Monday, October 7, 2024
homeاہم خبریںآسام کے حراستی کیمپس نازی جرمن کے کیمپوں کی یاد دلاتے...

آسام کے حراستی کیمپس نازی جرمن کے کیمپوں کی یاد دلاتے ہیں

فارن ٹربیونل کے تعصب اور طویل کارروائیوں کے باعث بے بس شہری برسوں مظالم جھیلنے پر مجبور--بھارت شہری ہونے کے باوجود ’ٹارچر کیمپوں‘ میں غیر ملکی ہونے کا لیبل- وکلا کی غیر ذمہ داری اور عدالتی اخراجات نے بھارتی شہریوں کو غیرملکی بنا دیا!مسلمان ’جسد واحد‘ بنگالی مسلمانوں کے درد وکرب سے بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں؟

نوراللہ جاوید

چار جون 2024 کو لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد یہ امیدکی جارہی تھی کہ بھارت کے آسمان پر جو سیاہ بادل چھاگئے ہیں اور خوف و ہراس کا جو ماحول ہے وہ اب چھٹ جائے گا کیوں کہ بی جے پی اور مودی کا خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔وہ جمہوریت کے راستے ڈکٹیٹرشپ کی طرف ملک کو لے جانا چاہتے تھے۔وہ آئین کے نام پر حلف لے کر آئین کے روح کوختم کرکے منووادی نظام قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے تمام ارادوں اور خوابوں کو چکنا چور کردیا ۔اقتدار کی چابی تو ملی مگر حلیف جماعتوں پر انحصار بڑھ گیا۔ اب سوال یہ تھا کہ خود کو غیر مفتوح ، ماوارئے فطرت اور بزعم خویش بھگوان کا اوتار قرار دینے والے شخص کا خواب چکنا چور کیوں ہوا؟ بھارتی عوام نے نفرتی نعروں کے مقابلے میں محبت کے نعرے کو کیوں پسند کیا۔اترپردیش میں جسے رام کے نام پر فتح کرنے کاخواب دکھا گیا تھااس نے سب سے زیادہ مایوس کیا ۔اس لیے امید تھی کہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے والے مودی اپنی شخصیاتی طلسم کے چکناچور ہونے پر خوداحتسابی کریں گے اور نفرتی نعرے بازی اور سرگرمیوں سے گریز کریں گے۔ ملک میں اتحاد و یکجہتی اور تقسیم کے خاتمے کے لیے کام کریں گی ۔ نتیش کمار، چندرابا نائیڈوجیسےلیڈروں کی پوزیشن بہت ہی مضبوط تھی۔ انہوں نے سیاسی حالات کی وجہ سے مودی کے حلیف ہونا پسند کیا ہے ۔نظریاتی طور پر مودی اور ان کے درمیان کوئی تعلق اور علاقہ نہیں ہے۔اس لیے یہ امید تھی کہ یہ دونوں، حکومت اور ان کے قریبی دائیں بازو کے لیڈروں کی لگام کسیں گے اور انہیں نفرت کی راہ پر گامزن ہونے سے روکیں گے مگر تمام امیدیں ختم ہو گئیں۔محض تین مہینے میں بھارت ایک بار پھر نفرت کی راہ پر گامزن ہے۔ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرتی ٹولہ سرگرم ہے۔لاشوں کے گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔بلڈوزرکی ستم گری کا سلسلہ جاری ہے۔پہلے شاہراہوں اور پبلک مقامات پر نماز پڑھنے والے پر حملہ کیے جاتے تھے لیکن اب تو مسجد بنانے پر بھی اعتراض ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔آخر بی جے بی اور سنگھ پریوار شدت کے ساتھ بھارت کو نفرت کی راہ گامزن کرنے پر بضد کیوں ہیں؟ آخر وہ 2024کے نتائج کے نوشتہ دیوار کو پڑھنے سے منکرکیوں ہے؟ مسلمانوں کو ہدف بناکر وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ سوالات انتہائی اہم ہیں۔ یہ بات ایک حد تک خوش آئند کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی سِول سوسائٹی اس صورت حال پر فکر مند ہے اور انگریزی میڈیا میں اس پربہت لکھا جارہا ہےاور اس کے پوشیدہ پیغامات کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اس وقت آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی نوعیت میں بالکل الگ ہے جو نفرت اور مسلم دشمنی سے کہیں آگے کا مرحلہ ہے۔آسام کے مسلمانوں پر چوطرفہ حملہ کیا جارہا ہے اور یہ سب ریاست کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔مسلمانوں کی شناخت، مذہبی آزادی، اقتصادیات اور تعلیم سب ریاستی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔کیا کوئی آئینی عہدہ پر فائز شخص ریاست کے عوام سے اپیل کرسکتا ہے کہ وہ مسلم تاجروں سے مچھلی نہیں خریدیں۔

بسوا سرما کی نفرت انگیزی، مسلم دشمن اقدامات کے درمیان گزشتہ ہفتے آسام کے ضلع بار پیٹا سے ایک ویڈیو آئی اس کو جس نے بھی دیکھا اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ اٹھائیس افرادجس میں انیس مرد اور نو خواتین تھیں، انہیں کے کاغذات دکھانے کے نام پر تھانہ طلب کیا گیا اور اس کے بعد جبراً بسوں میں بٹھا کر ایشیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپ جس کا نام بدل کر میتا ٹرانڈٹ کیمپ کردیا گیا ہے، میں بھیج دیا گیا۔ہرطرف چیخ و پکار و بلکتے مردو خواتین کے مناظر آسام میں جاری انسانی بحران کی پوری کہانی بیان کرتے ہیں۔گزشتہ سات دہائیوں سے آسام نسلی منافرت کا شکار ہے۔ہزاروں جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں۔ ہزاروں افراد کی زندگی اس امید کے ساتھ ختم ہوگئی کہ کبھی نہ کبھی حالات میں بہتری آئے گی۔ این آر سی کی حتمی فہرست شائع ہونے کے بعد اگرچہ ایک بڑی تعداد جن کے سرپر شہریت سے محروم ہونے کی تلوار لٹک رہی تھی وہ ختم ہوگئی مگر انیس لاکھ لوگ جس میں بڑی اکثریت بنگالی ہندوؤں کی ہے، ان کے سروں پر شہریت چھن جانے کی تلوار ہمیشہ کے لیے لٹکادی گئی ۔شہریت ترمیمی ایکٹ نے ہندو بنگالیوں کے لیے شہریت کے حصول کے دروازے کھول دیے ہیں اس لیے چھ لاکھ مسلمانوں پر ہمیشہ تلوار لٹک رہی ہے کہ نہ معلوم کب انہیں غیر ملکی قرار دے کر پسِ زنداں کر دیا جائے، اپنوں سے دور کر دیا جائے۔

آسام کے حراستی کیمپ جدید دور کے اندھیرے، تاریک اور خوفناک ٹارچر چیمبر ہیں جہاں زندگی اور موت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے۔جہاں زندگی عذاب اور موت انعام ہے۔ غیر ملکی ٹربیونلز (FT) کے ذریعہ غیر ملکی قرار پانے والوں کو اس وقت تک اپنا وقت گزارنے کی سزا دی جاتی ہے جب تک کہ وہ ضمانت نہیں حاصل کرلیتے ہیں یا پھر اعلیٰ عدالت جاکر فارن ٹربیونل کے فیصلے کو تبدیل کرانے میں کامیاب نہیں ہو جاتے۔آسام کے حراستی کیمپوں میں زیادہ تر قیدی صرف کاغذی کارروائی میں معمولی تضاد کی وجہ سے محروس ہیں جنہوں نے فی الواقع کسی جرم یاگناہ کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔آسام کے حراستی کیمپوں سے متعلق خوف ناک کہانیاں آئے دن میڈیا میں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔حراستی کیمپوں میں پراسرار حالت میں قیدیوں کی موت عام بات ہے۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں صرف دو دستاویزات پر آپ کے نام کے ہجے مختلف ہونے پرغیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا ہے۔ ساکن علی جس کے اس دو دستاویز میں S کے ساتھ H کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ سے اسے حراستی کیمپ میں پانچ سال گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ حراستی کیمپ میں بیمار ہوجانے والوں کو ہتھکڑی کے ساتھ ہسپتالوں میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ بیماروں کو ہسپتال کے بستروں پر ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں۔حاملہ اور بوڑھی خواتین کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ تین ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود رشمینارا بیگم کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ستمبر 2018 میں پچاس سالہ صوفیہ خاتون کو پرسنل ریلیز بانڈ پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کا تجربہ اتنا تکلیف دہ تھا کہ گھر واپس آنے کے پندرہ دنوں تک وہ ایک لفظ بھی بولنے کے قابل نہیں تھی۔

با ر پیٹا کے اٹھائیس لوگوں کو کیوں غیر ملکی قرار دیا گیا؟
تین ستمبر کو آسام کے ضلع بارپیٹا میں پولس نے مبینہ طور پر اٹھائیس افراد کو غیر ملکی ٹریبونل کے ذریعہ غیر ملکی شہری قرار دیے جانے کے بعد ’مٹیا ٹرانزٹ کیمپ‘ میں بھیج دیا ہے۔ بارپیٹا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سوشانتا بسوا سرما کے بیان کے مطابق انیس مرد اور نو خواتین کو ٹریبونل کے حکم کی تعمیل میں ٹرانزٹ کیمپ بھیجا گیا ہے۔ان تمام بنگالی بولنے والے مسلمانوں کوقانونی کارروائیوں کے بعد غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق انہیں ٹرانزٹ کیمپ میں بھیجنے کے لیے ایس پی دفتر بلایا گیا تھا۔جب کہ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں دستاویز لے کر آنے کے لیے کہا گیا تھا مگر جب وہ ایس پی کے دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ انہیں کیمپ میں بھیجا جارہا ہے۔جب رشتہ دار و اقارب کو معلوم ہوا کہ انہیں اب ٹرانزٹ کیمپ میں بھیجاجارہا ہے تو لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ظاہر ہے کہ آنکھوں کے سامنے اپنوں کے چھینے جانے کے کرب کا سامنا کرنے والا کوئی بھی شخص اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا ہے۔ جو ویڈیوز ہمارے سامنے آئی ہیں وہ اسی کرب کے مناظر ہے۔ اگرچہ اس طرح کے مناظر کی تصویریں آسام کے باہر لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھی ہیں مگر آسام میں یہ مناظر عام ہیں۔بارڈر پولیس کے ذریعہ این آر سی میں باہر رہ جانے والوں کو کسی بھی شخص کو ڈی ووٹرس کے طور پر شناخت کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی وقت یہ پولیس فورسز دروازے پر دستک دے کر گھر کے کچھ افراد کو اٹھا کر لے جا سکتی ہیں۔

فارن ٹربیونلس، مشتبہ غیر ملکیوں کے مقدمات کو نمٹانے والے نیم عدالتی ادارے ہیں۔آسام میں کل سو فارن ٹربیونلس ہیں ۔فارنرز (ٹربیونل) آرڈر آف 1964 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ آسام پولیس کا ’’بارڈر ونگ‘‘ (بارڈر پولیس) ان افراد کی شناخت کرتا ہے جن پر اکثر D (مشکوک) ووٹرزیا غیر قانونی رہائشی ہے۔ دو ماہ قبل ہی آسام کی حکومت نے مبینہ طور پر ’’بارڈر پولیس کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہندو، سکھ، بدھ، پارسی، جین اور عیسائی افراد کے مقدمات فارن ٹربیونل میں بھیجنے سے گریز کریں۔ متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے تناظر میں حکومت کی اس ہدایت کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انیس لاکھ افراد جنہیں این آر سی میں شامل نہیں کیا گیا تھا ان میں سے تیرہ لاکھ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر طبقات پر غیر ملکی شہریت کی تلوار نہیں لٹک رہی ہے۔ ڈی ووٹرس اور غیر ملکی شہریت کی تلوار صرف چھ مسلمانوں پر لٹک رہی ہے۔ان چھ لاکھ مسلمانوں میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں صرف اس لیے این آر سی سے باہر کیا گیا ہے کیوں کہ ان کے نام کے ہجے میں معمولی فرق آگیا تھا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست میں ہندو بنگالی اور دیگر غیر مسلم کمیونٹی عارضی طور پر ٹربیونلوں کے ذریعے قانونی چارہ جوئی سے محفوظ ہیں۔ یعنی صرف مسلمانوں کی شہریت کی جانچ کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے مناظر مزید دیکھنے کو ملیں گے وہ بھی ایسے وقت میں جب بسوا سرما اپنی مسلم مخالف پالیسی کو شدت کے ساتھ آگے بڑھانے پر مصر ہیں۔آسام کے کئی سینئر وکلا نے بتایا کہ ان اٹھائیس افراد کے کاغذات میں کوئی کمی نہیں تھی بلکہ اس معاملے میں ان کے وکلا کی عدم دل چسپی کا اہم رول رہا ہے۔این آر سی کے باہر رہ جانے والے یا پھر ڈی ووٹر قرار دیے گئے افراد میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے پاس وکلا کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔ دور دراز رہنے کی وجہ سے بار بار ٹربیونل پیش ہونا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ عدم پیشی کی بنیاد پر بسا اوقات انہیں غیر قرار دیا جاتا ہے۔ وکلا کی ٹیم کے مطابق ان اٹھائیس افراد کے ساتھ یہی ہوا ہے ۔ان کے وکلا تاریخ پر ٹربیونل نہیں پیش ہو سکے۔آسام کے ایک مسلم وکیل نے بتایا کہ ٹربیونل میں مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے وکلا تیس سے چالیس ہزار روپے بطور فیس لیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ رقم ان غریب لوگوں کے لیے بہت ہی بڑی رقم ہے۔آسام سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نے بتایا کہ ٹربیونل میں بیٹھے افسران کے متعصبانہ رویہ، وکلا کی لاپروائی اور عدالت میں بر وقت پیش نہیں ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد بھارت کی شہریت کے تمام دستاویز ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر غیر ملکی قرار دے دیے جاتے ہیں۔پھر وہاں سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ٹربیونل میں پیروی کے لیے رقم نہیں ہے تو پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کون پیروی کرے گا۔بلاشبہ کچھ تنظیمیں، جماعتیں اس شعبے میں بہترین کام کر رہی ہیں اور انہی کے ذریعہ حراستی مراکز میں قید افراد کو رہائی مل سکتی ہے۔ ہرش مندر، پرشانت بھوشن اور نوین جندل یونیورسٹی جیسے اداروں نے ٹربیونل میں قید ان افراد کے مسائل کو دنیا کے سامنے لاکر معاملے کی حساسیت سے آگاہ کر چکے ہیں ۔

حراستی مراکز اور بین الاقوامی قوانین
آسام کے حراستی مراکز میں قید کیے گئے ’’مبینہ غیر ملکی شہری‘‘ کوئی مجرم نہیں ہیں مگر حراستی مراکز میں رہنے والوں کو قیدیوں سے بھی بدترین سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعدد رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیلوں میں رہنے والے قیدیوں کو بھی کچھ حقوق حاصل ہیں مگر حراستی کیمپ میں مقید ان مبینہ غیر ملکیوں کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ بدترین صورت حال کا سامنا ہے۔

حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق پچیس جنوری 2020 تک 126,998 افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے28.971 افراد وہ ہیں جن کے پاس 1971 سے قبل آسام میں داخل ہونے کے پختہ دستاویزات ہیں۔ 1985 کے آسام معاہدے کے مطابق انہیں ملک بدر نہیں کیا جاسکتا۔ چوں کہ حراستی کیمپ غیر ملکی ایکٹ 1946 کے سیکشن 3 (2) ای اور فارنرز آرڈر 1948 کے پیراگراف گیارہ (2) کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔اس لیے ان حراستی کیمپوں میں رہنے والے افراد کو وہی سہولتیں اور حقوق حاصل ہوں گے جو آسام کے جیلوں میں قید افراد کو حاصل ہیں۔
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں، کارکنوں اور میڈیا رپورٹوں میں حراستی کیمپ میں درپیش غیر انسانی حالات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر جو کہ قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) کے ساتھ وابستہ ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل چودہ اور اکیس کے تحت قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست میں بنیادی حقوق کے ازالے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک برتنے کی اپیل کی گئی۔اس عرضی کے بعد سپریم کورٹ نے کئی اہم ہدایات دی ہیں۔ غیر ملکی شہریوں کے ساتھ سلوک اور معاملات کرنے کے کئی بین الاقوامی معاہدے، کنونشنز، قوانین اور رہنما خطوط ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بے وطن لوگوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے، چاہے وہ پناہ گزین ہوں، پناہ کے متلاشی ہوں، تارکین وطن (قانونی یا دوسری صورت میں) غیر دستاویزی رہائشی ہوں یا شہریت کے قابل اعتراض دعوے والے ہوں، سبھی کو بین الاقوامی قوانین کے تحت حقوق حاصل ہیں ۔

شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ، 1966کے آرٹیکل سات میں کہا گیا ہے کسی کو اذیت نہیں دی جائے گی، ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا یا سزا نہیں دی جائے گی۔ آرٹیکل 10(1): آزادی سے محروم تمام افراد کے ساتھ انسانیت پر مبنی رویے کے ساتھ سلوک کیا جائے گا اور انسانی موروثی وقار کا احترام کیا جائے گا۔ پناہ گزیں یا پھر پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف کنونشن کے آرٹیکل دو کے مطابق (1) ہر ریاستی پارٹی اپنے دائرہ اختیار کے تحت کسی بھی علاقے میں تشدد کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے موثر قانون سازی، انتظامی، عدالتی یا دیگر اقدامات کرے گی۔ (2) کوئی بھی غیر معمولی حالات، خواہ حالت جنگ ہو یا جنگ کا خطرہ، اندرونی سیاسی عدم استحکام یا کوئی دوسری عوامی ہنگامی صورت حال، تشدد کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (3) کسی اعلیٰ افسر یا پبلک اتھارٹی کا حکم اذیت کے جواز کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ آرٹیکل 16 (1) ہر ریاستی فریق اپنے دائرہ اختیار کے تحت کسی بھی علاقے میں ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کی دیگر کارروائیوں کو روکنے کا عہد کرے گا جو کہ آرٹیکل ایک میں بیان کردہ تشدد کے مترادف نہ ہوں۔

اسی طرح آئین ہند کے آرٹیکل اکیس۔ کے تحت بھی انہیں حقوق حاصل ہیں ۔کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا ۔ آرٹیکل اکیس کو انسانی وقار کے ساتھ جینے کے حق کی وسیع تر ضمانت کے طور پر تعبیر کیا گیا ہے، جس میں زندگی اور آزادی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری بنیادی اور طریقہ کار کے حقوق کی ایک وسیع صف کو شامل اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

سنٹر فار نیو اکنامکس اسٹڈیز کی’’ آزاد آواز‘‘ کی ٹیم نے حراستی کیمپوں کا دورہ کیا اور یہاں قید افراد کے ساتھ بات چیت کرنے بعد رپورٹ مرتب کی ہے۔اس رپورٹ میں خواتین کے ساتھ سلوک ، صنفی امتیاز اور خواتین کے ساتھ رہنے والے بچوں کی صورت حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ میں خواتین کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ اکثر بے وطنی کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔کیوں کہ انتظامیہ اکثر ان دستاویزات کو مسترد کرتے ہیں جن کی انہیں ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غریب خواتین کے پاس آسام میں اپنی طویل مدتی آبائی رہائشی ثابت کرنے کے لیے دستاویزات کم ہیں۔ نتیجتاً غیر شہریوں کی بھاری اکثریت خواتین کی ہے اور انہیں بعد میں حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔حراستی مراکز میں زیادہ تر خواتین ادھیڑ عمر اور مائیں ہیں۔ زیادہ تر معاشروں میں زچگی کو اولین اہمیت دی جاتی ہے، بہت سی خواتین اپنے بچوں کو اپنے ساتھ حراستی مراکز میں لے جاتی ہیں تاکہ ان کی قریب سے دیکھ بھال کر سکیں۔ آزاد آواز میں فاطمہ نامی ایک خاتون کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ضلع کاچھر سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بیگم کو اپنی بیٹی کے ساتھ تین مختلف مراکز میں دس سال تک نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے فارنرز ٹربیونل کی طرف سے نوٹس اس وقت بھیجا گیا جب وہ دو ماہ کی حاملہ تھی۔ تقریباً آٹھ ماہ بعد ضروری دستاویزات پیش نہ کر پانے کی وجہ سے اسے غیر ملکی قرار دے دیا گیا۔

مئی 2019 میں سپریم کورٹ نے حراستی کیمپوں میں تین سال مکمل کرنے والے لوگوں کی مشروط رہائی کی ہدایت دی تھی۔سپریم کورٹ نے نظر بندوں کی رہائی کے لیے چند رہنما اصول وضع کیے تھے جن میں ایک لاکھ روپے کی دو ضمانتوں کے ساتھ بانڈ پر عمل درآمد، رہائی کے بعد قیام کا قابل تصدیق پتہ کی تفصیل پیش کرنی ہوگی۔حراستی مراکز سے رہائی سے قبل رہائی پانے والے کا بائیو میٹرک اور تمام دس فنگر پرنٹس اور تصاویر کو ایک محفوظ ڈیٹا بیس میں محفوظ کر لیا جائے گا۔ انہیں ہر ہفتے ایک مرتبہ فارنرز ٹریبونل کی طرف سے متعین پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنا ہوگا۔ اپنے پتے میں کسی تبدیلی کی اطلاع اسی دن مخصوص پولیس اسٹیشن کو دینی ہوگی۔ایک سہ ماہی رپورٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (بارڈر) کی طرف سے فارنرز ٹربیونل کو پیش کی جائے گی تاکہ ایسے رہا شدہ غیر ملکی کو متعلقہ تھانے میں پیش کیا جائے اور شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں، ڈی ایف این کو پکڑ کر فارنرز ٹریبونل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے رہائی کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں وہ انتہائی سخت ہیں۔ایک غریب شخص کے لیے ایک لاکھ روپے بانڈ پیش کرنا مشکل ہے۔اس کے علاوہ رہائی کے بعد بھی پولیس اسٹیشن اور دفاتر کا چکر باقی رہ جاتا ہے۔مشہور وکیل پرشانت بھوشن نے اس جانب عدالت کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ گرفتار کیے گئے بہت سے لوگ بہت غریب ہیں، تین سال قید کاٹنے کے بعد ان کے پاس ایک لاکھ کی دو ضمانتیں دینے کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے وہ رہائی کے بعد بھی قید میں ہیں۔ انہوں نے عدالت سے اپیل کی ضامن کو دو سے کم کر کے ایک کر دیا جائے اور ضمانت کی رقم کو ایک لاکھ سے کم کر کے پچیس ہزار کر دی جائے تاکہ ان غریب قیدیوں کو اپنی رہائی کی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے میں مدد ملے۔ ہفتہ وار پولیس اسٹیشن پر حاضری کی شرط پر پرشانت بھوشن نے عدالت کی توجہ مبذول کرائی کہ دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے اور یومیہ اجرت کمانے والوں کے لیے یہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ جزیروں میں اور مقامی تھانوں سے دور رہتے ہیں۔ ان چار جزیروں کا جغرافیہ، ان خاندانوں کے کام کی نوعیت کے ساتھ مل کر جو کہ زیادہ تر یومیہ اجرت کی مزدوری ہے، پولیس اسٹیشن کو ہفتہ وار رپورٹ کرنا مشکل اور اکثر ناممکن بنا دیتا ہے۔ جو لوگ ایسا کرنے کا انتظام کرتے ہیں انہیں سفر میں خرچ ہونے والی کافی رقم کے علاوہ اپنی روزانہ کی آمدنی کا نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ پرشانت بھوشن نے سفارش کی ہے کہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کی ضرورت کو ایک ہفتے سے کم کر کے مہینے میں ایک بار کیا جا سکتا ہے جیسا کہ موجودہ حکم دیا گیا ہے۔ تاہم، اب تک اس سلسلے میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی ہے۔

مختلف تنظیموں اور حقوق انسانی کے کارکنان کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آسام کے مسلمان بالخصوص بنگالی مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حراستی کیمپوں میں رہنے والے افراد بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں جنہیں بغیر جرم کے قید کر دیا گیا ہے۔2019 میں آسام کی سِول سوسائٹی تنظیموں نے ایک مشترکہ خط جاری کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ آسام کے حراستی کیمپوں میں وہی صورت حال ہے جو نازی جرمنی کے حراستی کیمپوں کی تھی۔ نازی جرمنی کیمپوں میں قیدیوں کے ہاتھوں قیدیوں کی بدسلوکی کروائی جاتی تھی۔ قیدیوں کو اجتماعی سزائی دی جاتی تھیں۔ جرمن نازی کیمپوں میں قید یہودیوں کو انسانوں کے صفوں میں شمار تک نہیں کیا جاتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ آسام میں لاکھوں لوگوں پر غیر ملکی شہری ہونے کی تلوار لٹکی ہوئی ہے، ہزاروں افراد کے خلاف فارن ٹربیونل میں مقدمات چل رہے ہیں۔سوا لاکھ افراد کو ڈی ووٹرس قرار دیا گیا ہے۔ سیکڑوں افراد ٹرانزٹ کیمپوں میں مقیم ہیں اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔یقیناً ان افراد کی مدد کے لیے آسام کے کئی وکلا ، کئی تنظیمیں اور سی جے پی (سٹیزن فارجسٹس اینڈ پیس) جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ آسام کے مسلمانوں کے درد کا احساس دور بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کہانیوں کو پڑھا جائے اور جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ دست تعاون دراز کیا جائے ۔اسلام کے ابتدائی دور میں بھی غلاموں اور قیدیوں کی رہائی پر مال خرچ کرنے اور زکوٰۃ کی رقم کو اس مصرف میں دینا فرض قرار دیا گیا تھا۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے مال خرچ کرنے کو بہترین صدقہ قرار دیا گیا تھا۔ آسام کے بنگالی مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں ان سے ہمارا ایک مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ دین کی بنیاد پر ہے جس کا احادیث نبوی میں ذکر موجود ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ان پر گزرنے والے کرب سے ہم بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے دست تعاون دراز کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے مسلمانوں کو بنگالی مسلمانوں کے درد ناک کہانیوں سے واقف کروایا جائے تاکہ اسلامی اخوت اور ہمدردی کا رشتہ مضبوط ہو سکے۔
***

متعلقہ خبریں

تازہ ترین