Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالمکیا ہندوستان میں بھی اسلام فوبیا کے خلاف قانون سازی کی ضرورت...

کیا ہندوستان میں بھی اسلام فوبیا کے خلاف قانون سازی کی ضرورت ہے؟

این قاسمی

دنیا بھر میں اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف تشدد کے واقعات میں اضافے کے درمیان امریکی ایوان نمائندگان میں ”کمبیٹنگ انٹرنیشنل اسلامو فوبیا ایکٹ“منظور کیا گیا۔اس قانون کی وجہ سے امریکہ کو دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے واقعات کی نگرانی کرنے کا حق حاصل ہوجائے گا اور اس طرح یہ ایک بڑا قدم ضرور کہا جاسکتا ہے۔کانگریس کی نمائندہ الہان عمر نے 30 دیگر قانون سازوں کے ساتھ اکتوبر 2021 میں یہ بل پیش کیا تھا۔

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے خصوصی ایلچی بنانے کی تجویز پاس ہونے کے بعد الہان عمر نے ٹوئٹر پر لکھاکہ ”ایوان نمائندگان میں اس قانون کی منظوری دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سنگ میل ہے اور یہ ایک طاقتور اشارہ ہے کہ کہیں بھی اسلاموفوبیا کو برداشت نہیں کیا جا سکتاہے۔یہ ایکٹ محکمہ خارجہ کو دنیا بھر میں اسلام فوبک کارروائیوں اور ان سے متعلق مسائل کو باضابطہ طور پر دستاویز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایکٹ مزید ایک خصوصی ایلچی قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اسلامو فوبیا کی کارروائیوں کی نگرانی کرے گا۔ یہ ایکٹ کانگریس کی انسانی حقوق سے متعلق جو رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں اس میں اب اسلامو فوبیا کے واقعات جیسے جسمانی طور پر ہراساں کرنے میڈیا، حکومتی اور غیر سرکاری کوششوں کو جواز فراہم کرنے نفرت پر مبنی جرائم کا پرچار کرنے کے واقعات کو بھی شامل کیا جائے گا۔

الہان عمر کے دفتر کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں ہندوستان سمیت کئی ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم عروج پر ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ”دنیا بھر میں پرتشدد اسلامو فوبیا کے واقعات میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ چاہے وہ چین میں اویغوروں اور برما میں روہنگیا کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم ہوں، ہندوستان اور سری لنکا میں مسلم آبادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہو، ہنگری اور پولینڈ میں مسلمان پناہ گزینوں اور دیگر مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جانا ہو، سفید فام بالادستی کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں ہوں۔ نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں، یا پاکستان، بحرین اور ایران جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں اقلیتی مسلم کمیونٹیز کو نشانہ بنایا جانا ہو- اسلامو فوبیا کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
الہان عمر کا بیان سامنے آنے کے بعدوزارت خارجہ نے پریس ریلیز کے ذریعہ فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ہندوستان ایک متحرک، سیکولر جمہوری ملک ہے جہاں مختلف مذاہب اور زبان بولنے والے پرسکون ماحول میں رہتے ہیں۔جب کہ ہندوستان میں ہندو قوم پرست بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ملک بھر میں مسلم مخالف تشدد اور اسلامو فوبیا عروج پر ہے۔ مسلم مخالف تشدد، بشمول موب لنچنگ کی کارروائیاں، میڈیاکے پروپیگنڈے، اورسی اے اے، این آر سی اور این آر پی جیسی ظالمانہ کارروائیوں کی منظوری نے مسلمانوں کے مصائب کو گزشتہ برسوں میں دوگنا کردیا ہے۔اب تک کھلے عام مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی بات کی جارہی ہے۔وزیر اعظم مودی سے لے کراترپردیش کے وزیر اعلیٰ تک مسلمانوں کے خلاف اشاروں میں نشانہ بنارہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز مہم کے واقعات میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ان حالات میں اگر ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے خلاف قانون سازی نہیں کی گئی تو مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کے خدشے میں اضافہ ہوجاتاہے۔
سیاسی تبصرہ نگار شارب علی ہندوستان میں اسلامو فوبیا مخالف قانون سازی کی ضرورت ہے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’امریکہ اور یورپ میں باہری لوگوں اور غیر ملکیوں کی وجہ سے اسلام فوبیا کے جذبات ابھرے ہیں۔جب کہ ہندوستان میں مقامی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ہندتو کے حامی طاقتیں مقامی مسلمانوں کو باہری بتانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں نفرت کا لفظ اتنا ہی عام ہے جتنا کہ مغرب میں ’فوبیا‘ کا لفظ۔ ہمیں ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف زبانی، جسمانی یا میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر نفرت کے اظہار پر کارروائی کا انتظام ہو۔ شارب اس کیلئے ا یس سی/ ایس ٹی انسداد مظالم ایکٹ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون میں قصورواروں کے خلاف ادارہ جاتی کارروائی کے ساتھ ساتھ اضلاع سے لے کر قومی سطح تک کارروائی کا انتظام ہو۔ان کے بقول یہ نوٹ اگرچہ امریکہ میں منظور کیا گیا ایکٹ ایک اہم قدم ہے، لیکن اس میں مزید اسلاموفوبک کارروائیوں کو مجرمانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں جہاں 2014 کے بعد سے مسلم مخالف تشدد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے، مسلم نفرت اور اسلامو فوبیا کے خلاف ایک ایکٹ، ایس سی-ایس ٹی مظالم ایکٹ کے خطوط پر، جو کہ مسلم مخالف نفرت کی کسی بھی شکل کو دستاویز کرنا اور اسے مجرم قرار دینا ضروری ہے۔

کمبیٹنگ انٹرنیشنل اسلامو فوبیا ایکٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے، سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد نے موجودہ قوانین کے اندھا دھند اطلاق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ”وقت کی تبدیلی کے ساتھ قانونی طریقہ کار کو تبدیل کرنا ضروری ؎ہے۔ تاہم، زیادہ اہم موجودہ قانونی دفعات کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔ اب بھی، اگر قوانین کا بے لاگ اطلاق کیا جائے تو زیادہ تر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نظام میں قوانین کا اطلاق امتیازی ہے۔ ایک چھوٹا سے معاملے کو بڑا بنادیا جاتا ہے اور دوسری طرف بہت سے سنگین معاملات کی کبھی کبھی پردہ پوشی کردی جاتی ہے۔ اس لیے آپ نئے قانون کا کیا کریں گے اگر اسے منصفانہ طریقے سے لاگو نہیں کیا گیا؟ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے خلاف اسی طرح کے قانون کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں کہا کہ کہ ضابطہ فوجداری اور سپریم کورٹ، دونوں کہتے ہیں کہ قابل شناخت جرم کی اطلاع پر، ایف آئی آر کا اندراج ‘لازمی’ ہے۔کیا اس کی پیروی کی جا رہی ہے؟ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ متعلقہ افسران کی صوابدید کو امتیازی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے قوانین کے بجائے متعلقہ حکام کو امتیازی سلوک کرنے سے روکا جائے اور اس کیلئے تدابیر کا انتظام کیا جائے۔

کلکتہ میں این آر سی کے خلاف مہم اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی ایڈوکیٹ شفقت رحیم اپنے ذاتی تجربے کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ این آرسی اور سی اے ا ے کے خلاف تحریک کے دور میں رپورٹنگ کیلئے آنے والے قومی میڈیا کے نمائندے جب نقاب پوش لڑکیوں کو تقریر کرتے ہوئے اور قانونی پہلوؤں پر بات کرتے دیکھتے تھے وہ حیران ہوجاتے تھے۔ان کی ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ حجاب پوش طالبات دقیانوس اور جاہل ہوتی ہیں اور انہیں جذبات میں بہکا کر اور اشتعال دلاکر یہاں لایا گیا ہے۔
26سالہ شفقت رحیم کہتی ہیں کہ مغربی بنگال سے متعلق عام طور پر یہ تصور ہے کہ یہاں کے ماحول میں عصبیت اور فرقہ واریت نہیں ہے۔مگرصورت حال یہ نہیں ہے، سرکاری دفاتر میں ہمارے ساتھ افسران کا رویہ تعصب اور حقارت پر مبنی ہوتا ہے۔افسران حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور دھتکارنے کی طرح پیش آتے ہیں مگر جب ہم ان سے انگریزی میں بات کرتے ہیں تو وہ حیران ہوجاتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ حجاب پوش مسلم لڑکی اور بے حجاب مسلم لڑکیوں کے ساتھ اسکول سے لے کر کالج اور دفاتر سے لے کر یونیورسٹیوں تک میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔جو مسلم لڑکیاں حجاب نہیں پہنتی ہیں انہیں وہ قبول کرلیتے ہیں مگر حجاب میں ملبوس لڑکیوں کو وہ حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اسلام فوبیا ہرجگہ موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین