Monday, October 7, 2024
homeمجھے ہے حکم آذاںبنگال کی سیاست کب تک مسلم نوجوانوں کے خون سے لہولہان ہوتی...

بنگال کی سیاست کب تک مسلم نوجوانوں کے خون سے لہولہان ہوتی رہے گی

بنگال کی سیاست کب تک مسلم نوجوانوں کے خون سے لہولہان ہوتی رہے گی

نور اللہ جاوید
چند دن قبل مغربی بنگال بی جے پی کے بہت ہی پرانے مسلم لیڈر کا فون آیا، میں نے کہاکہ آپ تو بہت ہی مصروف ہوں گے کہ انتخابی موسم ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیوں؟ یہ انتخاب مسلمانوں کےلئے نہیں ہورہے ہیں ۔یہ تو مسلمان پاگل ہیں کہ وہ ہرجگہ نعرے بازی میں آگے آگے ہیں ۔تین دن قبل کوچ بہار میںمرکزی فورسیس کی فائرنگ اور اس واقعے میںمرنے والے چارافراد کی ہلاکت کے بعد بی جے پی لیڈروں کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گرچہ 2021کے اسمبلی انتخاب میں ترقیاتی موضوع میں مسلمان کہیں پر بھی نہیں ہے مگر مسلمانوں کے نام پر اب بھی پولرائزیشن کی کوشش ہورہی ہے ۔
بنگال کی سیاست سے متعلق جنہیں بھی ذرہ برابر واقفیت ہوگی ان کےلئے یہ سوال کوئی معنی نہیں ہے کہ بنگال میں سیاسی تشدد کےلئے مرنے والوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں ؟۔اس کےلئے سیاسی سے زیادہ معاشی اور تعلیمی پسماندگی کے اسباب کارفرما ہے۔میں نے اس موضوع پر اپنی نئی کتاب’’ بنگال کے مسلمان‘‘(جس کی اشاعت حال ہی میں ہوئی ہے) میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔کوچ بہار میں مرنے والوں کی عمر دیکھیںگے تو سب سے کے سب 40سال کی عمر سے کم کے ہیں ،کسی بھی گھر کےلئے اس سے بڑھ کر کیا حادثہ ہوسکتا ہے کہ اس کے گھر کا نوجوان وارث دنیا سے رخصت ہوگیا ہے ۔مگر کہتے ہیں کہ سیاست داں دل سے زیادہ دماغ سے کام کرتے ہیں اور دماغ میں کسی کےلئے ہمدردی نہیں ہوتی ہے۔ہرایک سیاسی جماعت اس واقعےپر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔روتی بلکتی مائیں ، بہنوں اور بھائی کا دردپس پردہ چلا گیا ہے ۔کوئی بھی ان کے درد اور آنسو کو پوچھنے کو تیار نہیں ہے۔مگر اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔کب تک مسلم نوجوان کے خون کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرتی رہیں گی اور کب تک بنگال کی سیاست مسلمانوں کے خون لہولہان ہوسکتی ہے ۔
افسوس ناک بات تویہ ہے کہ ترنمو ل کانگریس آج یہ دعوی کررہی ہے کہ کوچ بہار میں مرنے والے چار نوجوان ان کی پارٹی کے ہیں اور سیکورٹی فورسیس کےذریعہ قتل کو سازش کے تحت انجام دیا فعل قرار دے رہی ۔مگر یہی ترنمول کانگریس مسلمانوں کو کس نظریہ سے دیکھتی ہے کہ اس کا اندازہ ترنمول کانگریس کے انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور کے حال ہی میںلیک ہونے والی ویڈیو چاٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔پرشانت کشور نے اس لیک آڈیو کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے صرف یہ دعویٰ کیا کہ بی جے پی نے آدھے ادھورے آڈیو کو لیک کیا ہے۔اس لئے جو باتیں منظر عام پر آئی ہیں اس کی صحت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا ہے۔وہ گفتگو میں مسلمانوں سے متعلق بولتےہیں
’’گزشتہ 20سالو ں میں بائیں محاذ، کانگریس اور ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کی خوشامد کی ہے اور یہ بنگال کی سیاست کی سب سے بڑی غلطی ہے‘‘۔

<ظاہر ہے کہ جب ترنمول کانگریس جیسی جماعت سے وابستہ افراد کی یہ سوچ ہے تو پھر بی جے پی جس کی بنیاد مسلم دشمنی پر ہے اگر وہ مسلمانوں کو درانداز اور بدمعاش قرار دے رہی ہے تو اس پر تعجب کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دلیپ گھوش، راہل سنہا اور سیانتن باسو نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندو کیاوہ انسان ہونے کے بھی لایق نہیں ہے۔اگر وہ انسان ہوتے تو شاید کسی کی موت پر اس طرح خوشی کا اظہار نہیں کرتے۔المیہ یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم بھی اپنے لوگوں کے اس طرح کے بیانات پر لگام دینا نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ زبان قال سے نہیں تو زبان حال ایسے لوگوں کی ہمت افزائی ضرورکرتا ہوا نظرآتاہے۔ظاہر ہے کہ جس کے دامن پر بے قصوروں کے خون کے چھینٹے ہوں گے وہ کس منھ سے اپنے ماتحتوں کو اس حرکت سے باز رکھے گا۔>

ظاہر ہے کہ جب ترنمول کانگریس جیسی جماعت سے وابستہ افراد کی یہ سوچ ہے تو پھر بی جے پی جس کی بنیاد مسلم دشمنی پر ہے اگر وہ مسلمانوں کو درانداز اور بدمعاش قرار دے رہی ہے تو اس پر تعجب کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دلیپ گھوش، راہل سنہا اور سیانتن باسو نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندو کیاوہ انسان ہونے کے بھی لایق نہیں ہے۔اگر وہ انسان ہوتے تو شاید کسی کی موت پر اس طرح خوشی کا اظہار نہیں کرتے۔المیہ یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم بھی اپنے لوگوں کے اس طرح کے بیانات پر لگام دینا نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ زبان قال سے نہیں تو زبان حال ایسے لوگوں کی ہمت افزائی ضرورکرتا ہوا نظرآتاہے۔ظاہر ہے کہ جس کے دامن پر بے قصوروں کے خون کے چھینٹے ہوں گے وہ کس منھ سے اپنے ماتحتوں کو اس حرکت سے باز رکھے گا۔
پرشانت کشور کا یہ جملہ ان کی زمینی حقائق عدم معلومات کو ظاہر کرتا ہے ۔2006میں سچر کمیٹی نے کہا کہ بنگال کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔سرکاری ملازمت میں شرح نمائندگی 2فیصد سے بھی کم ہے۔2016میں غیر سرکاری تنظیم پراتیچی اور اسنیپ کی مشترکہ رپورٹ ’’لیونگ رئیلیٹی ویسٹ بنگال مسلم ‘‘ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی حالت میں گزشتہ دس سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔خود نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی وزارت اقلیتی امور کے ذریعہ پروفیسر امیتابھ کندو کی قیادت والی کمیٹی نے ان حقائق کی طرف نشاندہی کی ہے۔ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی خوشامد کہاں کی گئی ہے۔اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی بدولت ہی ممتا بنرجی 2011میں اسمبلی انتخابات،2014میں لوک سبھا انتخابات ، 2016میں اسمبلی انتخابات اور 2019کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پرشانت کشور کی انتخابی حکمت عملی کار کا ہی نتیجہ ہے کہ 2021کے اسمبلی انتخابات میں اقلیت، دلت اور پسماندہ طبقات کی ترقی کا ایشوپس پردہ چلا گیا ہے ۔دلت اور قبائلی سے متعلق بات بھی کی جارہی ہے مگراس انتخاب میں مسلمانوں کے مسائل غایب ہیں۔پرشانت کشور اورا ن کی ٹیم کے ذریعہ مرتب کی گئی ترنمول کانگریس کے انتخابی منشور سے اقلیتوں کے مسائل غایب ہیں ۔64صفحاتی ان منشور میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔بلکہ صرف دو مقامات پر اقلیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔اسی طرح جنوری میں پارٹی نے جب رپورٹ کارڈ جاری کیا تو اس میں اقلیتوں سے کئے گئے حکومت کے کاموں کا کوئی ذکر نہیں تھج۔
سوال یہ نہیں ہے کہ یہ ترنمول کانگریس کی حکمت عملی کے پیچھے مقاصد کیا چھپے ہوئے ہیں ؟سوال یہ ہے کہ 27فیصد مسلم آبادی والے اس ریاست میں مسلمانوں کی ترقی اور مسائل کو حل کرنے کےلئے بات کرنا جرم کیوں بنتا جار ہا۔کیا مسلمانوں کو کنارہ لگانے اور ملیچھ بنانے کے آر ایس ایس کے مقاصد اور اس کے بیانہ کی یہ جیت تو نہیں ہورہی ہے ۔
حیرت انگیز بات ہے کہ 2019کے بعد سے ہی بنگال میں این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ پر زور دار مہم چلانے والی ترنمول کانگریس انتخابی موسم میں اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کرلی ہے ۔دوسری طرف بی جے پی ہے شہریت ترمیمی ایکٹ پر بات کررہی ہے اور اب تو این آر سی لانے کا اشارہ بھی دیا جارہا ہے ۔کانگریس اور بائیں محاذ کے انتخابی منشور بھی اقلیتوں کی ترقی کےلئے کوئی خاص روڈ میپ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔سیاسی جماعتوں کو یہ خوف ستانے لگا ہے کہ اگر مسلمانوں سے متعلق بات کی جائے گی تو ہندو ووٹ ان سے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ایک طرف سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں مسلم ووٹ تو چاہیے مگر وہ مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنا نہیں چاہتی ہیں اور دوسری طرف خود مسلمان ہیں جنہیں اس صورت حال سے کوئی فرق پڑتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔مسلم محلوں میں لگے بینر ، سیاسی لیڈروں کے جلوس میںبڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی شرکت یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان فکری محاذ پر پسماندگی ہی نہیں بلکہ یتیم ہوچکی ہیے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی تشدد کی قربان گاہ پر مسلم نوجوان کی جان کو پیش کیاجاتا ہے۔مسلم محلوں میں سیاسی جماعتوں کی ہونے والی تقاریر سننے کے بعد تو کوئی بھی عقل مند ماتم کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتا ہے۔یہ باورکرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نعوذ باللہ مسلمانوں کا وجود کسی خاص سیاسی جماعت کی مرہون منت ہے۔اگر یہ پارٹی ہارگئی تو یہ مسلمانوں کی شکست ہوگی۔اس پراستغفار پڑھنے کے علاوہ کیا کیا جاسکتاہے۔اقبال نے اسی موقع کےلئے کہا تھاکہ
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

متعلقہ خبریں

تازہ ترین