Friday, December 13, 2024
homeدنیااسرائیل کا اندرونی خلفشار۔نزلہ فلسطینیوں پر

اسرائیل کا اندرونی خلفشار۔نزلہ فلسطینیوں پر

مسعود ابدالی

غربِ اردن کے شمالی حصے سے خالی کی جانیوالی چار بستیوں میں اسرائیلیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور رہائش کی اجازت دے دی گئی
اسرائیل میں جاری بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے اگرچہ متنازعہ ’عدلیہ اصلاحات‘ یا Judicial Overhaul بل پر رائے شماری معطل کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن مجوزہ قانون کے حامیوں اور مخالفین کے پر تشدد مظاہرے جاری ہیں۔ یکم اپریل کو تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے دھرنا دیا اور غم و غصے کے اظہار کے لیے مشعلیں لہرائی گئیں۔

گزشتہ برس 29 دسمبر کو بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی اسرائیلی حکومت کئی اعتبار سے منفرد تھی۔ پہلی بات کہ یہ اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند بلکہ متعصب ترین حکومت ہے۔ ویسے تو 1948 میں جبری قبضے کے بعد سے برسر اقتدار آنے والی کسی بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے بارے میں اپنے متعصبانہ جذبات پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن موجودہ حکومت میں ربائی (مذہبی پیشوا) اور جنگجو رہنماوں کی جتنی بڑی تعداد شامل ہے اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ سب سے اہم بات کہ وزیر اعظم سمیت کابینہ کے کئی ارکان زیر تفتیش ہیں اور بی بی پر مالی بے ضابطگیوں اور بد دیانتی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیر خزانہ بیزلل سموٹرچ کے خلاف نقص امن کے پرچے کٹ چکے ہیں۔

معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سابق نائب وزیر اعظم اریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بنا پر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک ’مجرم‘ وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ ’جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیر بننے میں کیا قباحت ہے‘ تاہم عدالت عظمیٰ کے حکم پر اس سال جنوری میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ مراقشی نژاد مخلوف درعی پاسداران توریت پارٹی (عبرانی مخفف شاس) کے سربراہ ہیں۔ موجودہ کنیسہ (پارلیمان) میں شاس کی 11 نشستیں ہیں اور اپنے پارلیمانی حجم کے اعتبار سے یہ حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ عدالتی حکم پر مجبور ہو کر بی بی نے مخلوف صاحب کو برطرف تو کر دیا لیکن انہیں کابینہ کے ہر اجلاس میں ’خصوصی دعوت‘ پر بطور مبصر بلایا جاتا ہے۔ مجرم اور زیر تفتیش و مقدمہ افراد کی کابینہ میں موجودگی کی بنا پر حزب اختلاف کے ارکان کنیسہ کے اجلاسوں میں بی بی کو مسٹر کرائم منسٹر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

اپنے اور وزرا کے خلاف مقدمات اور شکایتی پرچوں سے تحفظ کے لیے عدالتی اصلاحات کو بل ترتیب دیا گیا۔ بی بی اور ان کے قدامت پسند اتحادیوں کو شکایت تھی کہ لبرل جج نئی حکومت کے قدامت پسند ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ معبدوں میں اختلاط مرد وزن کا مکمل سد باب، سرکاری ضیافتوں میں غیر KOSHER (حلال) غذائی اجزا پر پابندی اس ایجنڈے کے دو سب سے اہم نکات ہیں۔ ماضی میں عدالتیں اس قسم کی پابندیوں کو غیر ضروری و ماورائے دستور قرار دے چکی ہیں۔ اسی کے ساتھ شاس پارٹی، متحدہ توریت پارٹی، خوشنودیِ رب پارٹی، جماعتِ دینِ صیہون اور عظمتِ یہود جماعت نے اسرائیلی معاشرے سے ہم جنس پرستی (LGBT) کے مکمل استیصال کو انتخابی منشور بنایا تھا۔ لیکن عدالتی مداخلت سے قبل ہی بی بی نے اسپیکر کے لیے عامر اوہانہ (Amir Ohana) کو امیدوار نامزد کر کے نفاذِ تلمود (یہود شریعت) کے غبارے میں سوئی چبھو دی ہے۔ عامر اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں جنہوں نے ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے۔ جب رائے شماری کا وقت آیا تو خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ اوی معوذ صاحب نے بھی بے شرمی سے عامر کے حق میں ہاتھ اٹھا دیا۔ جناب معوذ نے انتخابی مہم کے دوران حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ 2023 کی LGBT پریڈ انکی لاش پر ہو گی۔ خبر ہے کہ اسپیکر صاحب اس بار پریڈ کی قیادت کریں گے۔

کئی درجن صفحات پر مشتمل اس مسودہ قانون میں اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک شق یہ بھی ہے کہ کنیسہ واضح اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہو گا جس کی حتمی منظوری وزارت انصاف دے گی۔ چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی کے بجائے وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوگا جس کی کنیسہ سے توثیق لازمی ہے اور یہاں بھی واضح اکثریت کافی ہے۔

بل کے سامنے آتے ہی حزب اختلاف اور عام لوگوں میں اشتعال پھیلا اور ملک کے طول و عرض میں ہنگامے شروع ہوگئے، لاکھوں لوگوں نے چوراہوں اور سڑکوں پر دھرنا دیا اور جب 9 مارچ کو بی بی سرکاری دورے پر روم روانہ ہوئے تو انہیں تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پہنچنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑا۔

سیاسی کارکنوں، طلبہ اور مزدروں کے ساتھ فوج بھی عدالتی اصلاحات کے خلاف کھل کر سامنے آئی۔ اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد محفوظ یا Reserve دستوں پر مشتمل ہے جنہیں بوقت ضرورت طلب کرلیا جاتا ہے۔نصف سے زیادہ ریزرو سپاہیوں نے اپنے سپہ سالار کو تحریری طور پر مطلع کر دیا کہ وہ عدلیہ کے پر تراشنے کی حکومتی کوِششوں پر سخت پریشان ہیں۔ اسی دوران ایک فلسطینی کی مبینہ فائرنگ سے دو اسرائیلی ہلاک ہوگئے جس پر وزیر خزانہ اسموٹرچ نے بیان دیا کہ فلسطینی آبادیوں کو فوج کے ذریعے مٹا دینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل فوج 1948 سے یہی کر رہی ہے لیکن وزیر با تدبیر کے اس کھلم کھلا اعلان سے فوجی افسروں میں تشویش پھیل گئی۔ فضائیہ میں زیادہ بے چینی تھی اور بہت سے پائلٹوں نے فوج چھوڑنے کا عندیہ دے دیا۔ موقر ٹیلی ویژن چینل 12 کے مطابق کئی درجن پائلٹوں نے فضائیہ کے سربراہ جنرل ثمر بار (Tomer Bar) سے ملاقات میں کہا کہ وزیر خزانہ کھلے عام فلسطینی شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کر رہے ہیں اور یہ کام وہ سرکاری حکم کے تحت فوج سے کروانا چاہتے ہیں۔ ان پائلٹوں کا کہنا ہے کہ ایسے احکامات پر عملدرآمد کی صورت میں اسرائیلی فوجی ذاتی حیثیت میں ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں اور ان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ خارج از امکان نہیں ہے۔ پائلٹوں نے فوج کے سربراہ کو بتایا کہ اس تناظر میں ان کے لیے فوج سے علیحدگی ہی ایک بہتر فیصلہ ہوگا۔ روزنامہ الارض( Haaretz) کے مطابق بمبار طیارے کی مشہور تدبیراتی وحدت (اسکواڈرن) کے 40 میں سے 37 ریزرو Reserve پائلٹوں نے معمول کی تربیت پر آنے سے بطور احتجاج انکار کردیا۔ جدید ترین F 151 بمباروں پر مشتمل یہ وحدت ہتھوڑے کے نام سے مشہور ہے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ارضی حلوی Herzi Halevi نے اس صورتحال سے وزیر دفاع یووار گلانٹ (Yoav Gallant) کو مطلع کیا جنہوں نے وزیر اعظم سے خصوصی ملاقات میں انہیں بتایا کہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اگر ریزرو سپاہیوں کی ناراضگی دور نہ کی گئی تو ملک کا دفاع خطرے میں پڑ سکتا ہے۔وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ کنیسہ میں رائے شماری کے دوران وہ بل کی مخالفت میں ووٹ دیں گے۔وزیر دفاع کے اس بیان پر بی بی کے قدامت پسند اتحادی آپے سے باہر ہو گئے جن کے خیال میں یہ کھلی بغاوت تھی چنانچہ بی بی نے جناب گلانٹ کو برطرف کر دیا۔
فلسطینی اس تحریک میں غیر جانب دار ہیں۔ رملہ بار نے صاف صاف کہا کہ انہیں ’ریاست 1948‘ سے انصاف کی کوئی توقع ہے ہی نہیں لہذا عدالتی اصلاحات کا شوشہ ہمارے لیے ایک مہمل چیز ہے۔ فلسطینی اپنے سرکاری بیانات میں نام لینے کے بجائے اسرائیل کو ریاست 1948 کہتے ہیں۔ بار نے ثبوت کے طور پر اسرائیلی جریدے الارض (Haaretz) میں شائع ہونے والی وہ رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں 971 فلسطینی ایسے ہیں جنہیں مجسٹریٹ کے روبرو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ دس پندرہ سال سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اخوانی فکر سے وابستہ رعم کے سربراہ منصور عباس نے کہا کہ ان کی جماعت کنیسہ میں اس بل کے خلاف ووٹ تو دے گی لیکن عرب باشندے سڑکوں پر نہیں آئیں گے کہ کیا لبرل اور کیا قوم پرست و قدامت پسند تمام اسرائیلی جماعتیں فلسطینیوں کے معاملے میں یکساں رویہ رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود بل کے حامیوں نے مظاہرے کے دوران فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتے یروشلم میں پٹرول پمپ پر اپنی گاڑی میں پٹرول بھرتے ایک فلسطینی ٹیکسی ڈرائیور کو پولیس کے سامنے بری طرح پیٹا گیا اور اس کی گاڑی کے شیشے چکنا چور کر دیے گئے۔

رمضان کے دوسرے جمعہ کو پولیس نے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والی ایک خاتون سے دست درازی کی کوشش کی جس پر محمد خالد العصیبی نے سپاییوں کو روکا جواب میں پولیس نے العصیبی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ حال ہی میں رومانیہ سے طب کی تعلیم مکمل کرنے والے اس 26 سالہ ڈاکٹر کو کم از کم 10 گولیاں لگیں۔ دوسرے دن اسی علاقے میں 24 سالہ محمد رئید برادیہ کو گولی ماردی گئی۔ فوجیوں نے ایمبولینس کا راستہ روک لیا اور خون بہہ جانے کی بنا پر بردایہ نے وہیں سڑک پر دم توڑ دیا۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی یعنی 31 مارچ تک 90 دنوں میں 92 فلسطینی فوج اور پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
اسی دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کنیسہ نے ایک مسودہ قانون منظور کرلیا جس کے تحت 2005 کا ’دستبرداریِ غزہ قانون ‘ (Gaza Disengagement Law) منسوخ کرکے غربِ اردن کے شمالی حصے سے خالی کی جانے والی چار بستیوں میں اسرائیلیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے ۔غزہ میں فلسطینیوں کے ہاتھوں بھاری نقصان کے بعد معاہدہ امن کی ایک شرط کے طور پر کنیسہ نے یہ قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اسرائیل نے غزہ میں اپنی تعمیر کردہ 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور شہری واپس بلا لیے تھے۔ اسی کے ساتھ مغربی کنارے کے شمالی حصے (جنین) میں تعمیر کی گئی چار بستیاں صنور، خومش، غنیم اور قدیم بھی مسمار کردی گئیں اور ان بستیوں میں اسرائیلیوں کے جانے پر پابندی لگادی گئی۔ اب نئے بل کے ذریعے 2005 کا دستبرداری بل منسوخ کر کے مغربی کنارے کے شمالی حصے کی مسمار کی جانے والی چاروں بستیوں کو اسرائیلیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ فلسطینی اس قدم پر سخت مشتعل ہیں، ان کو اندیشہ ہے کہ اسرائیل کا اگلا قدم غزہ پر قبضہ ہوگا۔ حسب توقع امریکہ کو اس پر ’شدید تشویش‘ ہے۔ جب واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سفارتی گوشمالی کی گئی تو وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دستبرداری معاہدے کی منسوخی کے باوجود دریائے اردن کے شمال مغربی کنارے پر نئی بستیاں نہیں تعمیر کی جائیں گی۔ بادی النظر میں یہ ’وعدہ‘ اطمینان بخش ہے لیکن جب ایک معاہدہ بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ ہوسکتا ہے تو زبانی یقین دہانی کی کیا حیثیت؟ عدالتی اصلاحات پر بی بی سے نالاں حزب اختلاف نے دستبراداریِ غزہ قانون کی منسوخی کے لیے حکومتی قرارداد کی حمایت کی۔
پر تشدد کارروائیوں کے شکار صرف فلسطینی نہیں بلکہ یروشلم کے مسیحی بھی انتہا پسند اسرائیلیوں کے حملوں کا ہدف ہیں۔ دو ہفتہ قبل یروشلم میں حضرت مریمؑ کے مبینہ مزار سے متصل گرجا میں اسقفِ اعظم (Archbishop) جوشیم پر اس وقت حملے کی کوشش کی کئی جب وہ خطبہ دے ریے تھے۔ ان غنڈوں نے وہاں موجود پادریوں کو بھی دھمکایا۔ یونانی تقلید پسند (Greek Orthodox) گرجا نے ایام صوم (Lent) کے دوران گرجا پر حملے، مقدس مقامات کی بے حرمتی اور پر امن عبادت گزاروں کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی۔ بیان میں کہا گیا ہے اسرائیلی انتہا پسندوں کی جانب سے گرجا گھروں، مسیحی قبرستانوں اور مذہبی مقامات پر حملے روز کا معمول بنے ہوئے ہیں اور مقدس ایام و تہوار کے دوران ان میں شدت آجاتی ہے۔ مسیحیوں کے ایام صوم کا اختتام 6 اپریل کو ہوا جس کے بعد اتوار کو عیدِ ایسٹر منائی جائے گی۔
مسلمان بھی اس دوران رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں۔ گیارہ اپریل سے آخری عشرے کا آغاز ہو گا۔ فلسطینی اس دوران زیادہ وقت مسجد اقصیٰ میں گزارتے ہیں۔ بد قسمتی سے رمضان کا آخری عشرہ فلسطینیوں پر بڑا بھاری گزرتا ہے اور اس بار معاملہ کچھ زیادہ خراب لگ رہا ہے۔ عوامی و عسکری دباو پر بی بی عدالتی اصلاحات کا بل منظور نہیں کرواسکے اور کھسیانی بلی اب بے یار و مددگار فلسطینیوں کو نوچنے اور کاٹنے کی کوشش میں ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
masood_abdali@hotmail.com

متعلقہ خبریں

تازہ ترین