Saturday, July 27, 2024
homeبنگالرام پور ہاٹ میں درندگی اور بہمیت کیوں اور کیسے؟

رام پور ہاٹ میں درندگی اور بہمیت کیوں اور کیسے؟

ایک تحقیقی رپورٹ
تحریر : عبد العزیز
بیر بھوم مغربی بنگال کا ایک ضلع ہے۔ رام پور ہاٹ بیر بھوم ضلع کا ایک شہر ہے۔ اس کے قریبی بگٹئی ایک گاو¿ں ہے جہاں21مارچ کو ایک ایسا درد ناک ، خوفناک اور وحشت ناک واقعہ پیش رونما ہوا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بگٹئی گاو¿ں کلکتہ سے تقریبا ڈھائی سو کیلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ یہاں مسلمانوں کی 35فیصد آبادی ہے۔21فروری کو بگٹئی کے اُپ پردھان بھادو شیخ کو قتل کر دیا گیا۔ شیخ ترنمول کانگریس کا اہم کارکن تھا اور غیر قانونی طریقے سے کاروبار کرتا تھا، اس علاقے میں بالو، کوئلہ اور پتھر کا کاروبار وہی لوگ کرتے تھے جن کا حکمراں جماعت سے تعلق ہوتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں پہلے بہت ہی معمولی درجے کا آدمی تھا لیکن آہستہ آہستہ کروڑوں کا مالک بن گیا ایک سال پہلے اس کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔21مارچ کو اسے قتل کیا گیا اس کے ساتھ اس کے ہالی موالی ہر وقت دس بیس رہا کرتے تھے جب اسے قتل کیا گیا تو اس کے حواریوں نے جوشِ انتقام اس قدر آگئے کہ قریب کے ایک محلے پر دھاوا بول دیا۔ دس بارہ گھر نذرِ آتش کر دیا۔محلے کے مرد گھر چھوڑ چھوڑ کر خوف سے پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ مہیلال شیخ بھی بھاگ گئے تھے لیکن اپنے گھر کی عورتوں اور چھ سات سال کی ایک اور بچی ایک مرد کو گھر میں چھوڑکر باہر سے تالا لگا کر یہ سمجھ کر چلے گئے تھے کہ جب دشمنوں کا گروہ آئے گا تو تالا دیکھ کر چلا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بھادو شیخ کے شر پسند عناصر نے تالا توڑ کر سب کو پیٹ پیٹ کر مارا اور جلا دیا۔ ایک بچی جو سات سال کی تھی پانچ کلاس میں پڑھتی تھی اسے بھی دشمنوں نے نہیں چھوڑا۔ جب وہ لوگ بچی کو جلا رہے تھے تو ماں اسے بچانے کی کوشش کر رہی تھی اسے جب جلایا جا رہا تھا پھر بھی بچے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔ دونوں لاش جب باہر کی گئی تو دیکھا گیا ماں کا دونوں ہاتھ بچے کی پیٹھ پر ہے اور وہ بچاتے رہے دم توڑ دیا، بچی بھی جاں بحق ہو گئی تھی۔ قریب کے ایک گھر میں ایک مرد چھپا ہوا تھا اسے بھی ظالموں نے جلا کر مار ڈالا۔ تین خواتین میں جان باقی تھی انہیں کسی طرح رام پور ہاٹ اسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا۔ ان میں سے ایک خاتون جن کی عمر 35سال تھی 28مارچ کو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔اس طرح مرنے والوں کی تعداد 9ہو گئی۔ تحقیقی ٹیم نے 28 مارچ کو بگٹئی گاو¿ں کا دورہ کیا۔ اس کے ارکان نے مختلف شعبہ¿ حیات کے لوگوں سے ملاقات اور بات چیت کی اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایسا بھیانک اور دل کو لرزادینے والا واقعہ کیسے اور کیونکر پیش آیا؟
گاو¿ں کے زیادہ تر لوگ دلالی، سودی کاروبار اور غیر قانونی تجارت اور سر گرمیوں میں ملوث ہیں۔ جاہلیت عروج پر ہے تقریباً اس گاو¿ں میں 1800گھر ہیں اور لگ بھگ تین ہزار افراد پر مشتمل یہ قصبہ ہے۔ گاو¿ں کے سارے لوگ حکمراں جماعت سے اپنے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ بھادو شیخ اور مہیلال شیخ کے درمیان تجارتی اور سیاسی حریفانہ کشمکش بر سوں سے چلی آرہی تھی۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے سے دونوں دلچسپی رکھتے تھے۔بستی میں گندی سیاست، غیر قانونی تجارت، سودی کاروبار کا چسکا کچھ ایسا جڑ پکڑ چکا ہے کہ جو لوگ سیاست میں ہیں یا غیر قانونی کام میں ملوث ہیں وہ حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔حرص،طمع، خود غرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیض و غضب ایسی دوسری خصلتوں میں غرق ہو چکے ہیں۔ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچے ہو کر رہ گئے ہیں۔سچ کہا گیا ہے کہ ایک خاندان جب دوسرے خاندان کی دشمنی میں اندھا ہوجاتا ہے تو درندگی میں تمام درندوں کو مات کر دیتا ہے۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لئے کسی جانور کا شکار کرتا ہے جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا مگر یہ انسان نما حیوان خود اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا قتل عام کرتا ہے۔ بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتا ہے، ماو¿ں کو اپنے بچے کا خون پینے پر مجبور کرتا ہے انسانوں کو زندہ جلاتا ہے اور زندہ دفن کردیتا ہے۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانور بھی کوئی ایسا نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجے میں بھی مقابلہ کر سکتا ہو۔ یہی حالت دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں جس طرح بھی انسان رخ کرتا ہے اپنے آپ کو ارزل المخلوقات ثابت کردیتا ہے ۔21مارچ کو بگٹئی میں ارزل المخلوقات کا یہ مظاہرہ انسانی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔
کہنے کو تو یہ مسلمانوں کی بستی ہے ، دنیا جانتی ہے بگٹئی میں مسلمان رہتے ہیں لیکن حقیقت میں یہاں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔21مارچ کے سانحہ اور حادثے پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ساری بستی غم اور غصے میں اٹھ کھڑی ہوتی اور ظالموں کی قانونی اور جمہوری طریقہ سے سر کوبی کی کوشش کرتی، مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ غم و غصہ تو نہیں ہے بلکہ خوف وہراس ہے۔ بگٹئی گاو¿ں میں پیروں کاغلبہ ہے پیری مریدی کا چلن ہے۔ اس بستی میں کسی اصلاحی یا اسلامی جماعت کے افراد کو قدم رکھنے نہیں دیا جاتا۔ ایک دو مدرسہ بھی نام کا ہے بستی میں تین مسجدیں ہیں لیکن اس میں امام بھی باہر کے ہیں۔ اماموں کی بات چیت سے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ بھی اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں کہنے کو تو سب مسلمان ہیں لیکن 80فیصد لوگوں کا نام غیر مسلموں جیسا ہے۔دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں مشکل سے کسی محلے میں ایک دو گریجویٹ پائے جاتے ہیں۔ بعض بعض محلے میں ایک بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ مشہور یونیورٹی شانتی نکیتن دور نہیں ہے۔
اندر یا باہر سے بستی میں اصلاح حال کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے جس سے یہ امید کی جاسکے مستقبل میں اس بستی کی حالت سدھر جائے گی۔تحقیقی ٹیم کے ایک رکن نے بستی کے ایک شخص سے پوچھا کی تبلیغی جماعت کے افراد کو اس بستی میں آنے دیا جاتا ہے تو جواب میں بتایا کہ نہیں جماعت کے افراد کو بستی میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہند بیر بھوم کے ایک سابق ناظم نے بتایا کہ وہ اس بستی میں کبھی نہیں گئے حالانکہ رام پور ہاٹ میں جماعت کے تین ارکان ہیں جس میں ایک ڈاکٹر ہیں۔ ان کو بھی بستی میں جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔انارالحسین اس وقت جیل میں ہے جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ بیر بھوم ہنگامے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے وہ معمولی قسم کا راج مستری تھا اس وقت وہ کروڑ پتی ہے۔ بستی میں اس کی کئی عمارتیں ہیں۔ علاقے کا سب سے اہم اور خطرناک آدمی ہے۔لوگوں نے بتایا کہ ترنمول کانگریس بیر بھوم پر پورا کنٹرول انو برتو منڈل کا ہے۔ سارے لوگ ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں اور جب وزیر اعلیٰ کے سامنے انو برتا منڈل ہوتا ہے تو وہ ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا ہے۔ بیر بھوم میں مسلمانوں کی آبادی35فیصد ہے لیکن 11ایم ایل اے میں صرف ایک مسلمان ہے۔اس طرح مسلمانوں کو نو فیصد بھی نمائندگی نہیں دی جاتی ان کو صرف پارٹی کے کام کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک غیر مسلم تعلیم یافتہ سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان ہی کیوں مارنے مرنے میں سیاسی میدان میں آگے رہتے ہیں؟ جواب میں اس نے کہاکہ مسلمانوں میں اَن پڑھ اور گنوار زیادہ ہےں دوسری بات یہ کہ وہ مرنے اور مارنے میں آگے آگے رہتے ہیں اور نتائج سے بے پر وا ہوتے ہیں اس کے برعکس غیر مسلم زیادہ تر پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور تشدد کے بارے میں سو بار سوچتے ہیں۔ اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔
تحقیقی ٹیم کے ارکان نے ترنمول کانگریس کے ایک بڑے مسلم لیڈر سے دوران ملاقات دریافت کیا کہ مسلمان کیوں اتنی گری حرکت کر رہے ہیں اور کتنے اتنے گرے پڑے لوگ پارٹی کے اہم مقام پر فائز ہیں انہوں نے جواب میں کہا کہ پارٹی سے یہ بھول ضرور ہوئی ہے کہ ایسے لوگوں کو پارٹی کے کام میں لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کو پارٹی سے دور رکھ کر نہ ان کو رکنیت د ی جائے اور نہ اسے کسی عہدہ یا منصب پر بٹھایا جائے ۔چند دنوں پہلے سندیپ چودھری کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ترنمول کانگریس میں شر پسندوں کی بھر مار ہے۔ ممتا بنرجی کے بارے میں لکھا ہے کہ پارٹی کے اندرونی لڑائی کو وہ پارٹی کے مفاد میں باقی رکھنا چاہتی ہیں۔
بگٹئی گاو¿ں کے جن گھروں کو آگ لگائی گئی اس سے قریب ہی پولس تھانہ ہے وہاں پولس دس منٹ میں آسکتی تھی لیکن ڈھائی گھنٹے میں آئی۔ جب ہنگامہ پر ور اور شر انگیز افرادآتش زنی ، قتل کو غارت گری اور بم بازی کر کے چلے گئے تھے۔ جائے حادثہ سے ایس ڈی او پی سیان احمد کابنگلہ دکھائی دیتا تھا۔ آتشزنی سے وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ گزشتہ سوموار کو دو پہر کے وقت سی بی آئی نے انہیں بھی اپنے کیمپ آفس میں طلب کیا تھا۔ اور ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یا ان کے ماتحتوں نے قتل اور آتشزنی کے واقعے کے سلسلے میں کیا کر دار ادا کیا۔ بستی کے لوگوں نے بتایا کہ پولس یا سرکاری عملہ سیاسی لیڈروں کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتا۔ پولیس کو بر وقت جائے وقوع پر جانے سے روکا گیا تھا تا کہ شر پسند آسانی سے شر انگیزی کے کام کو انجام دے سکیں۔
آگ میں جلانے کی ممانعت: عرب اور غیرعرب شدت ِ انتقام میں دشمنوں کو جلا دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس وحشیانہ حرکت کو ممنوع قرار دیا۔ حدیث میں آیا ہے آنحضور ﷺ نے فرمایا:” آگ کا دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے والے اور کسی کو سزا وار نہیں۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دشمن کو باندھ کر قتل کرنے اور تکلیفیں دے دے کر مارنے کی بھی ممانعت ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے آنحضور ﷺ نے فرمایا:”عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو“ ، ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی عام ممانعت فرما دی۔ ایک حدیث میں آیا ہے ” نہ کسی بوڑھے ضعیف کو قتل کرو نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے پہلے سے فرما دیا کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا جو کوئی جان بچا کر بھاگے اس کا پیچھا نہ کرنا اور جو اپنا در وازہ بند کر کے بیٹھ جائے اسے امان دینا۔( فتوح البلدان۔ ص:47)
دنیا نے دیکھا جب تک مسلمان نے مذکورہ اعلیٰ تعلیمات پر عمل کرتے رہے دنیا میں احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے آج جب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں ارزل المخلوقات کا مظاہرہ ہوتا ہے تو مسلمان بھی بدنام ہوتے ہیں اور اسلام بھی بدنامی کا سبب بنتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں بگٹئی جہاں21مارچ کو واقعہ پیش آیا وہاں تو نام کے بھی مسلمان بھی نہیں ہیں ان کے ماں باپ نے نام بھی اسلام سے ہٹ کر رکھا ہے کیونکہ ان کو اسلام سے کوئی واقفیت نہیں ہے۔
نوٹ: تحقیقی ٹیم میں عبد العزیز کے علاوہ سماجی کارکن عظمیٰ عالم(ممبر مسلم پرسنل لا بورڈ)اور اردو کے تین صحافی شامل تھے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین