Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںایک نااہل شخص کو عالیہ یونیورسٹی کا کارگزار وائس چانسلر مقرر کیا...

ایک نااہل شخص کو عالیہ یونیورسٹی کا کارگزار وائس چانسلر مقرر کیا گیا؟ یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور طلبا حیران۔۔کیا ممتا حکومت نے عالیہ یونیورسٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟

کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن)
مدت مکمل ہونے کے بعد عالیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد علی اپنے پرانے عہدہ جادو پور یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ان کی جگہ مدرسہ بورڈکے صدر شیخ ابو طاہر قمرالدین کو عالیہ یونیورسٹی کا قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔چوں کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہونے کیلئے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور ریاستی حکومت کے کچھ اصول مقرر کررکھے ہیں۔ان قوانین اور اصول پر شیخ ابو طاہر قمرالدین کھڑے نہیں اترتے ہیں۔ایسے میں یہ سوالات قائم ہونے لگے ہیں کہ آخر ایک نااہل شخص کو عالیہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر کیوں مقرر کیا گیا ہے؟عالیہ یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور طلبا تنظیموں نے حکومت کے کردار پر سوال کھڑا کیا ہے۔

2007میں تاریخی کلکتہ مدرسہ(عالیہ مدرسہ)کو یونیورسٹی میں تبدیل کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا تھا یہ یونیورسٹی بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا۔مگر گزشتہ پندرہ سالوں میں یونیورسٹی کے پاس دو شاندار کیمپس تیار ہوگئے ہیں مگر تعلیمی ماحول اور معیار کے اعتبار سے یونیورسٹی دن بدن گراوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہے۔گزشتہ 7سالوں سے یونیورسٹی مسلسل خلفشار کا شکار ہے۔چار سال قبل جادو پور یونیورسٹی میں شعبہ کیمیسٹ کے پروفیسر محمد علی کو ابوطالب خان کی جگہ عالیہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔پروفیسر محمد علی وائس چانسلر بننے کے معیار پر مکمل اترتے تھے مگر کہا جاتا ہے کہ انہیں اس لئے ترجیح دی گئی تھی کہ ممتا بنرجی کی حکومت کے سینئر وزیر کی قریبی ان کی اہلیہ ہیں اور اسی وجہ سے انہیں عالیہ یونیورسٹی کی وائس چانسلری تحفہ میں ملی تھی۔جب کہ انتظامی امور کا تجربہ ان کے پاس بالکل نہیں تھا۔

مدرسہ بورڈ کے صدر شیخ ابو طاہر قمرالدین ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے دربار میں

پروفیسر محمد علی کے چار سالہ دور میں یونیورسٹی سب سے زیادہ خلفشار کا شکار تھی۔مالی بے ضابطگی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے وزارت اقلیتی امور نے گزشتہ سال اگست میں ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی بھی قائم کی۔اس کمیٹی کو ایک مہینے میں رپورٹ پیش کرنے تھے۔پہلے دو مرتبہ اس کمیٹی کی مدت میں اضافہ کیا گیا اس کے بعد جب کمیٹی نے رپورٹ حکومت کے پاس جمع کردی تو نہ اس رپورٹ کو عام کیا گیا اور نہ اس رپورٹ پر کارروائی کی گئی۔جب کہ اس رپورٹ میں کئی خامیوں اور مالی بے ضابطگیوں کی طرف نشاندہی کی گئی تھی۔

وزارت اقلیتی امورکے افسران اور وائس چانسلر کے درمیان جاری تعطل کی وجہ سے وزارت اقلیتی امور نے یونیورسٹی کا فنڈ رکو دیا جس کی وجہ سے اساتذہ اور طلبا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک سال سے زاید وقفے تک یونیور سٹی کے دوکیمپس میں انٹر نیٹ کی سہولیت دستیاب نہیں تھی۔جب کہ یہ بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔گزشتہ دنوں سابق طلبا کے ایک گروپ نے اچانک وائس چانسلر محمد علی کے دفتر میں حملہ کردیا اور ان کے ساتھ گالی گلوج کی۔

انصاف نیوز کئی ذرائع سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ وائس چانسلر پر حملہ ایک منصوبہ بند کوششوں کا حصہ تھا۔ایک بااثر مسلم ریاستی وزیر کے اشارے پر ترنمول کانگریس سے وابستہ عالیہ یونیورسٹی کے سابق طلبا نے وائس چانسلر کے ساتھ بدسلوکی اور گالی گلوج کی۔وزارت اقلیتی امور کے ایک سینئر عہدیدار نے نام نہیں ظاہر کرنے کے شرط پر کہا کہ ترنمول کانگریس کی ایک خاص لابی محمد علی کو دوبارہ وائس چانسلر مقرر کرنے کے حق میں تھی۔اسی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے یہ سب حملے اور گالی گلوج کیا گیا ہے۔

پروفیسر محمد علی کی وائس چانسلری کی مدت 22اپریل2022کو مکمل ہوگئی۔ہندوستان بھر یہ قانون ہے کہ کسی بھی وائس چانسلر کی مدت مکمل ہونے کے تین مہینے قبل ہی سرچ کمیٹی قائم کردی جاتی ہے تو نئے وائس چانسلر کے لئے لوگوں کے نام کو فائنل کرتی ہے۔ایسے میں یہ سوال ہے کہ جب وزارت اقلیتی امور کو پروفیسر محمد علی کو دوبارہ وائس چانسلر نہیں بنانا تھا تو تین مہینے قبل سرچ کمیٹی کیوں نہیں قائم کی گئی۔جب کہ گزشتہ سال کے اواخر میں ہی محمد علی نے ممتا بنرجی کو خط لکھ کر وائس چانسلر کے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کی تھی۔اس خط میں انہوں نے کئی سنگین الزامات بھی لگائے تھے۔وزیر اعلیٰ کے دفتر نے اس استعفیٰ نامہ کو وزارت اقلیتی امور کو فارورڈ کردیا تھا اور وزارت اقلیتی امور کے سیکریٹری نے محمد علیٰ کے استعفیٰ کی پیش کش پر تحریری جواب دیا تھا کہ وہ قانون کے مطابق استعفیٰ پیش کریں۔
کسی وائس چانسلر کے اچانک استعفیٰ دینے کی صورت میں یونیورسٹی کے کسی بھی سینئر پروفیسر یا ڈین کو قائم مقام وائس چانسلر کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔اس کے باوجود یونیورسٹی کے کسی سینئر اساتذہ کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کرنے کے بجائے باہر سے ایک ایسے شخص کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے جو حکومت کے قوانین پر کھڑے نہیں اترتے ہیں۔
یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق، کسی بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کے لیے10سال تک پروفیسر ہونا ضروری ہے۔ریاستی حکومت نے اس مدت کو پانچ سال کردیا ہے۔شیخ ابوطاہر قمر نہ کسی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں بلکہ وہ ایک کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔ان کے پاس نہ پڑھانے کا تجربہ ہے اور کسی خاص موضوع پر ان کی کوئی علمی ریسرچ ہے۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا مغربی بنگال میں قابل مسلمان پروفیسرز کی کمی ہے؟ ایک نااہل شخص کو اس عہدے پر لانے کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟کیا ان کے کندھے پربندوق رکھ غیر قانونی کام کرانے کے مقاصد ہیں۔
شیخ ابوطاہر قمر گزشتہ کئی سالوں سے مدرسہ بورڈ کے صدر ہیں۔ان کے دور صدارت میں بنگال میں سینئر مدرسہ اور ہائی مدرسہ کی حالت خستہ ہوئی ہے۔حکومت نے ایک بھی سینئر ہائی مدرسہ قائم نہیں ہے۔مدرسوں میں اساتذہ کی قلت ہے اور کئی مدرسے اس کی وجہ سے بند ہونے کے قریب ہیں۔ایسے میں یہ سوال کھڑا نہیں ہوتا ہے کہ کیا شیخ ابوطاہر قمر عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسے اہم عہد ہ کی ذمہ داری نبھا پائیں گے۔یہ سوال اس لئے بھی لازم ہے کہ شیخ ابوطاہر قمر کے پاس پہلے سے ہی مدرسے بورڈ کی اہم ذمہ داری ہے کیا وہ ایک ساتھ دو دو اہم ذمہ داریوں کو نبھاپائیں گے۔جب کہ وائس چانسلری کا عہدہ مکمل وقت کا طالب ہوتا ہے
عالیہ یونیورسٹی کے طلبا نے یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ کیا ہندوستان میں کسی بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے۔اگر نہیں ہے تو پھر عالیہ یونیورسٹی کے ساتھ ناانصافی کیوں؟۔
یونیورسٹی میں بنگلہ شعبہ میں ریسرچ کررہے معراج الاسلام نے بتایا کہ ہم گزشتہ چار مہینے کے زایدوقفے سے احتجاج کررہے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وائس چانسلر کے خلاف جو رپورٹ تیار ہوئی ہے اس کو منظر عام پر لایا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔پروفیسر محمد علی کے دور میں یونیورسٹی کی قیمتی زمین کو نیشنل میڈیکل کالج و اسپتال کے سپرد کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے طلبا نے ناکام کردیا۔کیا ایک کٹھ پتلی وائس چانسلر کیلئے اس کام کو انجام دیا جائے گا۔

عالیہ یونیورسٹی کے طلبا نے ممتا بنرجی کے کابینہ میں بہت ہی بااثر مسلم وزیر پر انگشت نمائی کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اقلیتی امور بے اختیار وزیر ہیں۔سارے کام وہ بااثر مسلم وزیر کے اشارے پر ہوتے ہیں۔یہ تقرری بھی انہیں کے اشارے پر ہوئی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین