(انصاف نیوز آن لائن)
7اکتوبر کو جمعہ کی نماز سے قبل مسجد ناخدا کے نائب امام قاری شفیق نے سیرت نبوی کے موضوع پر خطاب کیا، خطاب کے اختتام پر انہوں نے مسجد کی کمیٹی سے متعلق دعویٰ کیا کہ مسجد کے متولیان مسجد میں سیرت کے موضوع پر خطاب کرنے سے روک رہے ہیں۔یہ دعویٰ جمعہ کی نماز سے قبل کیا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں ہے۔اگر یہ حقیقت ہے تو پھر مسجد کے متولیوں کے خلاف کارروائی کیو ں نہیں ہونی چاہیے۔۔مگر سوال یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں سچ کون بول رہا ہے۔؟۔کیا قاری شفیق کے دعوے درست ہیں یا پھر وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
نائب امام قاری شفیق نے اپنی تقریر کے اختتام پر پہلا یہ دعویٰ کیا کہ
خطبہ کا وقت ہونے کے بعد اگر تقریر کی جاتی ہے تو مسجد کے متولی کے ذریعہ نوٹس بھیج دی جاتی ہے۔
اس کے بعد وہ ودعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد ناخدا میں اللہ او اس کے رسول کا پیغام سنانے پر پابندی عائد ہے۔
اس کے بعد وہ چیلنج کرتے ہیں کہ مسجد کے متولیوں کی پابندی کے باوجود وہ اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کو عام کرتے رہیں گے اگر ان کے خلاف زیادتی ہوتی ہے تو پھر وہ قیامت کے دن ان کا دامن پکڑیں گے۔۔
ظاہرہے کہ یہ سنگین الزام ہے۔۔۔۔۔اس کی حقیقت جاننے کیلئے انصاف نیوز آن لائن نے مسجد کے متولی اقبال عبد اللہ کو فون کرکے سوال کیا کہ اللہ کے گھر میں وہ قرآن اور حدیث کے پیغام کو عام کرنے سے کیوں روک رہے ہیں؟ کیا مسجد ناخد ا میں قرآن و سیرت کے موضوع پر تقریر کرنے پر پابندی عائد ہے؟
اقبال عبد اللہ نے نائب امام قاری شفیق پر مسجد کے منبر سے جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کی نماز کے خطبہ کا وقت متعین ہے اور وقت تقریر ختم کرنا مسجد ناخدا ہی کیا ملک کے ہر مسجد کے امام پر لازمی ہے۔
جہاں تک وکیل کے ذریعہ نوٹس دئے جانے کی بعد ہے تو قاری شفیق مسجد کے منبر کا ذاتی اور سیاسی استعمال کرتے رہے ہیں۔وہ مسلسل مسجد کے منبر سے متولیوں کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔۔اس لئے مسجد کے متولیوں نے خلفشار سے بچنے کیلئے انہیں نوٹس دیا تھا کہ وہ متنازع اور جھوٹ بولنے کیلئے مسجد کے منبر کا استعمال نہ کریں۔۔۔
امام اور مسجد کے متولی کے متضاد دعوے ہیں۔۔ظاہر ہے کہ ان میں سچ کون بول رہا ہے اور کون جھوٹ اس کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔۔۔تاہم گزشتہ چند مہینوں میں قاری شفیق نے جس طریقے سے موقف کو بدلا ہے اور متصاد دعوے کئے ہیں۔اس کی وجہ سے وہ سوالوں کے گھیرے میں آتے ہیں۔۔۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 30رمضان کو فجرکی نماز میں مسجد کے موذن عبدا لعزیز پر مائیک پھینک کر حملہ نہیں کیا جب کہ بیشتر نمازیوں نے بتایا کہ قاری شفیق نے نہ صرف موذن پر حملہ کیا بلکہ ان کے بیٹے اور بھتیجوں نے گالیاں بھی دیں۔۔
اسی طرح گزشتہ مہینے جمعہ کی نماز سے قبل مسجد کے موذن حافظ ریاض اور متولی اقبال عبد اللہ پر ایک بھیڑ نے حملہ کیا۔۔قاری شفیق نے دعویٰ کیا کہ معمولی واقعہ ہوا تھا اور کسی پر حملہ نہیں ہوا۔مگر مسجد کے سی سی ٹی وی کے فوٹیج سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اور ان کے بیٹے، بھتیجے اور ان کے دوست احباب حملے میں شامل تھے۔
مسجد کاغلط استعمال کا ان پر مسلسل الزام لگتے رہے ہیں۔انصاف نیوز کو چند ایسے ویڈیوز اور تصاویر فراہم ہوئے ہیں جس میں قاری شفیق کے بیٹے اور بھتیجے اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد کے تقدس کی پرواہ کئے بغیر سیلفی لیتے رہے ہیں۔مسجد کے آس پاس کے لوگ بتاتے ہیں کہ عصراور مغرب کی نماز کے بعد امام صاحب اپنے سیاسی دوستوں کے ساتھ مسجد ک صحن میں کرسیاں لگاکر خوش گپیاں کرتے ہیں۔۔۔