بنگا ل کی سب سے بڑی مسجد”آدینہ مسجد“ اب بی جے پی کے نشانے پر
مالدہ ضلع کے پانڈوا میں بنگال سلطنت کے دور میں تعمیر مسجد کو مندر ثابت کرنے کیلئے بی جے پی اوروشوہندو پریشد نے مہم کی شروعات کی
مالدہ: انصاف نیوز آن لایین
مالدہ ضلع کے پانڈو ا میں واقع تاریخی ”آدینہ مسجد“ کو لے کر بی جے پی نے ایک نیا تنازع شروع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کرکے تعمیر کیا گیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اتوار کو بی جے پی لیڈر رتیندر باسو، مقامی ممبر اسمبلی چن موئے دیو برمن اور کچھ دیگر بی جے پی لیڈروں نے مسجد کا دورہ کیا۔ اس کے بعد رتیندرا بوس نے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر پوسٹ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر لگے پتھر کے نقش و نگارسے واضح ہے کہ یہ مسجد آدیناتھ مندر کو منہدم کرکے تعمیر کیا گیا ہے۔
آدینہ مسجد مغربی بنگال کی سب سے بڑی مسجد ہے جو مالدہ ضلع کے گزول تھانے کے پانڈومیں واقع ہے۔آدینہ مسجد مالدہ ضلع کے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔مختلف مذاہب کے لوگ یہاں آتے ہیں۔مگر اب بی جے پی قیادت نے مسجد کو لے کرایک نئے تنازع کو جنم دیدیا ہے۔ رتیندرا بوس نے مسجد کا دورہ کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ آدینہ مسجد کے فرش کے نیچے آدیناتھ مندر موجود ہے۔ جیتو سردار نے اس مندر کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ تاریخ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ وہ انگریزوں اور مسلم حکمرانوں سے مندر کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو ئے تھے۔ جب میں نے کل مقامی ممبر اسمبلی شری چنموئے دیو برمن کے ساتھ آدینہ کے متنازع مقام کا دورہ کیاتو مجھے اس کے ثبوت مل گئے ہیں۔
یہ مسجد بنگال سلطنت کے الیاس شاہی خاندان کے دوسرے سلطان سکندر شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔یہ مسجد تاریخی شہر پانڈوا میں واقع ہے، جو بنگال سلطنت کا سابق دارالحکومت تھا۔ پانڈوا سلطنت کے دور میں ایک ترقی پذتیر اور کاسموپولیٹن تجارتی مرکز تھا۔دینا (فارسی میں جمعہ) مسجد پورے برصغیر کی سب سے بڑی مسجد تھی جب یہ 1374 میں مکمل ہوئی تھی۔ بادشاہ الیاس شاہ کا بیٹا سکندر شاہ تھا۔ 1342 میں، الیاس نے دہلی سلطنت سے آزادی کا اعلان کرنے کے بعد آزاد بنگال سلطنت (1342-1538) کے پہلے حکمران بنے۔ باپ بیٹے نے دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق کی 1353 اور 1359 میں بنگال کو ضم کرنے کی فوجی مہمات کے خلاف کامیابی سے مزاحمت کی۔ امریکی مؤرخ رچرڈ ایٹن کے مطابق، سکندر نے اپنی بادشاہی کا کامیابی سے دفاع کرنے کے بعد بڑی ایک یادگار تعمیر کرکے اپنی طاقت کامظاہرہ کیا۔ایک جرمن مستشرق اور کلکتہ مدرسہ کے پرنسپل، ہنری فرڈینینڈ بلوچمین نے اپنی 1873 کی کتاب، Contributions to the Geography and History of Bengal میں بھی اس حقیقت کے طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مسجد کی بیرونی دیوار کے چند حصوں میں ہاتھیوں اور رقص کی شکلوں کی طرح نقش و نگار ہیں۔ مورخین نے اس سے متعلق لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ معماروں نے قبل از اسلام بنائے گئے پتھروں کا استعمال کیا ہے یا مسجد پہلے سے موجود کھنڈر کی جگہ پر بنائی گئی ہے۔ مسجد پر لکھی تحریروں میں سکندر شاہ کو ”بلند سلطان” اور ”وفاداروں کا خلیفہ” قرار دیا گیا ہے۔ سلطان کو مکہ کی سمت دیوار کے ساتھ منسلک ایک مقبرے میں دفن کیا گیا تھا۔