Saturday, July 27, 2024
homeتجزیہہوڑہ اور ہگلی میں دنگائیوں کے سامنے ممتا بنرجی کی پولس کی...

ہوڑہ اور ہگلی میں دنگائیوں کے سامنے ممتا بنرجی کی پولس کی سپردگی۔۔ قومی نیوز چینل آج تک غلط رپورٹنگ پر حکومت خاموش۔۔کیا ہوڑہ اور ہگلی کے رشڑا میں تشدد کے واقعات کے ذریعہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے

فرحانہ فردوس

مغربی بنگال میں رام نومی کے موقع پر ہوڑہ اور ہگلی کے رشڑا میں تشدد کے واقعات نے یہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت اور پولس انتظامیہ کے سامنے بےبس رہی ۔رام نومی کے موقع پر گزشتہ کئی سالوں سے فرقہ ورانہ تشدد اور جھڑ پ کے واقعات ہوتے رہے ہیں اس کے باوجود ریاستی سیکریٹریٹ نوبنو سے محض چند میٹر کی دوری پر فرقہ وارانہ فسادات اگر رونما ہوتے ہیں تو حکومت اس کی جواب دہی سے نہیں بچ سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو اندیشہ تھا کہ ہوڑہ اور دیگر علاقے میں حالات خراب ہوسکتے ہیں تو پھر رام نومی کے جلوس کے موقع پر سیکورٹی کے پختہ انتظامات کیوں نہیں ککئے گئے تھے؟ممتا بنرجی اس بات پر زور صرف کررہی ہے کہ بی جے پی نے دنگا کرانے کےلئے باہر سے لوگوں کو جمع کیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ جب باہر سے لوگ لائے جارہے تھے اس وقت بنگال کی خفیہ ایجنسیاں سورہی تھی۔تاہم ہوڑہ اور ہگلی میں جوواقعات ہوئے ہیں اس کو فرقہ وارانہ فسادات نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ اس کےلئے تشدد اور جھڑپ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔مگر قومی میڈیا کی غلط رپورٹنگ نے ہیجا ن پیدا کردیا اور اس کی وجہ سے ریاست کے دوسرے حصوں میں بھی تنائو کا ماحول پید ہوگیا۔


ہندی نیوز چینل آج تک نے سب سے زیادہ غلط رپورٹنگ کی اور بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے فسادات کےلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔بریکنگ نیوز چلائی کہ مسلمانوں کی جانب سے شوبھا یاتر پر پتھر برسائے گئے جب کہ پولس بھی اس بات کو تسلیم کررہی ہے اشتعال انگیزی ، پتھر بازی اور نعرہ بازی جلوس کی طرف سے ہوئے ۔بڑی تعداد میں مسلمانوں ی دوکانوں کو جلایا گیا۔ایسے میں سوال ہے کہ کیا حکومت ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی۔

آر ٹی آئی کارکن اور سماجی محقق بسوناتھ گوسوامی کے مطابق ہوڑہ سٹی پولیس نے صرف 18 مہینوں میں فسادات کے 59 مقدمات درج کیے (2021 میں 36، 2022 میں 23)۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ ہوڑہ فسادا ت جان بوجھ کر منصوبہ بند تھا یہ صرف انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں تھی بلکہ سیاسی فائدہ کےلئے کرایا گیا فساد ہے۔ہوڑہ تشدد کو لے کر ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان جس طریقےسے بیان بازی ہورہی ہے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے اس سےکم سے کم یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس تشدد کے پیچھے سیاسی عزائم کار فرما ہیں ۔ اور دونوں جماعتیں اور پولس اس بات پر متفق ہیں کہ کچھ باہری عناصر کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ ان عناصر سے متعلق خفیہ ایجنسیاں ناکام کیوں رہی۔2021 اسمبلی انتخابات میں اقتدار تک پہنچنے میں ناکام رہنے والی بی جے پی بنگال کی سیاست میں بتدریج حاشیہ پر پہنچ رہی تھی ۔ہوڑہ اور ہگلی کے چند علاقوں میں ہوئے تشدد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو ’’ہندو خطرے ‘‘میںہے جیسے نعرے کےذریعہ پولرائزیشن کا موقع مل گیا ہے۔پنچایت انتخابات سے قبل یہ واقعہ رونماہونا اس کےلئے کسی بھی سنجیونی سے کم نہیں ہے۔تاہم مرشدآباد کے ساگر دیگھی ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد سے ممتا بنرجی مسلم ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ترنمول کانگریس کو یہ احساس ہونے لگا تھاکہ مسلمانوں کا اعتماد ان سے ختم ہوتا جارہا ہے ۔اس کےلئے ممتا بنرجی نے حالیہ دنوں میں مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کےلئے کئی بیانات دئیے ہیں۔ایسے میں اس بات پر بھی بحث کی جارہی ہے کہ کیا یہ سب مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کاحصہ تو نہیں ہے۔تاہم کسی بھی فرقہ وارانہ تشدد کو اگر سیاسی نفع و نقصان کے پیمانے سے تولا جائے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی کی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ترنمول کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے تسلیم کیا کہ پارٹی اقلیتی ووٹوں کے کھسکنے کے بارے میں فکر مند ہے اس فسادات کے بعد یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ حکومت مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اقلیتیں بی جے پی سے خوفزدہ ہیں لیکن وہ ان فسادات سے بھی ڈرتی ہیں۔ اب اقلیتوں میں سے پڑھے لکھے طبقے کا کہنا ہے کہ سی پی آئی (ایم) کے دور حکومت میں اس طرح کے فسادات کبھی نہیں ہوئے۔ یہ خراب اشارے ہیں۔

متعینہ روٹ پر جلوس کیوں نہیں نکالا گیا

کلکتہ شہرسے محض چند کلو میٹر کی دوری پر واقع ہوڑہ کے شیپ پور کا یہ علاقہ ملی جلی آبادی ہے ۔یہاں پر جلوس کو لے کر پہلے بھی تنازع ہوگئے تھے ۔اس کے باوجود پولس انتظامیہ بھیڑ پر قابو پانے اور جلوس کےلئے متعین کی گئی روٹ پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی۔جلوس میں تلوار اور لاٹھی لے کر پہلے لوگ شامل ہوتے تھے مگر اس سال باضابطہ لوگوں کے ہاتھوں میں بندوق تھا ۔گرچہ پولس نے دو افرادکو بہار سے گرفتار کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر ان عناصر پر پہلے کیوں نہیں قابو پایا گیا۔جمعرات کی شام رام نومی کے موقع پر حالات خراب ہونے کے بعد بھی جمعہ کو سیکورٹی انتظامات سخت نہیں کئے گئے تھے۔اس کی وجہ سے دوسرے دن بھی جھڑپ ہوئی۔ہوڑہ سے متصل ہگلی ضلع کے رشڑا میں اتوار اور سوموار کو بڑے پیمانے پر تنائو اور دونوں جانب سے پتھر بازی ہوئی۔کلکتہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی ٹیلی گراف ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ’رام نومی کے دودن بعد جلوس نکالنے کی اجازت کیوں دی گئی ۔جب کہ ہوڑہ میں تشدد کے واقعات ہوچکے تھے۔دوسری بات یہ سامنے آئی ہے کہ اتوار کو دوپہر ایک بجے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی تھی اور امن کمیٹی کی میٹنگ میں طے کیا گیا تھا کہ جلوس میں ہتھیار لے کر کوئی بھی شریک نہیں ہوگا۔اس کے باوجود جلوس نکالنے میں چار گھنٹے کی تاخیر کی گئی ۔جلوس کے شرکا کےہاتھوں میں ہتھیار تھے۔رمضان کے مہینے میں مسجدوںمغرف کی نماز کے وقت بھیڑ ہوتی ہے۔رشڑا کی جامع مسجد کے پاس جلوس اس وقت پہنچا جب روزہ دار افطار کرنے کے بعد مسجد جارہے تھے۔یہاں پر جلوس کے شرکا نعرہ بازی کرنے لگے اور اسی درمیان بھیڑ میں سے کسی نے پتھر پھینک دیا۔چار دن گزرجانے کے باوجود پولس انتظامیہ یہ معلوم نہیں کرسکی ہے کہ چار گھنٹے کی تاخیر کی کوئی اتفاق تھا یا پھر یہ جان بوجھ کر مغرب کی نماز کے وقت جلوس نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔رشڑا کے مقامی ہندو بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ رام نومی کا جلوس نکالنے میں دو دن کی تاخیر کیوں کی گئی اور متعینہ وقت پر جلوس کیوں نہیں نکالا گیا ۔یہ صورت حال ہمارے لئے بالکل نئے ہیں ۔اس سے پہلے یہاں ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔رشڑا جامع مسجد کے آس پاس دوکانداراس جگہ نشان دہی کرتے ہیں کہ کس طرح اچانک جلوس کی طرف سے پتھر بازی ہونے لگی۔پتھر کے نشانات مسجد کی درودیوار پرصاف صاف نظر بھی آتے ہیں۔ ہوڑہ اور رشڑا میں زیادہ ترجن دوکانوں اور گاڑیوں کا نذرآتش کیا گیا ہے اس کے مالکان مسلمان ہیں ۔سب سےکے سب چھوٹے دوکاندار ہیں ۔رمضان میں یہ فساد ان کیلئے بڑی مصیبت لے کر آیا ہے۔

2011 تک، ریاست مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات شاذ و نادر ہوتے تھے۔ 2002 کےفرقہ وارانہ فسادات کے کئی متاثرین نے یہاںبسنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی ایک دو واقعات کو چھوڑ کر حالات پر امن تھے۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسواور ان کی پوری پارٹی میدان میں اترکر حالات کو پرامن بنانے کی کوشش کی تھی ۔سیاسی تجزیہ نگاروںکا خیال ہے کہ حکمراں ٹی ایم سی حکومت نے نرم فرقہ پرستی کی پالیسی اپنائی، جس کی وجہ سے ایسی تنظیموں کو ریاست بھر میں پھیلنے کا موقع ملا جو امن و امان میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر، آر ایس ایس ایسے اسکول قائم کرنے میں کامیاب رہی جن کا مقصد تعلیم فراہم کرنانہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندوں کے لیے تربیتی ادارے قائم کرنا ہے۔

صرف 2013 میں، پولیس ذرائع کے مطابق، مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے 59 واقعات ہوئے۔ بدنام زمانہ دھولا گڑھ فسادات 2016 میں ہوئے، اس کے بعد شمالی 24 پرگنہ ضلع کے بشیرہاٹ اور بادوریا میں فسادات ہوئے۔ اسی طرح کے واقعات ندیا (2015)، مالدہ (2016)،حاجی نگر (2016)، دھولا گڑھ (2016)، اور بدوریا (2017) میں پیش آئے، جس کی وجہ سے مغربی بنگال کا حساس ریاستوں میں شمار ہونے لگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست میں گزشتہ پنچایتی انتخابات کے دوران، بشیرہاٹ فسادات ہوئے، جس کے نتیجے میں بی جے پی اور ٹی ایم سی کے درمیان ووٹوں کا پولرائزیشن ہوا۔

سی پی آئی (ایم) کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم نے ممتا بنرجی پر فسادات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ پورا واقعہ ٹی ایم سی کی حکمرانی کو درپیش بدعنوانی اور گھوٹالوں سے توجہ ہٹانے کی ایک چال تھی، ایسے وقت میں جب لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ احتجاج کررہے ہیں تو دونوں بی جے پی اور ترنمول کانگریس نے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کےلئے یہ فسادات کرائے ہیں ۔سلیم نے یہ بھی سوال کیا کہ فسادات کے دوران پولیس کیوں غیر فعال رہی، جب کہ پرامن عوامی تحریکوں کے دوران، پولیس فورسز کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی زیرقیادت انتظامیہ کے ذریعہ جہاں ہتھیاروں کے ساتھ رام نومی ریلیوں کی اجازت دی جاتی ہے، وہیں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ہونے والی امن ریلیوں کو پولیس اکثر دفعہ 144 کا حوالہ دے کر جلوس نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کردیتی ہے ۔

گزشتہ سال بھی رام نومی کے جلوس کے دوران ہوڑہ کے شیب پور کے قاضی پاڑہ علاقے میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس سال، پچھلے واقعے کے باوجود، پولیس مبینہ طور پر علاقے میں مناسب نگرانی اور چوکسی برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔

2011 سے قبل تک مغربی بنگال میں رام نومی کے جلوسوں کی بہت کم روایت تھی، سوائے چند پرامن جلوسوں کے جن کا اہتمام مقامی مذہبی رہنماکرتے تھے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، رام نومی کے زیادہ تر جلوسوں کو مبینہ طور پر بی جے پی اور ٹی ایم سی کے سیاست دانوں کےا سپانسرمیں نکالے جاتے ہیں ۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل 2011 سے پہلے مغربی بنگال میں موجود نہیں تھے، لیکن ٹی ایم سی کی حکمرانی کے دور میں انہوں نے طاقت حاصل کی ہے ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین