Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریں’جشن غالب‘ سے’ جشن ساحر‘تک-اردو کی بدحالی کی داستان

’جشن غالب‘ سے’ جشن ساحر‘تک-اردو کی بدحالی کی داستان

انصاف نیوز آن لائن

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،مگر ”اردو“کی مفلوکی الحالی کا عالم یہ ہے کہ یہ مقولہ بھی اس پر صادق نہیں آتاہے۔تباہی و بربادی کاایک تسلسل ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔زوال کا سفر تیزی سے گامزن ہے۔یہ کسی کو نہیں معلوم ہے زوال کی منزل کیا ہے ؟بے حسی ، بے ادراکی کا عالم یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اور زوال کے اس سفر کو روکنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ان ریاستوں کا ذکر ہی نہیں جہاں غالب کی نوا گونجی نہیں تھی بلکہ جن شہروں اور ریاستوں میں غالب کی نوا گونجی تھی ان ریاستوںمیں بھی اردو کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور یا پھرمٹایا جارہاہے ۔اورجو کچھ باقی رہ گیاہے وہ بھی شور و غل ، عیاری ‘ مکاری اور فریب کی نذرہورہاہے۔

ایسے توآزادی سے قبل ہی اردوکے خلاف سازش شروع ہوگئی تھی۔انگریزی استعمارنے اپنے اقتدار کو طویل دینے کیلئے اردو کو مشق ستم بنایا‘ رسم الخط کا تنازع کھڑا کیا‘ ہندی اور اردو کے تنازعات کو ہوا دی اور اردو مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی کی۔مگرآزادی کے بعداردو مسلمانوں کی زبان ٹھہری۔آزاد بھارت میں مسلمان اور ان سے وابستہ ہر ایک شے قابل نفرت بن گئی۔ بیچاری اردو تعصب و نفرت سے کیسے محفوظ ہوسکتی تھی۔آزاد بھارت کی تاریخ میں 1965کا سال اردو کیلئے ”سال سیاہ “ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔اردو کے تئیں تعصب و نفرت ،ذہنوں میں تلخی اور بدنیتی رکھنے والے حکمرانوں نے بھارت سے اردو کو ختم کرنے کیلئے ا±تر پردیش کے تمام ا±ردو اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ا±ردو کی بنیاد مٹانے ا وراس کی جڑوںکو اکھاڑ پھینکنے کے اس عمل سے اردو طبقے میں ناراضگی اور برہمی پیدا ہونا فطری بات تھی۔پورے ملک میں اہل اردومیں شدید ناراضگی تھی۔مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھنے والی کانگریس حکومت نے اہل اردو کو خوش کرنے کیلئے اپنے قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے عیارانہ شاطرانہ چال چلتے ہوئے اردو کے مشہور و معروف شاعر مرزا غالب کے 100 ویںبرسی پر ” جشن غالب “منانے کا فیصلہ کیا۔

سو سال پ±رانی خستہ حال غالب کی تربت کی ازسر نو تعمیر کرائی کی گئی۔اس کی شکل و صورت تبدیل کردی گئی۔دیوان غالب اور ایوان غالب کے نام پر اکیڈمک ادارے بنائے گئے، غالب کی حویلی کو محفوظ کیا گیا۔مشاعرہ کو اردو کی تہذیب و ثقافت و کلچر کا مظہر اور بقا کا ضامن قرار دیا جاتا ہے۔مگر مشاعرہ اردو والوں کی مجبوری بھی رہی ہے۔ بڑی سے بڑی ناراضگی ، برہمی اور کوتاہی کو مشاعرے کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے۔جشن غالب کے موقع پر مشاعرہ کا انعقاد ہونا ہی تھا۔چنانچہ دہلی میں ایک ” عالیشان عالمی مشاعر ہ “ کا انعقاد کیا گیا جس میںملک کے مشہور و معروف شعرا کو دعوت دی گئی۔

مشاعرہ کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی ”اردو اشرافیہ“کی ساری ناراضگی کافور ہوگئی ، سارے احتجاج و ہنگامہ آرائیاں دم توڑ گئیں۔منتظمین مشاعرے نے اقرباپروری اور سفارشی شعرا کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے نامور اور معتبر شعرا کواس بین الاقوامی مشاعرہ کا مہمان بنایا۔اس مشاعرے میں انقلابی شاعر ساحر لدھیانی بھی مدعو تھے۔یہ مشاعرہ ساحر کے مزاج کے خلاف تھا۔ساحر لدھیانوی کے باغیانہ تیور و مزاج کا تقاضا تھا کہ وہ مشاعرے کی شرکت کی دعوت ٹھکرادیں۔ مگر انہوں نے مشاعرے کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے مشاعرے میں شرکت کا فیصلہ کیا۔اس موقع پر انہوں نے اپنی مشہورزمانہ نظم ”جشن غالب “ پڑھ کر سنائی۔ساحرلدھیانوی عظیم فنکار تھے۔انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ فنکار اپنے کلام سے کسی بھی حالات میں حق گوئی و بےباکی سے نہیں چوکتا ہے۔

6دہائی قبل اترپردیش اور دہلی میں اردو کی بدحالی پر جشن کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ استعارہ سے روایت بن گئی۔فورٹ ولیم کالج کے ذریعہ اردو کے مستقبل کو روشن کرنے والا کلکتہ شہر جہاںغالب اپنی فریاد لے کر آئے اور چند مہینوں تک قیام کیا۔اپنی شاعری سے کلکتہ شہر کوسحرزہ کردیا۔غالب کی پہلے مخالفت ہوئی اور پھر پذیرائی ہوئی۔کلکتہ شہر جہاں سے اردو کا پہلا اخبار ”جام جہاں نما شائع ہوا تھا اور جس شہر کو مولانا آزاد جیسے عظیم صحافی کی ادارت میں الہلال اور البلاغ جیسے بلند آہنگ اور انقلابی اخبار کے مسکن اشاعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔آج اسی شہر کلکتہ اور ریاست بنگال میں ”اردو اجنبی “ ہوتی جارہی ہے۔اردو اسکول تباہ کئے جارہے ہیں۔اردو کے نام پر اقتدار میں پہنچنے والی ممتا حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا ڈھونک تو خوب رچا مگر اس حکومت کا گیارہ سالہ دور اردو کیلئے تباہ و بربادی کے اعتبار سے بدترین ثابت ہوا ۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جشن غالب سے قبل 1965میں پہلے اردو اسکولوں کو بند کیا گیا اور اس کے بعد جشن کا اہتمام کیا گیا۔بنگال میں بھی 2023میںپہلے اردو کے طلبا کا مستقبل تاریک کرتے ہوئے مغربی بنگال سول سروسز کے امتحانات میں اردو کے طلبا کیلئے امکانات کو ختم کردیا گیا۔اردو کی جگہ بنگلہ کا 300نمبر کے پرچہ کو لازمی کردیا گیا۔بڑے پیمانے پر اردو پرائمری اسکولوں کو بندکرنے کے دہانے پر پہنچایا گیا۔ اساتذہ کی سیکڑوں سیٹیں خالی ہیں۔ریزرویشن کی وجہ سے یہ سیٹیں نہیں بھر پارہی ہیں۔دس سالوں میں حکومت تو دور اس حکومت میں اردو کے مسلم لیڈران نے اس کو ختم کرنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ان سالوں میںہردو ر میں حکومت کی داد و دہش وصول کرنے والی ”اردو اشرافیہ “ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رہی ۔کہیں سے بھی اردو کا سوال نہیں اٹھا یا گیا۔سول سروس امتحان میں کامیابی کے دروازے اہل اردو پر بند کیا گیا تو کہیں کہیں اس کے خلاف آواز بلند ہوئی۔کچھ تنظیموںاور افراد نے تحریک بھی چلائی اور کچھ قائدین نے جھوٹا دلاسہ ہی سہی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کرنے کا ڈھونگ بھی رچایا مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا تو ان سیاسی طالع آزماﺅں نے ”جشن ساحر “ کا اعلان کردیا۔

دس سالوں میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے ذریعہ جشن کے اہتمام کی طویل فہرست ہے۔بلکہ یہ کہا جائے جب جب انتخابات قریب آتے ہیں تو بنگال اردو اکیڈمی سرگرم ہوئی۔بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بنگال اردو اکیڈمی کو اہل اردو کی سپاری دی جاتی رہی ہے۔اہل اردو کی ناراضگی اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے اردو کے کسی نہ کسی عظیم شاعر کے نام پر جشن کا اہتمام کردیا جاتا ہے۔2015مئی میں جشن اقبال منایا گیا۔کیوں کہ اگلے سال اسمبلی انتخابات تھے۔پھر چند سالوں بعد2020میں ”جشن غالب “ کے نام پر دھماچوکڑی کی گئی کیوں کہ اس کے اگلے سال 2021میں اسمبلی انتخابات تھے۔2022میں ممتا بنرجی کو قومی سیاست میں مقبول بنانے کیلئے ”جشن کیفی“ کا اہتمام کیا گیا ہے۔اور اب چونکہ عام انتخاب سر پر ہے اور اگلے دو مہینے میں تاریخ کا اعلان ہونا ہے تو ” جشن ساحر“کا اہتمام کیا جارہا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ بنگال سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نماکی اشاعت ہوئی تھی۔الہلال اورالبلاغ جیسے اردو اخبار کی اشاعت ہوئی۔مگر اردو صحافت کہاں ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔دس سالوں میں کتنے اردو اخبارات بند ہوئےاور کیوں؟ آزاد انہ اور غیر جانبدارانہ صحافت کرنے والے اردو اخبارت کی اشاعت بند ہونے پر مجبور کون کیا؟اردو اکیڈمی کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں دی گئی۔جنہیں نہ اردو آتی ہے اور جنہیں اپنے بچوں کو اردو پڑھانے میں شرم محسوس ہوتی ہے وہ اردو کے فروغ کا مشعل بلند کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔حالیہ دنوں میں اردو اکیڈمی کے پریس کانفرنس کے شرکا کو دیکھ لیں اس میں اردو ادبا واور دانشور کی تعداد نمک کے برابر نہیں ہے۔ایک بےچارے استاذ محترم ہیں وہ تو معصوم ہیں۔ان کے بارے میں کیا کہنے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ان جشن کی ان محفلوں سے اردو کو کیا ملا؟ اردو کے مسائل حل ہوگئے؟اردو کی ترویج و ترقی محض مشاعرے‘ غزل خوانی‘ رسمی سیمینار سے ہوتے ہیں؟کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملے دس سال ہوچکے ہیںان سالوں میں کتنے اردو میڈیم اسکول قائم ہوئے ؟کتنے کالجز اور یونیورسٹیوں میں ارد و کے شعبے قائم ہوئے؟ان سوالوں سے بڑا سوال یہ ہے کہ اردو والوں نے اردو کی ترویج و ترقی کیلئے کیا گیا؟ان سوالوں کے جواب سے قبل ایک اہم سوال بھی پوچھنا ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کے زندہ رہنے کیلئے کیا ضروری ہے؟


کوئی بھی زبان پرائمری اور اپرپرائمری سطح پر نہیں پڑھائی جاتی ہے تو پھرکیا وہ زبان زندہ رہ سکتی ہے؟زبانوں کی تاریخ ہمیںبتاتی ہے کہ ایسی زبانیں جس میں ابتدائی تعلیم کا نظم نہیں ہوتا ہے اس زبان کا فنا ہونا اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔زبانوں کی زندگی کیلئے لازمی ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے مادری زبان کے ذریعے ہی مانوس اور جانے پہچانے ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بلندمنزلیں حاصل کرتے ہیں۔اپنے ماحول اور مٹی سے جڑے رہنے اور اس کے ساتھ ا±نسیت سے ہی بچوں میں اعتماد، توازن، احساسِ ملکیت اور قومی یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔

مگر آج اس حقیقت کو اگر ہم بنگال کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ اردو اسکول کسمپرسی کے شکار ہیں۔اردو اسکولوں میں اساتذہ کا بحران ہے۔ریزرویشن پالیسی کی وجہ سے اردو اسکولوں میں اساتذہ کی سیٹوں کی بڑی تعداد ریزرو ہوگئی ہے۔یہ اردو اسکولوں کا اہم مسئلہ ہے۔گزشتہ دس سالوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگرآج تک حل نہیں ہوسکا۔2021کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا رکن اور بنگال اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین ندیم الحق نے اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ کے نمائندہ وفد سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ اس مسئلے کو حل کرلیا گیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جلد ہی اس سمت میں کارروائی کی جائے گی۔مگر دو سال مکمل ہونے کے بعد بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

دس سالوں میں بنگال اردو اکیڈمی کے سالانہ فنڈ میں کئی سوگنا اضافہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔اکیڈمی کی سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہوا۔مگر ان سرگرمیوں سے اردو کو براہ راست کیا فائدہ پہنچا یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا اکیڈمی کا کام صرف مشاعرے، سمینار، قوالی کرانا ہی کام ہے۔المیہ یہ ہے کہ ان سمینار وں سے کالجوں اوریونیورسٹی کے طلبا کو نہیں جوڑا گیا۔روایتی قسم کے سمینار اور مخصوص لابی کے مقالہ نگار۔اس لئے سمیناروں کے شرکا کی تعداد ہمیشہ معمولی ہوتی ہے مگر ایک ایک سمینار پر لاکھوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں۔

”جشن ساحر“ کے نام پر بھی کروڑو روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔مگر سوال تو باقی رہے گا اس جشن سے اردو کا مستقبل کتنا روشن ہوگا؟ساحر لدھیانی کی مشہور زمانہ نظم جشن غالب آپ کی نذر کرنے سے قبل آخری سوال ہے کہ آج ہماری صفوں میں ساحر جیسا جذبہ رکھتا ہے۔جویہ سوال کرسکے یہ جشن و ہنگامے کے مقاصد کیا ہیں؟

اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامے خدمت ہے کہ سازش ہے
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا برسوں
ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری
جس عہد سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے ؟
یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدہ فردا پر اب ٹل نہیں سکتے ہیں
ممکن ہے کہ کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں
یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے
ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں؟

متعلقہ خبریں

تازہ ترین