انصاف نیوز آن لائن
ائمہ و موذنین کانفرنس کے انعقاد کی تیاریاں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھیں ، پیر کی سہ پہر وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے 37منٹ کی طویل تقریر کے ساتھ ہی کئی سوالات کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ان سوالوں کے جوابات کانفرنس کے منتظمین سے ضرور لیا جانا چاہیے ۔ کانفرنس کے انعقاد سے قبل منتظمین کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کئے جارہے تھے کہ یہ کانفرنس اتحاد امت کا نمونہ پیش کرے گی اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے سامنے ریاست کے مسلمانوں کے مسائل کو پیش کیا جائے گا۔یہ الگ سوال ہے ان بیچاروں کو بنگال کے مسلمانوں کے مسائل کا ادارک کہاں سے ہوگا ؟مگر سوال یہ ہے کہ صرف 500روپے تنخواہ میں اضافے کےلئے ائمہ مساجد اور موذنین کی اتنی بڑی بھیڑ لگانے کی ضرورت کیا تھی۔ہزاروں روپے خرچ کرنے سے کیا حاصل ہوا؟۔اس کانفرنس کے انعقاد کے مقاصد کیا تھے اور وہ مقاصد پورے ہوئے یا نہیں ۔کانفرنس کے انعقاد کےلئے روپے کہاں سے آئے ۔
موذنین اور ائمہ سے کہیں زیادہ مندروں کے بچاری چالاک نکلے جنہوں نے نہ اپنی انا و عزت وقار کو دائو پر لگایا اور نہ ہی کسی ایک خاص سیاسی جماعت کے تئیں اپنی وفاداری کی یقین دہانی کرانی پڑی اور بیٹھے بیٹھائے اپنی تنخواہ میں 500روپیہ کا اضافہ کرلیا۔وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے کل ریاست کی معیشت کا رونا رویا تھا مگر آج وہ جب پوجا کمیٹیوں کے ساتھ میٹنگ میں دل کھول دیا۔جہاں انہوں نے دس ہزار روپے کا گرانٹ میں اضافہ کیا وہیں انہوں نے پوجاکمیٹیوں کو سرکاری اشتہارات بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ بھی رقم ملے گی
دراصل ذاتی مفادات کےلئے اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے والوں کو اسی طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سیاسی قربت اور شہرت کےلئے اپنی کلا ہِ کج کو سرنگو کرلیا جائے تو یہ صر ف فرد واحد کی ذلت نہیں ہے بلکہ پوری قوم کی ذلت تھی۔اسٹڈیم کے باہر ہنگامہ مچاتے ہوئے مئوذنین اور ائمہ کے نظارے کو سبھی نے دیکھا ۔یہ لوگ ناراض تھے کہ انہیں اہمیت نہیں دی گئی۔کھانے کے پیکٹ نہیں ملے ۔نماز کی جگہ نہیں تھی۔انہیں بسوں میں بھڑ کر لایا گیا ۔ممتا بنرجی نے بھکاری سمجھ لیا۔مگر سوال یہ ہے کہ انہیں کشکول لے کر آنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔سوال مساجد کے ذمہ داروں سے بھی ہے کہ جب وہ اپنی مساجد میں اےسی کے نام پر ہرمہینہ ہزار روپے خرچ کرسکتے ہیں مگرجن کی اقتدار میں نماز پڑھتے ہیں انہیں باوقار زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیےسکتے ۔علامہ اقبال نے صحیح کہا:
حرم رسوا ہوا اہل حرم کی کم نگاہی سے
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی 37منٹ کی تقریر میں نئی کوئی بات نہیں تھی ۔وہی بی جے پی۔کانگریس اور سی پی ایم کی تنقید۔۔مسلمانوں کے مسائل ،مشکلات اور ان سے کئے گئے وعدے کا ذکر کرنے کے بجائے انہوں نے لمبی فہرست بھیج کردی کہ انہوں نے مسلمانوں پر گویا احسانات کئے ہیں ؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ احسانات جو مسلمانوں کےلئے گنوارہی ہیں وہ بڑے ہیں یا پھر انہیں تین مرتبہ اقتدار میں پہنچاکر مسلمانوں کے احسانات بڑے ہیں۔
ممتا بنرجی نےاپنے خطاب میں کہا کہ بنگال میں مذہبی بنیاد پر تفریق نہیں ہوتی، تمام فلاحی اسکیموں سبھوں کو یکساں مواقع ملتے ہیں ۔کنیاشری ، روپا شری،سواستیہ ساتھی کار ڈ سبھوں کےلئے برابر ہیں ۔مگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ جب بنگال میں مسلمانوں کو یکساں مواقع حاصل ہیں توپھر ریاست کے مسلمان تعلیمی ، سماجی اور معاشی پسماندگی کے شکار کیوں ہیں؟ آخر مسلمانوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری کیوں ہیں ؟ بنگال کے مسلم مزدور ملک بھر میں ذلیل و خوار کیوں ہوتے ہیں ؟۔بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 30فیصد ہے مگر کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی تعداد 6فیصد کے قریب ۔
کیا ممتا بنرجی ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہیں کہ گزشتہ دس سالوں میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کےلئے انہوں نے کیا اقدامات کئے۔مالدہ ، مرشدا ٓباد، شمالی دیناج پور اور ریاست کے دیگر مسلم آبادی والے علاقے میں کتنے اسکول قائم کئے ہیں ۔آج بنگال میں اسکولی تعلیم بحران کا شکار ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی برداشت کرنا پڑا۔
وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے اپنی تقریر میں ایک لائن اردو سے متعلق بھی کہا کہ انہوں نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا سوال یہ ہے کہ اس کا فائد ہ کیا ملا؟ کیا ممتا بنرجی سے یہ سوال نہیں کیا جانا چاہیے کہ اردو میڈم اسکولوں میں اساتذہ کیوں نہیں ہیں ۔ریزرویشن پالیسی کے مسائل حل کیوں نہیں ہوئے۔
ائمہ و موذنین کی اس کانفرنس کے اثرات سالوں تک رہیں گے۔اس کی قیمت مسلمانوں اپنی بے وقعتی اور بے اثری کے طور پر برداشت کرنی پڑے گی۔ممکن ہے کہ پروگرام کے آرگنائزر س کو کچھ سیاسی فائدے مل جائیں ۔ممکن ہے انہیں ایوان بالا میں بھیج دیا جائے۔مگر اس کانفرنس نے ثابت کردیا ہے کہ چند ہزار روپے کی خاطرمسلمانوں کے ائمہ و موذنین کی قطاریں لگائی جاسکتی ہیں ۔