Friday, December 13, 2024
homeادب و ثقافتH-Pop :The Secretive World of Hindutva Pop Stars منحرف اور خطرناک...

H-Pop :The Secretive World of Hindutva Pop Stars منحرف اور خطرناک سڑک کا سفر

کنال پروہت کی کتاب شمالی ہندوستان کے چھوٹے شہروں میں ہندتو کی مقبول ثقافت کا تجزیہ، اس کے اداکاروں، سامعین اور اس کی حمایت کرنے والے وسائل کی تلاش کرتی ہے۔ ہندتوموسیقی کے ذریعہ ہندو ثقافتی شاونزم کی بالادستی اور اقلیتوں کے تئیں نفرت پھیلانے کی کوشش۔

نور اللہ جاوید

فنون لطیفہ اور موسیقی صرف تفریحی طبع کا ذریعہ نہیں ہےبلکہ شعور و آگہی ، سماجی رابطے اور ثقافتی اظہار کا بھی ذریعہ ہے ۔ انسانی زندگی کےانفرادی و اجتماعی اور سماجی معمولات(social norms)پر بھی موسیقی اثرانداز ہوتی ہے۔انسانی شعور میں وسعت ، جمالیاتی حسن پیدا کرنے کیلئے ترقی یافتہ قوموںنے موسیقی کو اسکولی نصاب کا حصہ بنارکھاہے۔ تاہم موسیقی کاایک دوسرا رخ بھی ہے۔موسیقی کا استعماری اور فاششٹ طاقتو ں نے اپنے دشمنوں کے خلاف رائے عامہ ہموار اور اپنے مخالفین کو کچلنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔نازی ، اطالوی فاششٹ، راونڈا میں نسل کشی ، یورپ اور امریکہ میں سفید فاموں نے نسلی برتریت اور سیاہ فاموں کا استحصال کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ دراصل موسیقی کے ذریعہ دلوںپرآسانی سے دستک دی جاتی ہے اور دلائل و ثبوت سے عاری محض جذباتی دعوئوں کے ذریعہ کسی بھی بیانیہ کومضبوط کیا جاسکتا ہے۔نوجوان صحافی کنال پروہت نے اپنی تازہ کتاب H-Pop :The Secretive World of Hindutva Pop Starsمیں بھارت میں ہندتو موسیقی کے اسی دوسرے رخ سے روشناس کرایا ہے۔

کنال پروہت اپنی کتاب کے ذریعہ ہندوستانی سیاست کے اس ناقابل شناخت پہلو سے آگاہ کیا ہے جو کسی زمانے حاشیے پر تھا لیکن رفتہ رفتہ سماجی تخیل پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہندتو پاپ اسٹارس کی سرگرمیوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتایا کہ گرچہ ہندتو موسیقی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کی ہے اور نہ سرخیاں بنیں مگر ورچوئل اور حقیقی دونوں دنیا میں لاکھوں لوگوں کے تخیل پر قبضہ کرلیاہے۔اس کی سرگرمیوں کا مرکز ملک کے بڑےبڑے شہر نہیں ہے۔ بلکہ چمکدار اور گلیمر سے خالی ہندتو موسیقی جس کی تشہیرکیلئے بڑے بڑے بینر اور پوسٹر نہیں لگائے جاتے ہیں صرف آن لائن سائٹس اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم سے اس کی تشہیر ہوتی ہے اور لاکھوںافراد کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ یہ ہندتوا پاپ یا H:POP کی دنیا ہے۔ پروہت اس دنیا کی گہرائیوں اور سرگرمیو کی وجہ سے اس ملک میں ہونے والی پریشان کن تبدیلیوں کے حقائق سے روشناس کراتے ہیں ۔وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ جس ملک کا آئین ہم آہنگی ، مساوات، احترام انسانیت کو برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے مگر اسی ملک میں ایسی بھی دنیا ہے جہاں کھلے عام آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔قانون شکنی کا مزاج پیدا کیا جارہا ہے۔ہندتو کے نغمے گائے جارہے ہیں ، حقائق اور ثبوت سے عاری تاریخ مرتب کی جارہی ہے۔ہندتو پاپ معاصر ہندوستان جواس وقت اقلیت مخالف رویے، نفرت انگیز ماحول اور ہندو ثقافتی شاونزم کیلئے جانا جاتا ہے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔کنال پروہت نے کتاب کی تصنیف کیلئے کئی سالوں تک ہندتو پاپ اسٹارز کے ساتھ سفر کیا ہے، ان کے پروگراموں کی کوریج کی ہے اور ان کے ساتھ طویل مکالمے کرنے کے بعد ہی انہوں نے دائیں بازوں اور شدت پسند ہندتوکے حامی موسیقی کاروں کے ایجنڈے ، ان کی گیت کے بول اور اس کے مقاصدکو سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔کنال پروہت کے سامنے کئی سوالات تھے نفرت انفرانگیز گیت اور موسیقی پیش کرنے والے کون ہیں؟ ، وہ اس میدان میں کیوں آتے ہیں اور ان کے پس منظر کیا ہایں اور وہ اپنی اس موسیقی کے ذریعہ کس بیانہ کی تشکیل دینا چاہتے ہیں ۔اس طرح کی موسیقی کو کون سنتا ہے ؟ ان کی سرمایہ کاری کون کررہا ہے۔اس موسیقی کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟۔
موسیقی ایک آفاقی زبان کے طور پر سماجی بیانیے کوتشکیل دینےاور سماجی معمولات کا حصہ بننے کی بے پناہ طاقت رکھتی ہے۔ایسے میں جب موسیقی ہندتو جیسے انتہا پسند نظریے کی تشہیر کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال ہونے لگے تو اس سے ہندوستان کی تکثیری اخلاقیات کے تباہ ہونے کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔جب موسیقی مخصوص نظریات سے جوڑ جاتی ہے تو اختلافی آوازیں خاموش کردی جاتی ہیں۔ملک کا تنوع مجروح ہوجاتا ہے۔کنال پروہت اسی پیچیدہ حرکیات اور طاقت سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔

کچھ کہانیاں حادثاتی طور پر دریافت ہو جاتی ہیں۔ صحافی کے طور پرپروہت جنوبی جھارکھنڈ کے ایک دھول بھری شام کو ایک چھوٹے سے شہر میں ہوتے ہیں۔ اسے مقامی لوگ رام نومی کے جلوس کے بارے میں ایک کہانی سناتے ہیں کہ 2017سے پہلے تک رام نومی کا جلوس پیار و محبت اور ہم آہنگی کا ذریعہ تھا۔لیکن 2017کی ایک شام رام نومی کے جلوس نفرت میںتبدیل ہوجاتی ہے اور پھر تشدد و قتل غارت گری کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ہندؤں اور مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے مشہور مذہبی جلوس نفرت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کنال پروہت محبت کی داستان سے نفرت کے سفرتک کی کھوج لگانے کیلئے سفر پر نکل جاتے ہیں ۔پھر اس کے بعد کنال پروہت ایک ایسی دنیا سے متعارف ہوتے ہیں جو ہندو قوم پرست اور دیش بھکتی کے بجائےخطرناک حدتک مذہبی تقسیم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔وہ لوگ جو نسلوں سے اکٹھے رہتے تھے اور مشترکہ ثقافتی ماضی رکھتے تھے اب وہ خود کو دو دشمن برادریوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو مزید ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ بڑے شہروں سے دور قصبوں میں تلخ دشمنی اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی یہ کہانی، مقبول ہندتو ثقافت کے ذریعے تیار ہوئی، پروہت کے سامنے حقائق آشکار ہوتے اور وہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

موسیقی جب نظریات اور آئیڈلوجی سے جوڑ جاتی ہے اور اس کا واحد مقصد اپنی تہذیب و ثقافت کی بالادستی رہ جاتی ہے توان حالات میں دنیا تیزی سے قتل عا م کے خلاف بڑھ جاتی ہے۔کنال پروہت نے تاریخ کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور تاریخ کے اہم واقعات کی کھوج کرتے ہوئے یہ دریافت کرتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی نسل کشی جیسے گھنائونے جرائم کے واقعات رونما ہوئے ہیں اس کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں موسیقی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف قتل عام اور نقل مکانی سے قبل بدھششٹوں راہبوںاور ان حامیوں کے درمیان مقبول موسیقی کے حوالے دئیے ہیں ۔صرف میانمار ہی نہیں بلکہ ہٹلر اور مسولینی جیسی فاششٹ طاقتوں نے بھی موسیقی کے ذریعے رائے عامہ ہموار کیا اور جھوٹی تاریخ اور کہانیوں کے ذریعہ نفرت کی سطح اس قدر بلند کردیا تھا کہ ہٹلر نے آسانی سے لاکھوں یہودیوں کا قتل کردیااور اس قتل وغارت میں عام شہری بھی شامل ہوگئے۔

کنال پروہت بتاتے ہیں کہ ’’ہندتو پاپ‘‘نہ صرف ہندتوا کے بنیادی عقائد اور مقبول ثقافت کے لیے سماجی قبولیت پیدا کر رہے ہیں۔بلکہ چالاکی سے اسلامی فوبیا کیلئے ماحول سازگار کرنے کے ساتھ اقلیتوں کو شیطان صفت ثابت کررہے ہیں ۔پھر وہ اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ کیا چیزہندتو پاپ میوزک کو مقبول بناتے ہیں ۔اس کے گلوکار اور سامعین کون ہیں ؟اس کی تیاری اور نشریات کے لیے پیسہ، محنت اور وسائل کون رہا ہے؟ بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی مقبولیت میں ہندتو پاپ نے کیا کردار ادا کیا ہے۔یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’’ قاتل کی دھڑکن، زہر سے بھرے الفاظ: کاوی سنگھ‘‘۔ کاوی ایک ہندوتوا پاپ سٹار ہیں وہ ہندتو کے نوجوانوں میں بہت ہی مقبول ہیں۔وہ ایسے گانوںکی تخلیق کرتی ہیں جس میں ہندو قوم پرستی کے کچھ بنیادی عقائد کی بازگشت کرتی ہیں۔ کاوی کو یقین ہے کہ ملک کی مسلم آبادی ملک کی ڈیموگرافی میں تبدیل کرنے کی خفیہ سازش کررہی ہے اور جلد ہی ملک میں ہندو اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔دوسرے باب میں مصنف نے ہندوتوا کے ایکو سسٹم کو زیادہ سے زیادہ سامعین تک پہنچانے کیلئے ہندوتوا پاپ اسٹارز کی شاعری کے استعمال سے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھارت میں ہندوؤں کی واحد نجات دہندہ ہے۔ کتاب کا تیسرا باب ثقافتی جنگ میں مصروف ہندوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اس میں پیچیدگیوں سے بھرے خطہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جہاں شناخت، روایت اور جدیدیت کے تصورات ایک دوسرے کو آپس میں ملاتے ہیں۔ ہندو برادری کے اندر ثقافتی جنگ اکثر پرانی روایات کو برقرار رکھنے اور بدلتے ہوئے معاشرتی اصولوں کو اپنانے کے درمیان نازک توازن کے گرد گھومتی ہے۔

کنا ل پروہت بتاتے ہیں ہندتو پا پ میوزک کا مقصد نظموں اور گانوں کے ذریعہ ماضی کو دوبارہ لکھنا ہے تاکہ مسلمانوں کو ظالم اور شیطان ثابت کرنا اور ہندوؤں کو عظیم اور بہادر کے طور پر پینٹ کیا جا سکے۔ سامعین کے سامنے استدلال رکھنے کے بجائے جذبات کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہندوتوا کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے، اسے دشمنوں کی ضرورت ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل نئی باتیں گڑھی جاتی ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کو ظالم ثابت کرنے اور ان کے مقابلے ہندو شخصیت کو لانے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ایک گانے میں تیمور کے مقابلے میں جوگراج سنگھ گرجر نامی ایک بالکل فرضی جنگجو کا جشن منایا گیا ہے ۔اس میں نے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جوگراج سنگھ نے تیمور کی فوج کو شکست دی اور اسے ہریدوار کے دروازے پر روک دیا۔ اس من گھڑت کہانی کے ساتھ اس نظم کی ایک ویڈیو کو اداکار، کنگنا رناوت نے اپنے فیس بک پیج پر اتر پردیش میں 2022 کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر شیئر کیا تھا۔اس میں رناوت نے اپیل کی تھی کہ ’’اس کی کہانی سنیں، بہادر، طاقتور جوگراج سنگھ گرجر جس نے ظالم حملہ آور تیمورلنگ کو شکست دی۔ میں تمام ووٹروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنے بہادر آباؤ اجداد کی قربانیوں کا احترام کریں۔ پولنگ کی تاریخ پر، یقینی بنائیں کہ آپ ہماری قوم کی سلامتی کے لیے ووٹ دیں۔اس سے ہندتو پا پ میوزک کی رسائی اور اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کنال پروہت نے بہت ہی احتیاط مگر خوبصورتی کے ساتھ ’’ہندوتوا پاپ اسٹارز‘‘کے کردار کی باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہوئے ہندتو تحریک کے اکثر نظر انداز کیے جانے والے پہلوئوں پر روشنی ڈالا ہے۔کنال پروہت کے مشاہدات اور تاریخی تجزیے کتاب کو مقبول اور ہندتو ثقافت کی موسیقی سے سنگم سے متعلق گفتگو میں ایک قیمتی اضافہ بناتا ہے۔
کتاب کےآخری حصےمیںکنال پروہت انتہاپسندموسیقی کارکے ایک اور نئے رخ سے آگاہ کراتے ہیں ۔انتہاپسندی کے اس سفر میں یہ موسیقی کار اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ بی جے پی پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ بہار کے دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے سندیپ دیو ایک نیوز ویب سائٹ اور ’انڈیا اسپیکس ڈیلی‘ کے نام سے ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ ان کے سب سے اچھے دوست بی جے پی لیڈر اشونی دوبے ہیں۔اشونی دوبے سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اس کی زندگی کا مشن’’ہندتو کاز سے جڑے مسائل پر مفاد عامہ کی عرضی دائر کرناہےمگر اشونی دوبے بڑ بولے پن بی جے پی کیلے مشکلات کھڑی کرتی ہے اس لئے جنٹر منتر پر دھرنے کے دوران اشونی گرفتار کرلے جاتے ہیں

سندیپ دیو خود کو ’’ہندتو کے ضمیر کے پاسبان کے طوپر پیش کرتا ہے۔تاہم اس کی یہ خوبی ہے کہ وہ اندھ بھگت نہیں ہے ۔ہندتو نظریہ کو لے کر وہ بہت ہی حساس ہے۔کنال پروہت کی سندیپ دیو سے گفتگو سے ہندتو نظریہ کے اندرونی تضادات بھی کھل کر سامنے آتے ہیں ۔سندیپ دیو جہاں کاشی کے وشوناتھ مندر کمپلیکس کی 800 کروڑ روپےکی رقم کی مدد سے تجدید کاری پر خوش ہے وہیں وہ اس بات پر بھی ناراض ہے کہ اس پروجیکٹ کیلئے400 پراچین (قدیم) مندروں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ 70 منٹ کی ایک ویڈیو میں وہ ایک طنزیہ انداز میں شروع کرتا ہےکہ ’’مجھے پتہ چلا کہ یہ مسماری اتنی تکلیف دہ تھی کہ ہندو کارکنان ان کو انجام دینے پر راضی نہیں تھے۔ ان مندروں کو گرانے والے 80 فیصد مزدور ہارے ٹڈے (ٹڈی) تھے۔ اورنگ زیب یہی کرتا تھا… اب یہ میری اپنی حکومت کر رہی ہے۔ سندیپ دیو کی ویڈیوز کو بی جے پی اور آر ایس ایس جو ہاتھوں ہاتھ لیتی تھی مگر اس کے اس طرح کی ویڈیوز نہ آر ایس ایس پسندکرتی ہے اور نہ بی جے پی ۔وہ ویڈیوز جس میں وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا اور ہندو ثقافت کی بات کرتا ہےاس طرح کی ویڈیوز کو دیکھنے والوں کی تعداد 3.5ملین تک پہنچ جاتی ہے مگر مذکورہ بالا ویڈیوز جس میں وہ بی جے پی کی تنقید کی ہے اس کو دیکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔سندیپ دیو پروہت کو بتاتا ہے کہ اپنے ذرائع کے نیٹ ورک کے ذریعے،اسے پتہ چلا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت میرے ویڈیوز سے ناخوش ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے میرے چینل پر پابندی لگا دی ہے۔

دیو کی پریشانی یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی مفاد پرستی کی شکار ہوتی جارپی ہے اور اقتدار کا حصول واحد مقصد رہ گیا ہے چناں چہ اقتدار کی خاطر بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں ہندتو کے بنیادی اصول اور نظریہ سے بھی انحراف کرنا شروع کردیا ہے۔وہ نریندر مودی پر اپنی ماں کی موت کے بعد سوگ نہ منانے، اور اپنا سر نہ منڈوانے سے ناراض ہے۔اس کے بقول یہ تو نیا دھرم بنا رہے ہیں۔انہوں نے انڈیا ٹی وی کے رجت شرما کو ایک عوامی تقریب میں کٹھوعہ اجتماعی عصمت دری پر چینل کی رپورٹنگ سے بھی ناراضگی ظاہر کرتے کہتے ہیں کہ یہ میڈیا والے ہندتو کو بدنام کرنے کی مشن میں شامل ہوگئے ہیں ۔آر ایس ایس کے ترجمان اخبارات آرگنائزر اور پنج جنیہ کو دیئے گئے سرسنچالک موہن بھاگوت ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب نے ہمیشہ ہم جنس پرستی کو تسلیم کیا ہے، ۔سندیپ دیو اس پر اس قدر ناراض ہوتا ہے کہ وہ موہن بھاگوت کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دہلی کے ایک پولیس اسٹیشن پہنچ جاتا ہے مگر پولس ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے۔

دیو چھ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں کہانی کمیونسٹو کی (کمیونسٹوں کی کہانی) بھی شامل ہے۔ بلومسبری انڈیا نے اسے تین جلدوں میں شائع کرنے والی تھی۔تاہم پلومسبری انڈیا سے دہلی فسادات 2020پر شائع ایک کتاب ’’Delhi Riots 2020: The Untold Story ‘‘شائع ہوئی اس کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ نکسلی اورجہادی گروپ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔اس کتاب کی اشاعت پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی ۔اس کے بعد دہلی سے متعلق کتاب کو پلومسبری نے واپس لینے کا اعلان کیا اور دیو نے اس کی وجہ سے اپنی کتاب کی اشاعت کا معاہد ختم کردیا۔تاہم سندیپ دیو خود انحصاری کے تحت ’’کپوت‘‘ کے نام سے اپنا پبلشنگ ہائوس قائم کیا ہے ۔وہ اپنے ویب سائٹ کے ذریعہ امیوزون اور فللپ کارڈ جیسی آن لائن کمپنیو ں سے مقابلہ کرنے کا عہد کررکھا ہے۔کپوٹ ملک بھر میںایک ہزار آف لائن اسٹورز کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں زعفرانی کتابوں اور سودیشی مصنوعات کی فروخت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

پروہت کی یہ کتاب تین کرداراوں کے ارد گرد ہی گھومتی ہے مگر وہ ان کرداروں کے بہانے معاصر بھارت کی بدلتے حالات ، سماجی معمولات اور من گھڑت اور فریب پر پھیلتی تاریخ سے بھی آگاہ کرتے ہیں ۔یہ نہ صر ف مسلمانوں کو خوف زدہ اور ان کے تئیں نفرت پیدا کرتے ہیں بلکہ بی جے پی کو نجات دہندہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو ہندتو اور گوڈ سے کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔یہ موسیقی اپنی گیتوں میں بڑی آسانی وہ بات کہدیتے ہیں جس کی جرأت ہندتو کے لیڈران کھلے عام کہنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہ موسیقی کار بتاتے ہیں کہ اگر گوڈسے گاندھی کے سینے میں گولی نہیں چلاتے تو آج ملک بکھرگیا ہوتا ۔تاہم یہ کتاب کئی سولات بھی قائم کرتےہیں کہ ہندتو کی نفرت انگیزکا مقابلہ کیسے کیا جائے۔کیا ہتھیار ڈال دیا جائے اورحالات کے رحم و کرپر چھوڑ دیا جائے۔یا پھر ہندتو مو سیقی کے مقابلہ ایک ایسی موسیقی پیش کی جائےجس میں ملک میں امن و امان، پیار و محبت کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ تاریخ کے اسباق بھی شامل ہوں اور بھارت کی تنوع کی اہمیت اور بقا کیلئے جدو جہد کی جائے؟یہ سوالات اس لئے اہم ہے کہ بھارت کی بیشتر آبادی دیہی علاقے میں رہتی ہے ہندتو پاپ دیہی علاقے میں تیزی سے اپنے لئے سامعین کو جمع کرتی ہے اور پھر لوگوں کے دلوں پر دستک دے جاتی ہے۔اس نقطہ نظرسے دیکھا جائے ہندتو پاپ سماج و معاشرہ کیلئے انتہائی خطر ناک ہے ۔معاصر بھارت میں نفرت انگیزی ، اقلیت دشمن ماحول اور اس میں سیاست کے کردار کا پتہ لگانے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ ضرورکیا جانا چاہیے تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہندتو پاپ اسٹاروں کے ذریعہ پھیلائی جارہی نفرت کے خاتمے اور اس کا مقابلہ کرنے کی را ہ بھی تلاشی جائے ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین