Saturday, July 27, 2024
homeمجھے ہے حکم آذاںآئیے مسلم مکت بھارت کا تصور کرتے ہیں! ---مشہور صحافی سعید نقوی...

آئیے مسلم مکت بھارت کا تصور کرتے ہیں! —مشہور صحافی سعید نقوی کی کتاب The Muslim Vanishes کے تناظر میں

نور اللہ جاوید

ہندوستان میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی جو مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں وہ اگر کامیاب ہوگئی تو پھر مسلمانوں کے بغیر یا پھر مسلم مکت بھارت کیسا ہوگا؟اب تک ہم اس سوال میں الجھے ہوئے تھے کہ اگردیوار سے لگانے کی کوششیں کامیاب ہوگئیںتو ہندوستانی مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ کیا مسلمانوں کی نسل کشی کردی جائے گی؟، نسل کشی سے بچ جانے والے مسلمان کہاں جائیں گے ؟مگرمشہور و جہاں دیدہ صحافی سعید نقوی نے اپنی نئی کتاب ’’دی مسلم وینشز‘‘ (The Muslim Vanishes)میںمسلمانوںکی فکر کرنے کے بجائے ایک نیا سوال ہندوستانیوں کے سامنے رکھا ہے کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کیسا ہوگا؟یہ سوال گزشتہ تمام سوالات سے زیادہ اہم اس لئے ہے کہ اس سوال کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ اس سوال کا تعلق ہندوستان سے ہے اور ہندوستانی کی تہذیبی و ثقافتی شناخت سے ہے۔


پینگوئن رینڈم ہاؤس انڈیا کے ذریعہ شائع سعید نقوی کی کتاب’’دی مسلم وینشز‘‘میں مسلمانوں کے منظرنامہ سے غائب ہونے کے پورے واقعے کو ڈراما کے کرداروںبالخصوص برجیش اور آنند کے درمیان مکالمے کے ذریعہ بیان کیا گیاہے۔گرچہ اس ڈرامے کو اسٹیج پر پیش کیا جانا باقی ہے۔ مگر اس وقت ملک کے جو حالات ہیں،مسلمانوں کو لے کر جس طریقے کی سیاست ہورہی ہے اس کو ذہن میں رکھ کر سعید نقوی کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم تھیٹر میں بیٹھے ہوئے ہیں اورڈرام ہ اپنے شباب پر ہے۔حجاب پر پابندی ،عوامی مقامات پر اذان اور نماز کے خلاف نفرت انگیز کارروائی، حلال گوشت کی فروخت پر پابندی، مسلم دکانداروں کا سماجی بائیکاٹ، ہندئوں کے مذہبی تہواروں کے مقامات سے مسلمانوں کے کھانے پینے کے اسٹالز کو ہٹانے کے مطالبے دراصل یہ سب ان کی اس خواہش کا مظہر ہے کہ ’ہندوستان کی عوامی اور معاشی زندگی سے مسلمان مٹ جائیں یا کم ازکم اپنے آپ کو منظرنامہ سے غائب کرلیں اور خود کو دوسرے درجے شہری تسلیم کرلیں ۔
سعید نقوی تصور کرتے ہیں کہ اگر یہ سب حقیقت میںانتہائی مظہر میں واقع ہو جائے اور ہندوستان کے تمام مسلمان مکمل طور پر غائب ہو جائیں تو اس وقت کیا ہوگا ؟۔ کہتے ہیں کہ ’ایک صحافی کو خبروں کی دنیا سے باہر کیا جاسکتا ہے لیکن آپ خبروں کی دنیا کو صحافی سے نہیں نکال سکتے ہیں۔ چناں چہ جہاں دیدہ اور تجربہ کار صحافی سعید نقوی اپنے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت ڈرامے کی شروعات بھی ’’انسائٹ ٹوڈے ٹی وی ‘‘ کے نیوز روم سے کرتے ہیں۔

’’انسائٹ ٹوڈے ٹی وی نیوز چیل‘‘ کے نیوز چینل کا ماحول عام دنوں کی ہی طرح ہے ۔مگر اچانک ایک بریکنگ نیوز آتی ہے۔یہ ایک ایسی بریکنگ نیوز ہے جسے پیش کرنے میں نیوز اینکر ہچکاہٹ کا شکار ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔وہ اینکر اپنے باس سے کہتا ہے کہ مجھے میں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اس نیوز کو کس طرح پیش کریں، جناب والا کوئی نہیں بچا ہے۔مطلب!جناب میری مراد مسلمان ہے۔وہ سب کے سب چلے گئے ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ سب کچھ لے کر چلے گئے ہیں ۔قطب مینار اور افضل گرو کی لاش کو بھی لے کر چلے گئے ہیں۔ 200ملین مسلمان اپنی ثقافت، کلچر، وراثت،زبان وادب و ثقافت اور کھانے پینے کی اشیا لے کر چلے گئے ہیں ۔کیا اس میں بھی کوئی سازش ہے
ظاہر ہے کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑی خبر ہے، ان لوگوں کیلئے جو ہندوستان کے تمام مسائل کی جڑ مسلمانوں کو سمجھتے تھے ،انہیں خوش ہوجانا چاہیے تھاکہ اب ان کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ مگر سعید نقوی بہت ہی خوبصورت انداز میں ڈرامے کو اس سطح پر پہنچاتے ہیں مسلمانوں کے جانے کے بعد وراثت، ثقافت و ، کلچر پر قبضہ کرنے کی جو جنگ شروع ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ مسلم مکت بھارت کی خواہش رکھنے والوں یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اچھا تھا کہ مسلمان نہ جاتے ہیں ۔مسلمانوں کے جانے کی وجہ سے ان کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑ گئے ہیں ۔اب ان کی برابری وہ لوگ کرنے لگے ہیں جنہیں وہ نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمانوں کا خوف دکھاکر ان کا جذباتی استحصال کرکے غلام بنائے رکھا تھا اب تو مسلمانوں کا خطرہ ختم ہوچکا ہے ۔اس کی وجہ سے یہ لوگ مساوات کی باتیں کرنے لگے ہیں، اقتدار میں حصہ داریہی نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل مسلمانوں نے جاتے ہوئے اپنی جو دولت اور جائداد چھوڑی ہے اس کو ہتھیانے کو لے کر ایک نئی کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ہر ایک کی نگاہیں اس دولت پر مرکوز ہے ۔اعلیٰ ذات کے اشرافیہ کو نچلی ذات کے ممبران اور دیگر پسماندہ طبقات نے شکست دے کر مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی جائداد پر دعویٰ ٹھونک دیا ہے۔مگر پریشانی صرف یہی نہیں ہے کہ پسماندہ اور دلت طبقات نے مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی دولت پر قبضہ جمالیا ہے۔چوں کہ دلت اور پسماندہ طبقات اکثریت میں ہیں ، انتخابات ہونے کی صورت میں ملک کا اقتدار ان کے ہاتھ میں جانے کا قوی امکان ہے۔اعلیٰ ذات کے اشرافیہ کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑجائے گی۔چناں چہ اس کو روکنے کی تدابیر شروع ہوجاتی ہے۔مسلمانوں کو واپس بلانے کے آپشن پر بھی غور کیا جانے لگتا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے وجود معاشرے سے مساوت نہیں رہتا ہے ۔عدم مساوات کی وجہ سے دلت اور پسماندہ طبقات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن، سیاسی طبقہ، میڈیا اور عام لوگ دلتوں کے اس ’’انقلاب‘‘ سے پریشان ہیں۔ ڈرامہ اسی پوائنٹ پر کلائمس پر پہنچتا ہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے مولانا حسرت موہانی کے کنوینر شپ میں خصوصی عدالت قائم کی جاتی ہے۔اس 11رکنی جیوری میں گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہے امیر خسرو دہلوی، مہاتما جیوتی راؤ پھولے، عبدالرحیم خان، سلبیگ، راسخان، محسن کاکوروی، سنت کبیر، منشی چننولال دلگیر، گرو نانک مہاراج کے گمنام نمائندے، تلسی داس اور استاد علاؤالدین خان شامل ہیں۔اس جیوری کے سامنے مقدمہ رکھا جاتا ہے۔
دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں مصنف نے اپنے قاری کو جیوری ممبران کے ذریعہ ہندوستان کی ہزار سالہ گنگا جمنی تہذیب ، تکثریت ،رواداری اور بھائی چارہ کی داستان سے آگاہ کراتا ہے کہ وہ ہندوستان کتنا خوبصورت تھاجو آج غائب ہورہا ہے۔ برجیش اور آنند سرمئی رنگ کے دلچسپ رنگوں والے کردار ہیں۔ ان کی گفتگو ہندوستانی معاشرے کے روزمرہ کے تعصبات کے دھاگوں سے جڑی ہوئی ہے۔
جیوری میں بحث کے دوران ایک موقع پر امیر خسرو کہتے ہیں کہ
