Wednesday, October 30, 2024
homeتجزیہکیا ممتا بنرجی مسلمانوں کا اعتماد کھورہی ہیں--جذباتی نعروں سے کب تک...

کیا ممتا بنرجی مسلمانوں کا اعتماد کھورہی ہیں–جذباتی نعروں سے کب تک بے وقوف بنایا جایے گا

خصوصی رپورٹ

ساگردیگھی ضمنی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے امیدوار کی شکست کے بعد سے ہی ترنمول کانگریس مسلمانوں کے بارے میں کافی فکر مند نظر آرہی ہے۔ 70فیصد مسلم آبادی پر مشتمل حلقے میں ترنمول کانگریس کے امیدوار کی شکست اور کانگریس کی کامیابی کے بعد سے ہی یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور اور دیگر مسلم اکثریتی حلقے جو عرصہ سے ترنمول کانگریس کے گڑھ رہے تھے وہاں کے عوام کا دل ترنمول کانگریس سے بھر گیا ہے اور وہ دوبارہ کانگریس کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ ساگردیگھی ضمنی انتخاب کا نتیجہ آنے کے بعد ہی شکست کا جائزہ لینے کے لیے ممتا بنرجی نے پانچ مسلم لیڈروں پر مبنی ایک کمیٹی کی تشکیل دی ہے، اس کے بعد اقلیتی و مالیاتی کارپوریشن کے چیرمین آئی ایس آفیسر غلام انصاری کو ہٹاکر آئی پی ایس آفیسر پی پی سلیم کو دوبارہ چیرمین بنا دیا ہے۔ اب وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اقلیتی امور کے وزیر غلام ربانی کو ہٹا کر خود وزارت اقلیتی امور کا چارج اپنے پاس رکھ لیا ہے اور ربانی کو وزارت باغبانی کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ محکمہ اقلیتی امور کی وزارت سے غلام ربانی کی چھٹی کیوں ہوئی ہے؟ کیا وہ گزشتہ دو سالوں میں اقلیتوں کی ترقی و فلاح وبہبود سے متعلق کام کرنے میں ناکام رہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ 2011 سے 2021 تک وزارت اقلیتی امور کا محکمہ وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کے پاس تھا تو خود انہوں نے اقلیتوں کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے؟

ممتا بنرجی کا عروج 27 فیصد مسلم ووٹروں کی مرہون منت ہے۔ 2004 کے لوک سبھا اور 2006 کے اسمبلی انتخاب میں مسلمان ممتا بنرجی کے ساتھ نہیں تھے اس لیے انہیں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2021 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ہندو ووٹروں کو پولرائزیشن کرنے کی کوشش کی تو ریاست کے 27 فیصد مسلم ووٹرس بھی پولرائز ہوگئے جس کی وجہ سے کانگریس اور سی پی ایم کا مکمل صفایا ہو گیا اور وہ ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہے۔ اگر 2021 میں مسلم ووٹ بکھر جاتے تو تیسری مرتبہ ممتا بنرجی کی واپسی ناممکن تھی۔ بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور پولرائزیشن کے خوف سے 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے انتخابی منشور میں صرف دو جگہ اقلیت کا ذکر محض دو سطروں میں کیا گیا تھا۔ مسلمان کا لفظ غائب تھا۔ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے انتخابی منشور میں 88 مرتبہ اقلیت کا لفظ لکھا گیا تھا جبکہ 6 جگہوں پر مسلمان کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ 2014 میں وزیرا عظم نریندر مودی اور بھگوا سیاست کے عروج کے رد عمل میں انہوں نے نہ صرف مسلمانوں سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ نرم ہندوتوا اور بی جے پی سے بڑھ کر خود کو ہندوتوادی ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ بات واضح لفظوں میں دہرائی کہ انہیں بی جے پی اور اس کی پالیسیوں سے کوئی مسئلہ ہے۔ انہیں آر ایس ایس سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے، آر ایس ایس میں اچھے لوگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ممتا بنرجی کی اس سوچ کو بھولا پن ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ آر ایس ایس کو اچھا کہنا اور بی جے پی کو برا کہنا فضول سی بات ہے۔

اس درمیان کئی ایسی رپورٹیں آئیں جن میں کہا گیا کہ ممتا بنرجی کے 12 سالہ اقتدار میں بنگال کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے 17 سال بعد بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی شرح نمائندگی محض 5 فیصد ہے جبکہ 10ویں تک اسکولوں میں مسلم طلبا کی نمائندگی یکساں ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ 10ویں جماعت کے بعد مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے مسلم علاقوں میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دس سالوں میں اگر بنگال کے جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو جیلوں میں مرحلہ وار مسلم قیدیوں کی تعداد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ نیشنل کرائم بیورو کے مطابق دسمبر 2010 میں مسلم قیدیوں کی تعداد 5722 تھی جو دسمبر 2011 میں اضافہ ہو کر 6174 ہو گئی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ 2022 کے مطابق آسام کے بعد بنگال کی جیلوں میں سب سے زیادہ مسلم قیدی ہیں۔ بنگال میں نظر بند قیدیوں کی تعداد 78.5 فیصد ہے، 33 فیصد مسلم قیدی زیر سماعت ہیں جبکہ سزا یافتہ قیدی 43.5 فیصد ہیں۔ واضح رہے کہ بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 28 فیصد ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب ملک کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد میں 1.5 فیصد کی کمی آئی ہے۔ 2021 میں ملک بھر کے جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد20.2 فیصد تھی جو 2022 میں گھٹ کر 18.7 فیصد ہوئی ہے۔

جدید ٹکنالوجی کی دنیا میں صداقت اور حقائق کو زیادہ دنوں تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ آر ایس ایس کے تئیں ممتا بنرجی کے جھکاؤ، نرم ہندوتوا کی سیاست، ہندوتوا پر مبنی بنگالی ثقافت و کلچر کو فروغ دینے کی کوششوں کی وجہ سے بنگالی مسلمانوں میں بیزاری پیدا ہونے لگی تھی۔ 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد سابق بائیں محاذ حکومت نے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کے تدارک کے لیے دو سو سالہ قدیم مدرسہ عالیہ کو 2007 میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے اسمبلی سے بل پاس کیا گیا۔ حکومت نے جلد سے جلد زمینیں الاٹ کیں اور تعمیری کام شروع کیا۔ ممتا بنرجی نے اقتدار میں آنے کے بعد عالیہ یونیورسٹی کو ووٹ بینک کا ذریعہ بنایا، اپنے سیاسی پروگراموں میں عالیہ یونیورسٹی کا ذکر اس طرح کیا گویا انہی کے دور اقتدار میں یہ یونیورسٹی بنائی گئی۔ بائیں محاذ کے دور حکومت میں قدیم کیمپس کے علاوہ تین مزید کیمپس بننے والے تھے مگر ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں تیسرے کیمپس کے معاملے کو خاموشی سے دبا دیا گیا پھر بھی راجر ہاٹ اور پارک سرکس میں دو کیمپس تیار ہو گئے۔ عالیہ یونیورسٹی کے قیام کو 17سال سے زائد عرصہ گزر گیا اور وہ اس وقت شدید بحرانی دور سے گزر رہی ہے۔ نہ نئے شعبے قائم ہو رہے ہیں اور نہ ہی تعلیمی معیار میں بہتری آئی ہے، 6 مہینے سے زائد عرصے سے کارگزار وائس چانسلر کے ذریعہ کام چلایا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کارگزار وائس چانسلر تعلیمی اعتبار سے کسی بھی طرح وائس چانسلر کے عہدہ کے لائق نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے فنڈ میں بدعنوانی اور کرپشن کے بھی معاملات ہیں۔ کمیٹیوں کی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ عالیہ یونیورسٹی کا بحران اس قدر شدید ہوگیا ہے کہ اس کی بربادی کا قصہ اب بنگال کے عوام میں زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے۔

رخصت پذیر ریاستی وزیر اقلیتی امور غلام ربانی جن کے محکمے کے تحت یہ یونیورسٹی کام کر رہی تھی وہ اس بحران کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم ممتا بنرجی کے پاس بھی جب اس محکمے کا چارج تھا اس وقت بھی عالیہ یونیورسٹی بحران کی زد میں تھی۔ عالیہ یونیورسٹی کے بعد قائم ہونے والی یونیورسٹیاں تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے آج عالیہ یونیورسٹی سے کہیں آگے ہیں۔
بائیں محاذ حکومت نے رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کی بعض برادریوں کو او بی سی کے تحت شامل کرکے سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ممتا بنرجی نے اقتدار میں آنے کے بعد اس کوٹے کو 15 فیصد تک کر دیا اور اعلیٰ تعلیم میں ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا مگر ماہرین بتاتے ہیں کہ بنگال کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دس سال گزر جانے کے باوجود بیشتر اعلیٰ تعلیمی ادارے ریزرویشن پالیسی پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور ایسے اداروں پر کارروائی بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس سال صرف جادو پور یونیورسٹی میں 126 طلبا کا آرٹس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے لیے انتخاب ہوا جس میں محض تین مسلم امیدوار شامل ہیں۔ ریاست کی معیاری یونیورسٹیوں میں مسلم طلبا کی تعداد 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگرچہ ممتا بنرجی دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے سچر کمیٹی کی 90 فیصد سفارشات پر عمل کیا ہے مگر آج بھی مسلم اکثریتی علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی ادارے کم ہیں اور ڈراپ آؤٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

ویسے تو 2017 کے بعد سے ہی ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن 2021 کے بعد، بالخصوص 2022 میں پہلے طلبا لیڈر انیس خان کا پولیس کے ہاتھوں مبینہ قتل، اس کے بعد ترنمول کانگریس کی گروپ بندی کی وجہ سے بیربھوم کے رام پور ہاٹ میں دس سے زائد مسلمانوں کا قتل عام، جیلوں میں مسلم نوجوان کی مشتبہ حالت میں موت اور اس سال بنگال کی اسمبلی میں غیر ترنمول کانگریس اور غیر بی جے پی واحد رکن اسمبلی اور آئی ایس ایف کے سربراہ نوشاد صدیقی کو صرف احتجاج کرنے کی پاداش میں ایک مہینے سے زائد عرصے تک جیل میں بند کرنے کی وجہ سے ترنمول کانگریس کے تئیں مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہو گئی ہے ۔

گزشتہ سال اپریل میں بالی گنج اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں سی پی آئی ایم کے امیدوار سائرہ شاہ حلیم نے 30 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ بالی گنج سے ترنمول کانگریس نے آسنسول فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے سابق مرکزی وزیر بابل سپریہ کو امیدوار بنایا تھا۔ اگرچہ وہ جیتنے میں کامیاب ہوگئے لیکن 2021 کے اسمبلی انتخاب میں ترنمول کانگریس کے امیدوار سبرتو مکھرجی نے 70 فیصد ووٹ حاصل کیے مگر سائرہ شاہ حلیم مسلم ووٹ میں سیندھ لگانے میں کامیاب رہیں۔ ضلع مرشد آباد کی ساگردیگھی اسمبلی سیٹ، جس پر حالیہ ضمنی انتخاب ہوا تھا، 2011 سے ترنمول کانگریس کے سبرتو ساہا نمائندگی کر رہے تھے، 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کو 50 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے یہ سیٹ حاصل ہوئی تھی لیکن ساہا کی موت کے بعد ہوئے ضمنی
انتخاب میں کانگریس کے بیرن بسواس (یہ مسلم نام ہے) نے ترنمول کانگریس کے امیدوار کو 22 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ بی جے پی کا امیدوار تیسری پوزیشن پر رہا۔ 2021 کے اسمبلی انتخاب میں ترنمول کانگریس نے ضلع مرشد آباد کے 22 میں سے 20 حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 15 مسلم قانون سازوں میں سے کوئی بھی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی کابینہ میں شامل نہیں ہے۔ مزید برآں ذاکر حسین کو، جو گزشتہ انتظامیہ میں وزیر تھے، 2021 کے الیکشن میں 92 ہزار ووٹوں کے بھاری فرق سے جنگی پور سیٹ جیتنے کے باوجود وزارت میں شامل نہیں کیا گیا۔

ساگردیگھی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں ترنمول کانگریس ہائی کمان نے ایک غیر معروف برہمن امیدوار دیباشیش بنرجی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا لیکن وہ مرشد آباد میں کانگریس کے بسواس کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ پارٹی کا ایک بڑا حصہ یہ مانتا ہے کہ دیباشش بنرجی کی شکست گروپ بندی کا نتیجہ ہے، تاہم پارٹی کا ایک بڑا حلقہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ نوشاد صدیقی کی گرفتاری، مسلم مسائل کے ایشو سے چشم پوشی اور مرشدآباد میں بڑھتی بے روزگاری کے سبب پیدا ہونے والی ناراضگی کی وجہ سے بھی یہ شکست ہوئی ہے۔ ترنمول کانگریس کے لیے صرف یہ چیلنج نہیں ہے کہ مسلمانوں کی حمایت کم ہوئی ہے اساتذہ کی تقرری میں گھوٹالہ کی وجہ سے بھی ترنمول کانگریس بیک فٹ پر ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو 2019 اور 2020 کے درمیان سرکاری اور امدادی اسکولوں میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی میں رشوت کے الزامات سمیت بے ضابطگیوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بھرتی گھوٹالہ اور اس معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ کی ریاستی حکومت کی سرزنش سرخیوں میں رہی ہے۔ ہاؤسنگ اسکیم پردھان منتری آواس یوجنا کی فہرست میں بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ کوئلے کی اسمگلنگ کے الزامات بھی ترنمول کانگریس پر لگے ہوئے ہیں۔

بی جے پی نے 2019 اور 2021 میں ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی مسلم مخالف جارحانہ پالیسی اختیار کی تھی مگر 2021 کے اسمبلی انتخابات میں این آر سی، شہریت ترمیمی ایکٹ اور مسلم مخالف بیانات کے باوجود بی جے پی کا بنگال میں اقتدار میں آنے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ بنگال میں بی جے پی نے اپنا طریقہ تبدیل کر لیا ہے۔ تقسیم کی سیاست اور مذہبی مسائل کے بجائے بی جے پی بھرتی گھوٹالہ اور ترنمول کانگریس کے خلاف گائے اور کوئلے کی اسمگلنگ کے الزامات کو ہی آگے بڑھا رہی ہے اس نے ’’جئے شری رام‘‘ کے نعروں کے بارے میں اپنی بیان بازی کو بھی کم کر دیا ہے۔ 2021 کے انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے مسلمانوں سے متعلق معتدلانہ رویہ اور حالیہ دنوں میں سی پی آئی ایم اور کانگریس کی بہتر کارکردگی نے مسلمانوں میں خوف کم کر دیا تھا۔

2011 سے اب تک 32 اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے جن میں ترنمول کانگریس نے 24 میں کامیابی حاصل کی۔ پارٹی نے جن آٹھ ضمنی انتخابات میں شکست کھائی ان میں سے ایک 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران اور پانچ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران ہوئے تھے۔ دیگر دو ضمنی انتخابات جن میں پارٹی ہار گئی تھی 2014 میں بشیرہاٹ جنوب (بی جے پی نے جیتی تھی) اور اس سال ساگردیگھی میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ترنمول کانگریس نے 2011 سے لے کر اب تک پارلیمانی حلقوں کے لیے ہونے والے سات میں سے چھ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 2012 میں جنگی پور پارلیمانی حلقے میں ضمنی انتخاب میں پارٹی نے سابق صدر کے بیٹے ابھیجیت مکھرجی کے خلاف کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا تھا۔

جبکہ پنچایت انتخابات جلد ہونے کی توقع ہے اگر مسلم حلقوں میں ناراضگی بدستور برقرار رہی تو پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس کا راست اثر 2024 کے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑے گا، اس لیے ممتا بنرجی جنہوں نے گزشتہ 6 سالوں میں مسلم مسائل اور ایشوز پر بات کرنا چھوڑ دیا تھا وہ اب کھل کر مسلمانوں کی ناراضگی کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ممتا بنرجی نے اقلیتی بورڈ بھی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے مگر اقلیتی بورڈ کا دائرہ کار کیا ہوگا اور اس کے تحت کام کیسے کیا جائے گا ؟ یہ واضح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممتا بنرجی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں؟ مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس وقت ممتا بنرجی جو کچھ کر رہی ہیں وہ صرف انتخابات جیتنے کے لیے کر رہی ہیں۔ اگر انہیں مسلمانوں کے مسائل اور پسماندگی کے خاتمے کی فکر ہوتی تو اس کے لیے سنجیدہ کوشش کرتیں مگر ان کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین