز ‘‘ نے ترنمول کانگریس کے سیاسی جلسے میں طبلے کی دھن پر اذان کو گانے کی صورت میں پیش کئے جانے کو مذہب اسلام کو ماننے والوں کی عقیدت اور تہذیبی حمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام کو ماننے والوں کیلئے پانچ وقت کی نماز فرض ہے ۔ نماز سے قبل اذان دیا جاتا ہے ۔ اذان کی زبان عربی ہے اور یہ ایک منفرد قرآ ت سے پکاری جاتی ہے جس سے پوری دنیا واقف ہے ۔ اذان کے ذریعہ مسلمانوں کو بالخصوص نماز پڑھنے کے لئے بلایا جاتا ہے ۔ اذان کے ساتھ کبھی بھی اور کہیں بھی موسیقی استعمال نہیں کی جاتی ہے ۔ ترنمول پارٹی کے سیاسی اجلاس میں طبلے کی دٌھن پر گانے کی صورت میں اذان پکار کر اس کی حرمت کو مجروح کیا گیا ہے ۔
’’ آواز‘‘ کی نظر میں اس معیوب حرکت سے نہ صرف بنگال بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے ۔ اس لئے ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے اجلاس میں مذہبی کلمات کی ادائیگی ہمارے دستور کی خلاف ورزی ہے ۔ مذکورہ اجلاس میں یہی ہوا ہے ۔ اذان کے بعد اسی طبلے کی دُھن پر سنسکرت کےا شلوک گا کر مذہبی یگانگت کے نام پر سیاسی فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔ ہم سیکولرازم کے معنی یہی جانتے ہیں کہ سرکاری اور سیاسی پروگرام میں مذہب کا استعمال نہ کرنا ٰ کیونکہ یہ ہمارے دستور کی روح کے خلاف ہے اس کے باوجود مذکورہ پروگرام میں دانستہ طور پراس طرح حرکت کو انجام دیا گیا ہے۔
بنگا ل کے مشہور سماجی کارکن قمر الزماں نے کہا کہ اگر علما نے اس کو ناپسند کیا تو ہم ان کی رہنمائی میں احتجاج کریں گےترنمول کانگریس کے ایک مسلم لیڈر نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا کہ توہین کرنا مقصد نہیں تھا بلکہ کل مذاہب دعائیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
دوسری طرف کلکتہ شہر کے مشہور ملی رہنما عبد العزیز نے انصاف نیوز کو بتایا کہ ہم اس کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کلمات آذان کی مخالفت کی جارہی ہے۔بی جے پی اس معاملے میں پیش پیش ہیں ۔ایسےمیں اگر سیاسی جلسے میں کلمات آذان دہرائے جارہا ہے تو بی جے پی کو کررار جواب ہے۔تاہم جس طریقے سے گایا گیا ہے وہ غلط ہے۔اس میں کسی حدتک ہماری کوتاہی بھی شامل ہے ۔ہم نے اپنے دینی شعائر سے متعلق عوام کو آگاہ نہیں کیا ہے