’’یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہندوستان کی ہزار سالہ ثقافت اور تہذیبی ورثے کو نقصان پہنچانے میں تما م طبقات شامل ہیں‘‘ (آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خسرو کہتے ہیں کہ)جو تیسری دنیا سے آئے ہیں ۔ہمارے لئے نفرت سے ڈوبی ہوئی موجودہ صورت سمجھ سے بالاتر ہے ۔میں ایک خدا ترس مسلمان ہوں، لیکن میں نے بھگوان رام کے لیے سنسکرت میں شاعری کی ہے۔ خسروجگن ناتھ کے عقیدت مند سلبیگ کے کاموں کا ذکر کرتے ہیںعبد الرحیم خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔مسلمان ہوتے ہوئے بھی انہوں نے سنسکرت میں رام کی بھکتی کے گیت لکھے ہیں۔اورخسرو محسن کاکوروی کے بارے میں بتاتے ہیںکاشی، متھرا اور ورنداون کی عظمتوںکا اعتراف ان کی گیتوں میں ہے۔امیر خسرو کی زبانی اس پورے مسئلے پر حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ٹی وی جرنلزم اور صحافت کے دیگر ذرائع کو تخلیقی پروگرام کا مشورہ دیا جاتا ہے۔میڈیا اور دیگر سماجی اور سیاسی افراد سے ذاپات اور فرقہ واریت کی برائیاں نکالنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
دراصل یہ کتاب ہندوستان کی عظمت رفتہ کا نوحہ ہے ملک کی موجودہ صورت حال کی عکاسی ہے۔یہ کتاب بتاتی ہے کہ فاشزم دروازے کی گھنٹی زور سے بجا کر اپنی آمد کا اعلان نہیں کرتی ہے بلکہ فاشزم آہستہ آہستہ، تقریباً خاموشی سے رینگتے ہوئے آتی ہے اور اچانک لوگوں کو محسوس ہونے لگاتا ہے کہ آس پاس کی دنیا یکسر تبدیل ہوچکی ہے مگر اس وقت واپسی کی راہیں مسدود ہوچکی ہوتی ہیں۔
اس کتاب سے قبل سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other The Muslims in India میں مسلمانوں میں عدم تحفظ، بیگانگی کے احساس کو واضح کیا تھا کہ اپنے ملک میں ہی ہندوستانی مسلمان کس طرح ’’دوسرے ‘‘ بنتے جارہے ہیں۔جس طریقے مغرب میں مشرق کے شہریوں کو ’دوسرے‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔اس کے ذریعہ سامراجی بالادستی کو قائم کیا جاتا ہے ۔اسی عینک سے ہندوستان کے موجودہ حالات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہندوستان میں ایک پوری کمیونٹی، جو کل آبادی کا 14 فیصد پر مشتمل ہے کو’’ دوسرے‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔نقوی نے کتاب کے پیش لفظ میں مسلمانوں کو ’’دوسرا‘‘(غیر)ثابت کرنے کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمراں طبقے کو خوف ہے اگر مسلمانوں کو غیر نہیں بتایا جائے گا تو ذات پات کے تنازع پرقابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
جیوری کے درمیان بحث وتکرار کے دوران مصنف فلیش کے ذریعہ ماضی میںقاری کو لے جاتے ہیں ۔ایسے حقائق سے روشناس کراتے ہیں جس کی ہندوستان کوآج اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔یہ یاد دلایاجاتا ہے کہ ’’سبری مالا کی عظیم یاترا، بھگوان آیاپا کے ایک مسلمان عقیدت مند کے مزار پر روکے بغیر یاترا نامکمل ہے۔1857 کی پہلی جنگ آزادی کے حوالے سے، یہ کہتا ہے کہ جب ہندوؤں اور مسلمانوں نے ہاتھ ملایا تو برطانوی ہاؤس آف کامنز میں، بنجمن ڈزرائیلی نے ہندوستان میں نوآبادیاتی اتھارٹی کو سزا دی، کیوں کہ یہ ہندوستانی عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ۔ڈزرائیلی کو غصہ ہے کہ’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کو نظر انداز کر دیا گیا، اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندو اور مسلمان 1857 میں انگریزوں کے خلاف شانہ بشانہ لڑے تھے۔ اس لیے یہ برادریوں کو تقسیم رکھنے کی برطانوی پالیسی بن گئی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں علیحدگی کے بیج بوئے گئے تھے، جو 1947 میں تقسیم کا باعث بنے تھے۔عظیم شاعر غالب کی سب سے طویل ہندئوں کے مقدس شہر بنارس پر ہے۔اگر مسلمان اپنے ساتھ غالب کے سب سے طویل نظم لے کر چلے جائیں گے تو پھر کیا بچے گا؟سعید نقوی نے ذات پات، ہندو مسلم تقسیم، پاکستان و کشمیرجیسے متنازع موضوعات سے نکلنے کے راستے کی نشاندہی کرنے کیلئے دادی کے سونے کے وقت کی کہانیوں سے لے کر ایسوپ کے افسانوں اور ملا نصرالدین کی کہانیوںکو بیان کرتے ہیں۔
نقوی ایک اور مفروضہ سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان سے ہندو ہندوستان آئے اور ہندوستانی مسلمان پاکستان ہجرت کر گئے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صرف پنجاب اور بنگال تقسیم ہوئے۔ ہندو پنجابی امرتسر، جالندھر، لدھیانہ، دہلی، یوپی اور اس سے آگے آئے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان لاہور، راولپنڈی، پشاور تک پہنچے۔ دوسرے حصوں کے مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔ کراچی میں سیکریٹریٹ میں صرف محدود تعداد میںلوگوں کا تبادلہ ہوا ۔یہی صورت حال مشرقی اور مغربی بنگال میں ہوا۔
حقیقت میں مسلم مکت بھارت کیسا ہوگا اس کو دیکھنے کیلئے اس ڈرامے کو ایک تھیٹر میں دیکھنا دلچسپ ہوگا تاکہ ہندوستان کی ذات پات، مذہب اور پاکستان اور کشمیر کے مسائل کی بنیاد پر تقسیم کو سمجھا جا سکے ۔ہندوستان سے مسلمانوں کا اچانک غائب ہونا بذات خود ایک بہت ہی پیچیدہ خیال ہے مگر نقوی نے اسے بہت ہی آسانی سے پیش کیا ہے۔مسلمانوں کے انخلا کے سیاسی پس منظر کے کئی پہلو کو بیان کرنے کے ساتھ وہ ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کے علاوہ ہندوستان میں رائج پدرانہ نظام، انفرادی و اجتماعی فرقہ پرستی، اخلاقی دیوالیہ پن، ذات پات، عدلیہ، پولیس اور صنفی تعصبات کو بھی بہت باریک بینی سے پیش کیا ہے۔
مگر جہاں تک سوال اس ڈرامے کے اختتام کا ہے اور اس سوال ہے کہ کیا پھر ہندوستان میں مسلمان واپس آجاتے ہیں اور وآپس آتے ہیں تو پھر حالات میں تبدیلی آتی ہے ۔میں اس کلائمکس سے پردہ نہیں ہٹاسکتا ہے۔اس کیلئے میں کتاب پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں ،ہر محب وطن ہندوستانی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ہندی میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔ یہ ڈرامہ اس دور میں پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنیں تاریخ کی قوت پر یقین نہیں ہے ۔
مگر یہ سوال ہے کہ جس ملک کا وزیر اعظم مسلمانوں کے قتل عام پر افسوس ظاہر کرنے کے بجائے یہ کہتا ہو کہ ان کی گاڑی کے نیچے کتا آجائے گا تو اس وقت بھی افسوس ہوتا ہے۔ایسے میں یہ سوچنا ہوگا کہ مسلمانوں کے اچانک چلے جانے کی پرواہ کون کرے گا؟جب ہر روز پیش آنے والی خبریں اور آنکھوں کے سامنے ہونے والے مسلمانوں کی تذلیل پر جب دل بے چین نہیں ہوتا ہے تو کیا مسلمانوں کے اچانک غائب ہونے کے تصور سے ہندوستانی عوام خوف زدہ ہوجائیں گے؟
2003کے خلیجی جنگ کے دوران یہ لطیفہ مشہورا ہوا تھا کہ عراق پر حملے سے قبل صدربش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے درمیان ون ٹو ون میٹنگ ہوئی ۔میٹنگ جب کافی طویل ہوگئی تو صدر بش کے اتاشی نے میٹنگ روم میں جاکر حالات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔اتاشی اچانک میٹنگ میں روم میں داخل ہوجاتے ہیں۔اتاشی کو دیکھ کر صدر بش کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے دس لاکھ مسلمانوں اور ایک گولڈ فش کو مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اتاشی کہتا ہے کہ گولڈ فش کیوں؟صدربش ٹونی بلیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں دیکھو میں نے کہا تھا نہ کہ مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق کوئی بھی سوال نہیں کرے گا۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں نقوی کا افسانہ سچ بھی ثابت ہوجائے تو بھی مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمانوں کے انخلا سے متعلق سوال نہیں کرے گا۔مسلمانوں کے جانے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ادراک تو بہت دور کی بات ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین