Saturday, July 27, 2024
homeمجھے ہے حکم آذاںبنگال میں ثقافتی بالادستی اور مسلمان

بنگال میں ثقافتی بالادستی اور مسلمان

نوراللہ جاوید
مغربی بنگال ہندوستان کا وہ صوبہ ہے جہاں کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔ریاست میں مسلم آبادی کی شرح 30فیصد کے قریب ہے۔چناں چہ ایک ایسے وقت میں جب پورے ملک میں دائیں بازو کے نظریات کی حامل بی جے پی کی کامیابیاں حاصل کررہی ہیں وہیںبی جے پی کا بنگال میں اقتدار تک پہنچنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔یقینا بنگال کا مزاج شمالی ہندوستان اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح فرقہ وارانہ نہیں ہے۔انتہاپسندی اور شدت پر مبنی بیانات بنگالی معاشرہ کےلئےقابل قبول نہیں ہے تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بنگالی معاشرہ تعصب سے پاک اور مسلمانوں کے تئیں دل صاف رکھتا ہے۔اگر حقائق و اعداد شمار کی روشنی میں بنگالی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو مسلم تہذیب و تمدن اور برہمن واد پرمبنی تہذیب و تمدن کے درمیان ہمیشہ سے بالادستی کی جنگ رہی ہے۔بنگال میں اسلام کی ترویج واشاعت میں ایک بڑاہم کردار عرب ممالک سے آنے والے صوفیائے کرام کرام کا رہا ہے۔15ویں صدی میں بڑی تعداد میں صوفیائے کرام بنگال کے مختلف علاقوں میں فروکش ہوئے ۔چوں کہ بنگالی معاشرہ طبقاتی نظام کی وجہ سے ظلم و زیادتی اور سماجی جبر کا شکار تھا۔بنگال کی معیشت پر ایک مخصوص طبقہ قابض تھا ۔تعلیم حاصل کرنے کا حق عام ہندئوں کو بھی نہیں تھا ۔ودیا ساگر جنہیں بنگالی معاشرہ کا مصلح کہا جاتا نے بنگالی معاشرہ سے ذات پات کی تفریق ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی مگر وہ اپنے کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے برہمنوں کے علاوہ صرف کائستھ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو داخلہ کی اجازت دلاسکے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کا بنگالی معاشرہ کس قدر سماجی تفریق اور طبقاتی نظام سے تعفن زدہ تھا۔ان حالات میں صوفیائے کرام نے اپنے دروازے ہر خاص و عام کےلئے کھول دیا۔ان کے یہاں کوئی بھی سماجی تفریق نہیں تھی ۔کوئی بھی آسکتا تھا اور تعلیم حاصل کرسکتا تھا۔اس کی وجہ سے جہاں بڑی تعداد میں پسماندہ طبقات نے اسلام کے دامن میں پناہ لی اور اسلام قبول کیا ۔اس کے ردعمل میں ہندئوں میں بھی کئی تحریک شروع ہوئی تاکہ ہندئوں میں تبدیلی مذہب کو روکا جاسکے۔بھگتی تحریک بھی دراصل ہندئوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کی تحریک تھی ۔مگر ان صوفیائے کرام کا مشرب صلح کل تھا۔نہی عن المنکر کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں تھی ۔اس کا نقصان یہ ہواکہ اس دور میں مسلمانوں اور ہندئوں کے سماجی ملاپ کی وجہ سے مسلم معاشرہ بھی ہندئوں معاشرہ کی غلط رسوم و رواج اور بدعقیدگی کا شکار ہوگیا۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ 17اور 18ویں صدی میں بنگال کے مسلم معاشرے میںہندو معاشرے کی تمام خرابیاں آگئیں۔سماجی طور پر دونوں معاشرے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات کی مصنفہ ناعمہ صہیب اس وقت کے معاشرہ کی عکاسی اس طرح کرتی ہیں:
مسلمانوں کے اخلاقی و دینی حالات بھی سخت دگر گوں تھے۔عقیدہ توحید کی جگہ شرک نے لے لی تھی۔قبروں کے مردے پوجے جانے لگے تھے۔بدعتوں کا سیلاب تھا جو امڈآیا تھااور اس نے دین کا حلیہ بگاڑکر رکھ دیا تھا۔اسلامی شعار کی پاسداری اچھے اور شریف مسلم گھرانوں سے بھی اٹھتی جارہی تھی۔بیوہ سے نکاح میرات میں لڑکیوں کا حصہ ، مسنون سلام کو ہندووانہ اثرات کی وجہ سے معیوب سمجھا جانے لگا تھا۔حج جیسے اسلام کے رکن کی فرضیت کو ساقط قراردینے کےلئے راستے کی مصیبتوں کا بہانہ بنایا جانے لگاتھا۔افیون، شراب اور پیشہ ور عورتوں سے تعلق مسلمان مردوں کی کمزوریاں بن چکے تھے۔اس مذہبی و اخلاقی زوال کی وجہ سے ہندوستان آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔لیکن باہمی کشمکش ،اخلاقی کمزوری اور کم ہمتی و بے غیرتی نے مسلمانوں سے اس صورت حال کا تدارک نہ کراسکی۔
(تاریخ کی عظیم شخصیات:سید احمد شہید:صفحہ 62)
1757میں نواب سراج الدولہ کی شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے زمام اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ناٹھارہویں صدی کے آغاز میں انگریزوں نے ایک ظالمانہ قانون (Permanent Settlement Act 1793)منظور کرکے غریب کسانوں کی زمینوں پر بڑے جاگیرداروں کو مستقل قبضہ دلادیا تھا۔کسانوں میں اکثریت مسلمانوں کی اور زمین داروں میں اکثریت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تھی۔ اعلیٰ ذات کے ہندوزمینداروں کے ظلم و تشدد کا شکار تو ایسے تو تمام کسان تھے جس میں مسلمان بھی تھے اور ہندئوں کے پسماندہ طبقات بھی تھے۔تاہم مسلم کسان ان کے ظلم کے شکار زیادہ تھے۔ان زمینداروں نے داڑھی رکھنے پر بھی ٹیکس نافذ کردیا تھا۔مسجد جانےپر ٹیکس لیا جاتا تھا۔ان حالات میں بنگال میں فرائضی تحریک، طریقہ محمدی (تیتومےر)اور شہیدین تحریک برپا ہوئی اور ان تحریکوں نے جہاں انگریزی استبداد اور ظلم و جبر کے خلاف مقابلہ کیا وہیں ان تحریکوں میں مسلم معاشرہ کی اصلاح اور بدعقیدگی کے خاتمے میں اہم کردار ادکیا۔ان تمام تحریکو ں کے روح رواں سید احمد شہید ؒ تھے۔تحریک فرائضی کے قائد حاجی شریعت اللہ، طریقہ محمدی کے بانی تیتو میر اور تحریک شہیدین سے وابستگان سب کے سب حضرت سید احمد شہید ؒ کے فیض یافتہ اور اس کاروان عزیمت کے خوشہ چیں تھے۔یہی وجہ ہے کہ انگریز مورخین اور ہندوستانی مورخین نے ان تحریکوں کی شبیہ بگاڑنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔سید احمد شہید ؒ کاسفر حج ایک خاص پس منظر میں شروع ہواتھا مگر یہ قافلہ جن جن علاقوں سے گزرا وہاں ایمان و یقین کی حرارت وتپش ایسا پیدا کی کہ مسلم معاشرہ میں انقلاب آگیا۔سید احمد شہید ؒ نے سفر حج کا آغاز دریائے گنگا سے کیا تھا جوکلکتہ میںآکر پہلی منزل طے کی اور یہاں سے بذریعہ پانی جہاز مکہ مکرمہ کیلیے روانہ ہویے۔ ان کا قافلہ مالدہ، ہگلی ہوتے ہویےجب کلکتہ پہنچا تھا مرجع خلائق بن چکا تھا۔سید ؒ صاحب بنگال اور آسام کے مسلم معاشرہ کے حالات سے رنجیدہ تھے۔جب تک قیام رہابدعت و شرک کے خلاف تلقین کرتے رہے اورکلکتہ سے جب عرب کےلئے روانہ ہونے لگے تو اپنے تربیت یافتہ افراد کی یہ ذمہ داری سونپ دی۔
گمان آباد ہستی میں یقین مرد مسلمانی
بیان باں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
سید احمد شہید ؒ کے خلیفہ حضرت وارث علی بنگالی کے صاحب زادے صوفی فتح علی ویسی فارسی زبان و ادب اور علوم اسلامیہ کے مشہور عالم تھے ۔ان کے والد مشرقی بنگال کے چاٹگام (موجودہ بنگلہ دیش)سے آکر سید احمد شہید ؒ سے کلکتہ میں ملاقات کی بیعت ہونے کے بعدیہیں مقیم ہوگیےفتح علی ویسی نے ان ماحول میں تعلیم وتربیت حاصل کی- کلکتہ کے مانک تلہ میں فتح علی ویسی کی قبر ہے-والد کے بعدفتح علی ویسی کلکتہ میں تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔ان کے ہی خلیفہ سیدابوبکر صدیق فرفرہ شریف ہیں۔سید ابوبکر صدیقؒکے آباو اجداد کا تعلق عرب ممالک سے تجارت و تبلیغ سے آنے والاخاندان سے ہے-انہوں نے مکہ مکرمہ جاکر علم حدیث کی تعلیم حاصل کی تھی نے بنگال کے غریب کسان جو عام طور پر دین سے بہت دور تھے میں اصلاح و ارشاد کا اہم کارنامہ انجام دیا۔مگر ستم ظریفی ہے کہ انہوں نے جن بدعات و خرافات کے خلاف تحریک چلائی آج و ہ ان سب کے خانوادے میں در آئی ہے۔تاہم آج بھی فرفرہ شریف میں پیر ابوبکر صدیق کے قبر پر چادر پوشی اور چراغاں نہیں کیا جاتا ہے اور عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
مسلم شناخت کے حوالے سے بنگال میں ہمیشہ ایسی جماعت اور تحریک رونماہوتی رہی ہے جو مسلم معاشرہ کی مذہبی شناخت کی حفاظت کےلئے کوشاں رہی ہے اور خرافات کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہے۔تاہم حالیہ برسوں میں ہندوستان کی سیاست نےجس طریقے رخ تبدیل کیا ہےاور ہندوستان کی سیاست پر ہندو انتہا پسند جماعتیں حاوی ہوئیں ہیں اس کے اثرات نہ صرف سیاست پر بھی ہوا ہے ۔بلکہ زندگی کے تمام شعبے اس سے متاثر ہوا ہے۔ہندو دائیں بازوکی طاقتوں کے مطمح نظر صرف اقتدار نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے قلب و نظر کی تبدیلی ہے۔دائیں بازوں کی جماعتیںملک کے تمام شعبے اور تمام طبقات ایک خاص مزاج اور نظریہ کے رنگ میں رنگنے کیلیے مسلسل کوشاںہے۔ اس کےلئے ہرطرح کے حربے آزمائے جارہے ہیں۔اس کے رد عمل میں ہندوستانی سیاست میں جو آوازیں بلند ہورہی ہیں وہ بھی انہی کے راستے پر چل ان کو شکست دینے میںیقین رکھتی ہے۔سخت ہندتو کے مقابلے نرم ہندتو کو پیش کیا جارہاہے-ظاہر ہے کہ یہ مسابقت کا شکار سب سے زیادہ اقلیت بالخصوص مسلمان ہیں۔مسلمانوں کے پاس 14سو سالہ تہذیب و ثقافت اور اپنی مذہبی شناخت ہے جو خالص توحید پر مبنی ہے۔اس سے ذرہ برابر رو گردانی اسلام سے انحراف ہے ۔
بنگال کے سیاسی منظر نامہ میں بھی بی جے پی ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔دائیں بازوں کی جماعتوں کا دائرہ کار بنگال بھر میں پھیل چکا ہے۔محض ایک دہائی تک بنگال کے محض چند اضلاع اور چند مقامات تک محدود رہنے والی آر ایس ایس آج گائو ں گائوں کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔اس کے جواب میں ترنمول کانگریس جو ریاست میں گزشتہ دس سالو ں سے اقتدار میں ہے نے جوطریقہ کار اور پالیسی اختیار کی ہےوہ مسلمانوںکے لئے آر ایس ایس کی پالیسیوں اورا ن کی مہم سے کم نقصان دہ نہیں ہے۔بلکہ المیہ ہے کہ اس خطرات کا احساس بھی مسلم معاشرہ کو بھی نہیں ہورہا ہے۔ترنمول کانگریس اور ممتا بنرجی کو پختہ احساس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔اس لئے ان کی پوری توجہ ہندئوں کے اعتماد کو جیتنے تک محدود ہے۔اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سوان ان کے طریقے کار کا ہے اور اس کے اثرات کا ہے؟۔گزشتہ سالوں میں ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے وہ ہندو مخالف ہیں،بنگال میں درگا پوجا کی اجازت نہیں ہے۔مسلمانوں کو قانون شکنی کی مکمل اجازت ہے۔ممتا بنرجی کی تمام پالیسیاں صرف مسلمانوں تک محدود ہے۔ظاہر ہے کہ دائیں بازوں کے تمام پروپیگنڈوں کی طرح اس پروپیگنڈہ کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے۔سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔تاہم اس تاثرات کے ازالے کے خاتمے کےلئے جو تدبیریں اختیار کی گئی ہے وہ قابل غور ہے۔وہ تدبیر ہندو تہذیب وتمدن کی بالادستی ہے۔معاملہ صرف اس حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس رنگ میں مسلمان بھی رنگتے جارہے ہیں۔حکمراں جماعت کے مسلم لیڈران بھی اس تہذیب و تمدن کواختیار کررہے ہیں۔ؔؔؔظاہر ہے کہ لیڈران سماج و معاشرہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ بڑاطبقہ ان کے پیرو کار ہے۔وہ اس کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے خلاف مسلم علما کے درمیان سے آواز بلند نہیں ہورہی ہے۔بی جے پی کا خوف اس طرح ہے کہ مسلم معاشرہ میں در آنے والی برائیوں اور بدعقیدگی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود علماخاموش ہیں۔جب کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب ہرطرف مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا لاکھوں افراد نقل مکانی کررہے تھے اور شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے تئیں عام آبادی میں شدید قسم کی نفرت اور بیزاری تھی۔اس کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید مایوسی اور بیزاری کی کیفیت پیدا ہوگئی اور مسلمانوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔مستقبل کے امکانات دو ر تک نظر نہیں آرہے تھے۔گرچہ کانگریس میں پنڈت نہرواور آزاد تھے مگر کانگریس میں سردار ولبھ بھائی پٹیل اور شمالی ہند کے بیشتر کانگریسی قائدین کے دل ودماغ فراقہ واریت کے زہراور مسلمانوں کے تئیں بیزاری اور نفرت سے آلودہ ہوچکے تھے۔ان حالات میں 1947کے دسمبر کے چوتھے ہفتے میں لکھنو میں مسلمانوں کا عظیم کنونشن منعقد ہوا جسے آزاد ہندوستان کا پہلی مسلم کنونشن کہا جاتا ہے۔اس کنونشن کے قائدین میں مولانا آزاد ؒ، سید محمودؒ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ شامل تھے۔اس کنونشن میں مسلم قائدین کی تقریروں نے مسلمانوں کا حوصلہ و ہمت بخشنے میں اہم کردار اداکیا۔اس موقع پر مولانا آزاد نے اپنے خطاب میں جہاں ہندوستانی مسلمانوں کو مشترکہ سیاسی جہدو جہد اور ہندوستان میں عدل و انصاف کے قیام کےلئے کوشش کرنے تلقین وہیں مولانا آزاد نے ایک محب وطن شہری اور ایک مسلمان ہونے کے تقاضے کو بیان کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے مستقبل کا منشورپیش کیا ۔مولانا آزاد نے کہا تھا کہ
’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں ‘ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں‘ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم وفنون ‘ اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں‘ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں‘ اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے‘ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں‘ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی‘ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے‘ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں‘ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ‘ میں اس کی تکوین کاایک ناگزیر عامل ہوں‘ میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔
مشہور دانشور اور سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر رفیق زکریانے اپنی کتاب ’’سردار پٹیل اور ہندوستانی مسلمان‘‘میں لکھا ہے کہ’’ لکھنو کنونشن میں مولانا آزاد اور دیگر مسلم لیڈروں کی تقاریر سے سردار بہت دکھی تھے اورانہوں نے اس کنونشن کے بعد بہت ہی سخت بیا ن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ لکھنو کنونشن سے علاحدگی پسندگی کی بو آرہی ہے‘‘۔ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب میں گرچہ سردار پٹیل کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سردار پٹیل کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے نفرت بھری ہوئی تھی ۔وہ مسلمانوں کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔جیساکہ ڈاکٹر عمر خالدی نے اپنی کتاب Muslims in Indian Economy میں لکھا ہے کہ سردار آزاد ہندوستان میں رہنے جانے والے مسلم بیورو کریٹ سے کہتے تھے وہ ہمارے محکمہ میں کیا کررہے ہیں ۔مولانا آزاد کے وزارت تعلیم میں جائیں ۔وہاں ایک چھوٹا سا پاکستان ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے میں سردار واحد ایسے لیڈر تھے بلکہ نہرو کے کابینہ میں کئی ایسے سینئر وزرا تھے جن کا دل مسلمانوں کے تئیں صاف نہیں تھا اور وہ مابعد تقسیم ہندوستان میں ہندو تہذیب و ثقافت کی بالادستی کا خواب پا ل رکھا تھا۔ان حالات میں مولانا آزاد ؒ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اسی موقف پر قائم رہے کہ ایک محب وطن شہری ہونے کے باوجود مسلمان ہوں اور گزشتہ تیرہ سو برسوں کی جو شاندارروایتیں جومسلمانوںکے حصے میں آئی ہیں اس کے چھوٹے سے حصے سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں ۔ہندوستان کی آزادی کے سات دہائیوں میں کئی ایسے مواقع آئے جس میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور تہذیب و ثقافت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہندوستانی مسلمانوںکا سواد اعظم اس موقف پر قائم ہی نہیں بلکہ اس کے قیام اور بقا کےلئے جدو جہد کرتا رہا۔جب جب مسلمانوں کی شناخت پر حملے کی کوشش کی گئی اورمسلمانوں کو تہذیبی و ثقافتی طورپر مغلوب کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمانوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی ۔1967میں اسی لکھنو میں ڈاکٹر سید محمود ؒجو پہلے کانفرنس میں بھی موجودتھے کی ایما پر ایک کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔اسی کنونشن میں مسلم مجلس مشارورت کا قیام عمل میں آیا جو ہندوستانی مسلمانوں کی مشترکہ جماعت تھی ۔اس کانفرنس کی صدارت ڈاکٹر سید محمود نے کی تھی۔اس کانفرنس نے مسلمانوں کا سیاسی لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ
’ مسلمان اپنا ایک مذہبی و تہذیبی تشخص رکھتے ہیں اور اس کی حفاطت کے لیے وہ جدوجہد کریں گے‘
کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ
‘ہم نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہےاور جب میں آپ کے سامنے یہ الفاظ کہتا ہوں تو میرا ضمیر خود میرے دل میں چٹکی لیتا ہے اور کہتا ہے کہ رہنے کا فیصلہ کیا معنی ، ہم یہاں پیدا ہوئے اور یہاں ہیں، ہماری موجودگی قائم و استوار ہمالیہ اور رواں دواں گنگا سے زیادہ حقیقی اور پائیدار ہے۔ ہماری عمر اس تاج محل اور قطب مینار سے زیادہ بڑی ہے اور ہمارا حق اس سےز یادہ ثابت ہے جتنا ان قابل فخر یادگاروں کا جن کو ہماری ہی صلاحیتوں نے وجود بخشا۔ ہم یہاں کے ہر مسئلے کو حل کریں گے۔ ہم یہاں کی قومیت، یہاں کی ثقافت اور یہاں کے تمدن میں اس طرح پیوست ہیں کہ ہم کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ہم حکومت سے ہزار بار شکایت کریں گے۔ہم ہزار روٹھیں گے اور منیں گے۔ہم ہر ہندوستانی کا گریبان پکڑ سکتے ہیں اور اسی طرح دوسرے کو بھی یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ہمارا گریبان تھامے اور ہم کو ہماری غلطی پر ٹوکے۔لیکن بہر حال ہم کو اسی ملک میں رہنا ہےاور تمام خصوصیات اور تشخصات کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم اس ملک کو تباہی، فرقہ پرستی اور فسطائیت کے راستے پر کبھی نہیں دیکھ سکتےہیں۔
مشترکہ سیاسی مقاصد کی تکمیل اور مذہبی شناخت کی حفاظت کےلئے جدو جہد کا اعلان کرنے کے بعد 70کی دہائی میں پرسنل لا کی حفاظت کےلئے ہندوستانی مسلمانوں نے ایک اور مشترکہ پلیٹ فارم ’’مسلم پرسنل لا ‘‘ کا قائم کیا۔جس کا مقصدپرسنل لا کی حفاظت تھی ۔ہندوستان کے دستور کے مختلف آرٹیکل بالخصوص آرٹیکل 19سے 24تک میں ملک کے ہر مذہبی اکائی کو اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ۔مگر ڈاکٹر امبیڈکر نے دستور کے ہدایتی دفعات میں دفعہ 44کو شامل کیا ۔جس میں ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کےلئے کوشش کرنے کی ہدایت دی تھی۔تاہم انہوں نے اس وقت اس خوش فہمی کا اظہار کیا تھا کہ کوئی بھی حکومت اقلیتوں کو ناراضگی مول لے کر یکساں سول کوڈکے نفاذ کی کوشش نہیں کرےگی۔ظاہر ہے کہ یہ ڈاکٹر امبیڈکر کی خوش فہمی ہی تھی۔آج ہندوستانی جمہوریت اکثریت نواز ہوگئی ہے جہاں اقلیتوں کے جذبات و احساسات اور ان کے دستوری حقوق کو کچلنا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔حالات کی تمام تر ستم ظریفیوں کے باوجودمسلم پرسنل لا بورڈ ہو یا پھر کوئی بھی دیگر مسلم تنظیمیں اس میں کسی بھی جماعت کی تشخیص نہیں ہے اپنی مذہبی شناخت اور تہذیبی بالادستی کو قائم کرنے کےلئے سرگرم عمل ہے۔گزشتہ مہینے ہی کرناٹک کے اسکولوں و کالجوںمسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے کی جو کوشش کی گئی اور اس کے رد عمل میں مسلم خواتین نے جس اتحاد و اتفاق اور جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ثناخت کی حفاظت کےلئے مسلم امہ کے صرف مرد حضرات ہی نہیںبلکہ خواتین اسلام بھی نہ با شعور ہے بلکہ اس کےلئے جدو جہد کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتی ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ بنگال کے تناظر میں مسلم شناخت کی حفاظت اور مسلم تہذیب و تمدن کی حفاظت کےلئے آواز بلند کیوں نہیں ہورہی ہے؟۔اگر مرکزی حکومت تمام تعلیمی اداروں میں سوریہ نمسکار کافرمان جاری کرتی ہے کہ ہندوستان بھر کی مسلم تنظیمیںاور جماعتیں اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے مگر وہی بنگال کے تمام تعلیمی ادارے جو حکومت کے زیر انتظام یا پھر امداد یافتہ میں سرسوتی پوجا کے انعقاد کا نوٹی فیکشن جاری کیا جاتا ہے تواس کے خلاف بنگال کی مسلم جماعتیوں اور لیڈروں کے جانب سے ایک بھر حرف شکایت بلند نہیں کی جاتی ہے۔بنگال کی حکومت نے ’’بنگال میں درگا پوجا‘‘ کو یونیسکو کی جانب سے منظوری ملنے پر یکم ستمبر کو حکومت کے خرچ پر ایک جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس میں لکشمی بھنڈار جو حکومت کی فلاحی اسکیمیں ہیںسے فائدہ حاصل کرنے والی تمام خواتین کو سنگھ کو شامل ہونے اور اس میں سنگھ بجانے کی ہدایت دی گئی ہے۔بعد میں کہا گیا کہ مسلم خواتین دعا مانگیں گی۔ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی سیکولرحکومت کا کردار نہیں ہوسکتا ہے۔حکمراں جماعت نے سماجی ہم آہنگی کےلئے اجتماعی راکھی بندھن کا تہوار منانے کی ہدایت دی تھی تو حکمراں جماعت کے مسلم لیڈروں نے مسلم محلوں میں اجتماعی راکھی بندھن کا اہتمام کیا۔اس میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں نے شرکت کی۔جب کہ یہ خالص غیراسلامی تہوار ہے۔اسی طرح حکمراں جماعت کی ہدایت پر مسلم محلوں میں ہندو احیائے پسند لیڈر سوامی وی ویکانند کے یوم پیدائش پر پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔اسی طرح نیتاجی سبھاش چندر بوس کی یوم پیدائش پر مسلم محلوں میں پروگرام کاانعقاد کیا گیا۔نیتاجی سبھاش چندر بوس مجاہد آزادی اور ایک سیکولر نظریات کے حامل شخصیت ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آخر مسلم مجاہدین آزادی کے یوم پیدائش کو کیوں فراموش کردیا جاتا ہے۔جب کہ مولانا آزاد ہندوستان کے اولین معماروں میں سے ایک ہیں کا تعلق بھی کلکتہ سے ہے۔رام نومی اور ہنومان جینتی کے جلوس میں مسلم نوجوانوں کی شرکت کی ۔سرسوتی پوجاکے اہتمام میں مسلم طلبا کی شرکت اور یکجہتی اور ہم آہنگی کے نام پر مسلم لیڈروں کی ہندئوں کے تہواروں میں نہ صرف شرکت بلکہ ان کے رنگ میں رنگنے کا مزاج انتہائی خطرنا ک ہے۔حکومت کی فلاحی اسکیموں کے نام بھی سنسکرتی تہذیب و تمدن کی نمایندگی کرتی ہین-
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور معاشرے کو شرک و بدعت کے امتزاج سے بچانے کےلئے تدابیر کا اختیار کیا جائے مگر یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اس وقت وطن عزیز انتہائی نازک موڑ سے گزررہا ہے۔مسلمانوں کی ہرایک تحریک کو غلط مفہوم و معانی کا جامہ پہنادیا جاتا ہے۔اس لئے ہمیں اس کے خلاف آواز بھی بلند کرنے ہی مگراحتیاط اور حکمت پیش نظر رہنی چاہیے ۔ادعو الی سبیل اللہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنہ
اے دید ہ بیناپھر دل کو مصفا کرو
اس لوح پہ شایدمابین من و تونیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمین ہے
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرما کوئی اترے-

متعلقہ خبریں

تازہ ترین