Friday, October 18, 2024
homeبنگالیکساں مواقع کی فراہمی کے سوال کوخود مسلمانوں کی طرف سے نظر...

یکساں مواقع کی فراہمی کے سوال کوخود مسلمانوں کی طرف سے نظر اندازکیا جانا خطرناک —–سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد معاصر ہندوستان میں مسلمانوں کے سوالات کے عنوان سے ہاشم عبد الحلیم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دورزہ سمینار کا انعقاد

کلکتہ :انصاف نیوز آن لاین–
اس اعتراف کے ساتھ کہ ملک میں سیاسی حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔”شناخت“ اور ”سیکورٹی“کا سوال مسلمانوں کیلئے اہم ہوگئے ہیں چناں یکساں مواقع کی فراہمی کا سوال پس پشت چلا گیا ہے۔مگر خود مسلمانوں کی طرف سے اس سوال کو نظر اندازکیا جانا خطرناک ہوسکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر یکساں سلوک کیا جانا چاہیے اور اس وقت ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے جب تک سب سے نیچے پائدان پر رہنے والے شخص کو حق نہیں مل جاتا ہے۔

ہاشم عبد الحلیم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کلکتہ میں ”سچر کمیٹی اور معاصر ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات،بنگال کے خصوصی حوالے“ کے عنوان سے دوروزہ سیمینار میں دنشواروں، ریسرچ اسکالرو ں اور سیاسی لیڈروں نے کیا۔مغربی بنگال اسمبلی میں 24سالوں تک لگاتار اسپیکر رہنے والے ہاشم عبدالحلیم کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے کلکتہ شہر کے مشہور معالج و سماجی کارکن ڈاکٹر فواد حلیم نے ان کی یاد میں یہ فاؤنڈیشن قائم کیا ہے۔اس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف موضوعات سیمینار، یادگار خطبہ اور علمی و تحقیقی پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

افتتاحی سیشن میں سینئر سیاست داں و سابق ممبر پارلیمنٹ محمد سلیم نے سچر کمیٹی کی اہمیت معنویت اور اس کے قیام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گرچہ حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ملک کی فضاؤ ں میں نفرت اور مسلم دشمنی غالب آگئی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سچر کمیٹی کی اہمیت و معنویت ختم ہوگئی ہے۔بلکہ مسلمان اس ملک کے شہری ہیں انہیں کسی بھی وقت اپنے حقوق سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ شناخت کا سوال کافی اہم ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر شناخت کے بقاکے ساتھ ملک کی ہرسہولیات پر سے فائدہ حاصل کرنا اور خود کفیل ہونا بھی ضروری ہے۔محمد سلیم نے اعتراف کیا کہ اس رپورٹ میں ان کے دور حکومت کی ناکامیوں کا اجاگر کیا گیا تھا مگر اس کمیٹی کو بنانے میں بھی ان کی پارٹی کا اہم سوال تھا۔ہم نے سب سے زیادہ پارلیمنٹ میں آواز بلند کی ہے اور اس پر بات کی ہے۔مگر ہم نے اقدامات بھی کئے مگر آج یہ سوال بنگال میں غائب کیوں ہے؟ انہو ں نے کہا کہ ہم نے جمہوری حقوق اور مواقع فراہم کئے اس لئے ہمارے دور میں جمہوری آوازیں بلند ہوتی تھیں مگر آج خاموش کیوں ہے۔انہو ں کہاکہ آج بنگال میں شناخت اور سیکورٹی کے سوالات کو اس قدر ابھاردیا گیا ہے کہ حقوق کا سوال پس منظر میں چلاگیا ہے۔اس لئے آج نہ ریرزویشن کا فائدہ مسلمانوں کو مل رہا ہے اور نہ تعلیمی حقوق مل رہے ہیں۔


علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر و سابق چیف آف آرمی اسٹاف ضمیر الدین شاہ نے کہا کہ اگر سچر کمیٹی کی سفارشات عمل نہیں کیا جاتا ہے اور مسلمان اس رپورٹ کے تناظر میں خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں تو یہ رپورٹ کوڑے دان میں رکھنے کے قابل ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کبھی کبھی مسلمانو ں کی خوشامد نہیں کی گئی ہے اگر کی گئی ہوتی تو مسلمان اس قدر پسماندہ حال نہیں ہوتے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ تفریق صرف سرکاری سطح پر نہیں بلکہ پرائیوٹ کمپنیو ں میں بھی کیاجاتا ہے۔مسلم نام کے امیدوارو ں کو انٹرویو کیلئے طلب تک نہیں کیا جاتا ہے۔ان صورت حال میں مسلمانو ں کو تعلیمی اور سماجی سطح پر ناگزیر بننے کی ضرورت ہے۔

حکومت بہار کے سابق وزیر شکیل الزماں انصاری نے سچر کمیٹی کے قیام کا سہرا ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سونیاگاندھی کو دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیات نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ رپورٹ خود کانگریس کے خلاف بھی جاسکتی ہے او ر پارٹی میں ایک بڑے حلقے کا کہنا بھی تھا مگر ان دونوں لیڈروں کا موقف تھا کہ سچائی سامنے لاکر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کی حکومت نے سچر کمیٹی کی رپور ٹ کی سفارشات پر عمل بھی کیا اور ہم نے خود اس رپورٹ کے نفاذ کا جائزہ لینے کیلئے ڈاکٹر امیتابھ کندو کمیٹی بنائی۔چوں کہ موجودہ حکومت کی جڑیں مسلم مخالف میں پیوست ہے اس لئے آج مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے مگر مسلمان اس ملک کے شہری ہیں انہیں اپنے حقوق سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔

اس سے قبل راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئر مین و سابق مرکزی وزیر کے رحمن خان ویڈیو لنک کے ذریعہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دور وزارت میں کئے گئے اقدامات کا جائزہ پیش کیا۔
سمینار کے دوسرے دن بزنس سیشن میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مسلمانو ں کے بدلتے ہوئے حالات پر مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسر او ر ریسرچ اسکالرو ں اور مختلف شعبہ سے وابستہ شخصیات نے اپنے مقالے پیش کئے۔جادو پور یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالمتین نے مغربی بنگال میں مدرسہ تعلیم کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بنگال میں مدرسہ تعلیم کے نظام میں اصلاحات کی جوپہل کی گئی تھی وہ گزشتہ دس سالوں میں معطل ہوگئی ہے اس لئے آج مدرسہ تعلیم کے سامنے بحران کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مدرسو ں کو آئینی بحران کا بھی سامنا ہے۔اجینی حلیم نے بنگال میں خواتین کو درپیش مسائل اور ترقی کے عنوان اعداد وشمار کی روشنی میں بتایا کہ بنگال کی خواتین کی ترقی کے لئے بہت سارے اقدامات کیا جانا باقی ہے۔پروفیسر معید الاسلام نے بنگال کے مسلمان اور ہندوستان کے مسلمان کا موازنہ پیش کیا۔کلکتہ ہائی کورٹ کے سابق جج توفیق الدین، کلکتہ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل محمد شمیم نے اسکول سروس کمیشن میں بدعنوانی اور مسلمان کے عنوان سے اپنے ریسرچ میں کہا کہ بنگال میں اساتذہ کی تقرر میں جو گھوٹالے ہوئے ہیں اس کا نقصان مسلمانوں کو ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین