Friday, October 18, 2024
homeاہم خبریںبی بی سی انڈیا بند

بی بی سی انڈیا بند

براڈکاسٹر نے منگل کو اعلان کیا کہ بی بی سی کی ہدایات کے مطابق اس کے انڈین عملے کے چار ارکان چھ مقامی زبانوں میں کوریج فراہم کرنے کے لیے ایک نیا بیرونی ادارہ شروع کریں گے۔

نیی دہلی:ایجنسیاں

غیر ملکی سرمایہ کاری کے انڈین قوانین کے تحت کی گئی تحقیقات بعد بی بی سی کو مجبوراً اس ملک میں اپنے کاموں کی تنظیم نو کرنی پڑ رہی ہے۔

براڈکاسٹر نے منگل کو اعلان کیا کہ بی بی سی کی ہدایات کے مطابق اس کے انڈین عملے کے چار ارکان چھ مقامی زبانوں میں کوریج فراہم کرنے کے لیے ایک نیا بیرونی ادارہ شروع کریں گے۔

براڈکاسٹر نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اس نئی کمپنی کا نام کلیکٹو نیوز روم ہوگا اور یہ چھ انڈین زبانوں میں سروسز کے ساتھ ساتھ انڈیا کی ڈیجیٹل کوریج اور دنیا بھر کے سامعین کے لیے انگریزی میں بی بی سی انڈیا کا یوٹیوب چینل چلائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ ’بی بی سی مانیٹرنگ اور عالمی نشریات کے لیے بی بی سی کا انگریزی زبان میں خبریں جمع کرنے کا کام بی بی سی کے پاس رہے گا۔‘

بی بی سی کی انڈین زبان میں سروسز فی الحال بی بی سی ورلڈ سروس انڈیا کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں، جو مکمل طور پر بی بی سی کی ملکیت ہے۔

2020 میں متعارف کرائے گئے نئے قانونی تقاضوں کی ضروریات کے تحت انڈیا میں قائم ڈیجیٹل نیوز کمپنیوں کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کی حد 26 فیصد مقرر کی گئی تھی۔

اس سے قبل قانونی جوابات میں بی بی سی ورلڈ سروس انڈیا نے بتایا تھا کہ اسے مارچ کے آخر میں انڈین حکومت کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا، جس میں ملک کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے قواعد و ضوابط پر مبینہ طور پر عمل نہ کرنے سے متعلق بتایا گیا تھا۔

دی اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے قواعد پر پورا اترنے کے لیے ایک سال کا وقت مانگا اور اپنی تنظیم نو کی تجویز حکام کے سامنے رکھی۔

یہ تنظیم نو انڈیا کے انکم ٹیکس حکام کی جانب سے دہلی اور ممبئی میں بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر چھاپے کے 10 ماہ بعد کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں انڈیا کی مالیاتی جرائم کے ادارے ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ نے مزید تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

حکومت جس کو ’سروے‘ قرار دیتی ہے وہ اس وقت ہوا جب چند ہفتے قبل بی بی سی کی جانب سے 2002 کے گجرات کے فسادات پر ایک دستاویزی فلم نشر کی گئی جس پر انڈین حکومت کو غصہ آیا تھا۔

اس (فلم) میں اس وقت کی برطانوی حکومت کا ایک جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس جائزے کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی ان پرتشدد حالات کے ’براہ راست ذمہ دار‘ تھے جن میں ایک ہزار سے زیادہ افراد – جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی – مارے گئے تھے۔

گذشتہ سال انڈیا کی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو ان فسادات کے کیس سے بری کردیا تھا اور ماضی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان پر اس الزام کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے شواہد ناکافی تھے کہ انہوں نے پولیس کو ہٹ جانے اور فسادات کو پھیلنے دینے کا حکم دیا۔

بی بی سی نے اپنی فلم کا دفاع کیا اور کہا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ادارتی معیارات کے مطابق ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ٹیکس معاملات کی تحقیقات میں سرکاری اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین