Monday, October 7, 2024
homeاہم خبریںمولانا کلیم صدیقی کے خلاف فیصلہ دینے والے جج وویکانند شرن...

مولانا کلیم صدیقی کے خلاف فیصلہ دینے والے جج وویکانند شرن ترپاٹھی کا فیصلہ اسلاموفوبک کتابوں سے متاثر

فیصلے میں کئی جگہ مسلم مخالف مضامین اور کتابوں کا حوالہ۔ زمینی حقائق کو پرکھنے کی کوششوں سے گریز۔تبدیلی مذہب کی وجہ سے ڈیموگرافی میں تبدیلی کے کوئی بنیادی ثبوت نہیں۔۔امبیڈکر کے آئین کے تحفظ کا عزم رکھنے والے بھول جاتے ہیں کہ بابا صاحب نے ہندو مذہب ترک کرتے ہوئےکہا تھا کہ دلتوں کی نجات ہندو مذہب ترک کرنے میں ہے

نوراللہ جاوید
بھارت میں تبدیلی مذہب اور اس کی وجہ سے ڈیموگرافی میں تبدیلی کا پروپیگنڈہ کوئی نیا نہیں ہے۔ آزادی سے قبل ہی تبدیلی مذہب کے سوال پر ملک میں بحثیں شروع ہوگئی تھیں کہ اگر تبدیلی مذہب کا سلسلہ جاری رہا تو ملک کا اکثریتی طبقہ جلد ہی اقلیت میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس اندیشہائے دور دراز سے گاندھی جی جیسی سیکولر اور جہاندیدہ شخصیت بھی متاثر تھی۔ 1932 میں برطانوی حکومت کی تجویز ’کمیونل ایوارڈ‘ جس کے تحت دلتوں کے لیے علیحدہ الیکٹورل اختیارات کو تسلیم کیا گیا تھا، گاندھی جی اس قدم سے اس قدر خوف زدہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے اس کو روکنے کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی اور اس کی واپسی تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چاہے ان کی جان ہی نہ چلی جائے مگر وہ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ گاندھی جی کی شدید مخالفت کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔ گاندھی جی نے برطانوی وزیر اعظم کو خط لکھتے ہوئے متنبہ کیا کہ وہ ایک بیرونی شخص ہیں اور ہندوؤں کو تقسیم کرنے والے کسی بھی معاملے میں مداخلت نہ کریں۔ ’’محروم طبقات کے لیے بالکل الگ ووٹر کے قیام میں مجھے ایک زہر کا انجکشن محسوس ہوتا ہے جس کا مقصد ہندو مذہب کو تباہ کرنا ہے۔ آپ براہ کرم مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے کہ آپ چاہے کتنے ہی ہمدرد کیوں نہ ہوں، آپ متعلقہ فریقوں کے لیے اتنے اہم اور مذہبی اہمیت کے معاملے پر صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ گاندھی جی کے اس قدم کے بعد سے ہی امبیڈکر، جو پہلے ہندو مذہب میں اصلاحات اور دلتوں کے مندروں تک رسائی کی تحریک چلاتے تھے، وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ دلتوں کی آزادی اور باعزت زندگی کے لیے تبدیلی مذہب ہی واحد راستہ ہے چناں چہ انہوں نے 14 اکتوبر 1956 کو ناگپور میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ بدھ مت قبول کر لیا۔ امبیڈکر جیسے سمجھ دار مفکر اور دلت لیڈر نے تبدیلی مذہب کیوں کی؟ اس تبدیلی کا پس منظر صدیوں سے دلتوں کا استحصال اور جبر، ہندو اصلاح پسندوں کا دلتوں کو مساوات کا حق دینے سے گریز والا رویہ تھا، جس نے امبیڈکر کو مایوس کیا۔ ان تمام عوامل نے امبیڈکر کو ہندو مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اگر دلت اور پس ماندہ طبقات تبدیلی مذہب کرتے ہیں تو اس حقیقت کو تمام ہندوؤں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

گاندھی جی نے ’’کمیونل ایوارڈ‘‘ کی مخالفت کا جواز دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس قدم سے بھارت میں ہندوؤں کے غلبے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ چناں چہ آئین سازی کے وقت بھی تبدیلی مذہب کے سوال پر کافی بحث و مباحثہ ہوا اور اس کے بعد آرٹیکل 25 کی تشکیل ہوئی جس میں مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیا گیا۔ علاوہ ازیں، بھارت نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) کے مسودے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس پر دستخط کیے۔ اس میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی میں مذہب یا عقائد کو تبدیل کرنے کا حق بھی شامل ہے، جیسا کہ UDHR کے آرٹیکل 18 میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے ذریعہ شائع کردہ مذہبی آزادی پر ایک مضمون جس کا عنوان ہے CCPR جنرل تبصرہ نمبر 22 آرٹیکل 18 (فکر، ضمیر یا مذہب کی آزادی) نے UDHR کے آرٹیکل 18 کے اندر موجود گہرائی اور غیر مشروط تحفظ کو تسلیم کیا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 19(1) کے تحت مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کا ہر فرد کا حق ہے۔

تاہم 9 دسمبر 1946 کو دستور ساز اسمبلی کی طویل بحث کے بعد شق 17 متعارف کرائی گئی اور اس میں کہا گیا کہ ’’زبردستی یا غیر ضروری اثر و رسوخ کے ذریعے ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیلی کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا‘‘۔ لہٰذا یہ بنیادی حق میں شامل نہیں ہوگا اور جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کا اختیار مقننہ کو دے دیا گیا۔ چناں چہ آزادی کے محض دو دہائیوں بعد ہی پہلی مرتبہ اڈیسہ حکومت نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کو اسمبلی سے پاس کیا اور اس کے اگلے سال ہی مدھیہ پردیش حکومت نے بھی اسی طرح کی قانون سازی کی۔ اب ملک کی بیشتر ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قانون موجود ہے۔ اس قانون کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، اس کی جھلک مختلف عدالتی کارروائیوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

حالیہ دنوں میں مشہور انگریزی ویب سائٹ آرٹیکل 14 ڈاٹ کام نے تین سیریز میں اتر پردیش میں لوجہاد اور تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت درج مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ قوانین اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ کیونکہ گھر واپسی اور مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں کے ساتھ اجتماعی شادی کے مناظر کھلے عام نشر کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے بڑی بڑی تقریبیں منعقد ہوتی ہیں، مگر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

11 ستمبر کو لکھنؤ کی اے ٹی ایس اور اے این آئی عدالت نے مشہور عالم دین و اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم سمیت بارہ افراد کو یو پی اسمبلی سے پاس ’’پروہیبیشن آف غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ 2021‘‘ کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے ساتھ ساتھ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دیگر دفعات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ان پر مذہبی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور دھوکہ دے کر مذہب کو تبدیل کرنے کے الزامات شامل تھے۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ اجتماعی تبدیلی کے مقدمے میں کچھ ملزمین امریکی انتہا پسند اسلامی مبلغ انور العولقی کے لٹریچر سے متاثر ہیں۔ اسلامی مبلغ انور العولقی کا تعلق اسلامی عسکریت پسند گروپ القاعدہ سے تھا۔ اس کی بنیاد پر، آئی پی سی کی دفعہ 121A اور 123 جو حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے یا کوشش کرنے سے متعلق ہیں، لگائی گئیں۔ مولانا کلیم صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے یوٹیوب کا استعمال دوسرے عقائد کے خلاف مذہبی تبلیغ پھیلانے اور لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیا۔

تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت ایک ساتھ ایک درجن افراد کو مجرم قرار دینے اور عمر قید جیسی سخت سزا دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس میں ایسی شخصیات شامل ہیں جن کی ملک بھر میں شہرت ہے اور وہ مسلمانوں میں معروف ہیں۔ اس مقدمے کی پیروی کرنے والے تین وکلا، ایڈووکیٹ اسامہ ندوی، ایڈووکیٹ ضیا جیلانی اور ایڈووکیٹ نجم الثاقب نے فیصلے میں کئی خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے جبراً مذہب تبدیل کرائے گئے، وہ سب اس قانون کے نفاذ سے قبل کے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمر گوتم پر ایک ہزار افراد کو جبراً اسلام قبول کرانے اور انہیں سرٹیفکیٹ دینے کا الزام ہے، بعد میں اس تعداد کو کم کرکے ساڑھے چار سو کر دیا گیا، مگر ان میں سے کسی کے بھی بیانات درج نہیں کیے گئے۔ اسی طرح قانون کے مطابق متاثرہ یا پھر متاثرہ کے قریبی شخص کو ایف آئی آر درج کرانے کا اختیار دیا گیا ہے مگر یہاں اے ٹی ایس کے ایک افسر کے ذریعہ درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کارروائی کی گئی ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کا یوٹیوب چینل اور ان کی کتاب آج بھی شائع ہو رہی ہے اور اس میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں کسی دوسرے مذہب کی توہین یا ملک مخالف باتیں ہوں۔ اسی طرح گواہوں میں بیشتر نے براہ راست کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ ان تینوں وکلا کو امید ہے کہ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی تو یہ مقدمہ میرٹ کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکے گا۔

چونکہ یہ فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد ہے اس کے مستقبل میں اثرات مرتب ہونا ناگزیر ہیں۔ یہ عدالتوں کے سامنے ایک نظیر بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مقدمات کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے کیے گئے دعوے عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر پرکھنے اور جانچنے کے بجائے من و عن قبول کیے ہیں۔ بادی النظر میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنا جرم ہے؟ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کا عدالتی نظام زعفرائنائزیشن سے کافی حد تک متاثر ہو چکا ہے۔ عدالتی نظام پر ایسے افراد کا غلبہ ہو چکا ہے جو دائیں بازو کی فکر و نظریات سے متاثر اور مسلم فوبیا کا شکار ہیں۔ سابق ججز دائیں بازو کے مسلم مخالف اجتماعات میں باضابطہ شرکت کر رہے ہیں اور اسے اپنا بنیادی حق قرار دے رہے ہیں۔ منصب عدالت پر رہتے ہوئے بھی ججوں کے بی جے پی سے تعلقات اجاگر ہو رہے ہیں اور کئی تو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کرنے سے گریز بھی نہیں کر رہے ہیں۔

اگر کسی ملک کی عدالت کو ایک مسلم قیدی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرنے میں چار سال لگ جائیں اور کسی دوسرے کے لیے رات میں عدالت لگ جائے، تو اس سے بڑا نظام عدل کے مفلوج ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا۔ استعماری دور کی عدالت میں مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ ناانصافی کمرہ عدالت میں ہی ہوتی ہے۔‘‘ آج اس کا عملی منظرنامہ بھارت کی عدالتوں میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ کیا کسی قیدی کو بغیر ٹرائل کے چار سالوں تک جیل میں بند کیا جا سکتا ہے؟

جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کے خلاف جو فیصلہ سنایا ہے، وہ ہائی کورٹ میں میرٹ پر قائم رہے گا یا نہیں یا انہیں اعلیٰ عدالتوں سے انصاف ملے گا یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم، سیشن کورٹ کے جج ترپاٹھی نے اپنے فیصلے میں جن کتابوں اور حقائق کا حوالہ دیا ہے، وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ جج صاحب اسلاموفوبیا کا شکار ہیں۔ اپنے 264 صفحات پر مبنی فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایم اے خان جیسے ملحد شخص کی کتاب
”Jihad: Allegation of Conversion, Imperialism and Slavery” کا جا بجا حوالہ دیا ہے۔ یہ کتاب انتہائی ناقص اور غیر معیاری ہے اور ایم اے خان کی اسلامی ماخذ تک کوئی رسائی نہیں ہے۔

انہوں نے صرف سنی سنائی باتوں اور زمینی حقائق کے برخلاف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھارت میں اسلام طاقت کے زور سے پھیلایا گیا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کوئی جج اپنے فیصلے کی بنیاد کسی ایسی کتاب پر قائم کر سکتا ہے جس کا معیار خود مشکوک ہو؟ جج ترپاٹھی نے اپنے فیصلے میں بھارت میں تبدیلی مذہب کے خطرات کو ثابت کرنے کے لیے تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی آبادی میں کمی کا حوالہ دیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح کی صورت حال بنگلہ دیش میں بھی موجود ہے، جہاں 2001 میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوؤں کے خلاف ظلم و ستم کی لہر شروع ہوئی، جس کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ ہندو بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ فیصلے میں ایک اور جگہ کتاب کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’اورنگ زیب کے دور میں ہندوستان کے بیشتر حصوں میں کسی حد تک موثر اسلامائزیشن کی نصف صدی نے مسلم آبادی کی موجودہ تشکیل میں کافی حصہ ڈالا ہے، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں۔‘‘ جج ترپاٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ کتاب میں کہا گیا ہے کہ اگر انگریزوں نے مغل حکومت کا خاتمہ نہ کیا ہوتا تو ملک میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہوتی اور یہ ملک ایک اسلامی قوم بن چکا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ 2009 میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس کے مصنف نے پیش گوئی کی تھی کہ جماعت اسلامی اور دائیں بازو کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ سیکولر عوامی لیگ کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہندوؤں کے خلاف مظالم، خواتین کی عصمت دری اور نسل کشی کے واقعات میں اضافہ ہو جائے گا۔

جج وویکانند شرن ترپاٹھی کے فیصلے کے اس حصے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مولانا کلیم صدیقی، مولانا عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف فیصلہ سنا رہے ہیں۔ ان کا پورا زور دائیں بازو کے اس پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے پر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ جبراً تبدیلی مذہب کی وجہ سے ہے اور مسلم حکم رانوں کے ظلم و جبر سے ہندوؤں کو مسلمان بنایا گیا تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ مکمل طور پر حقائق سے بعید ہے۔ بھارت میں تبدیلی مذہب میں مسلم حکم رانوں کا کردار کیا تھا، اس پر تاریخ کی کتابیں گواہ ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی ہندتوا وادی تنظیمیں یہ بھول جاتی ہیں کہ امبیڈکر نے ذات پات کے جبر سے تنگ آ کر تبدیلی مذہب کا فیصلہ کیا تھا۔ تاریخ اور سیاست کا ابتدائی علم رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ ذات پات کا نظام، جسے ہندو مذہب کی سرپرستی حاصل ہے، اچھوت کے رواج کی جڑ ہے اور دلتوں کے خلاف غیر انسانی امتیاز کو جائز قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امبیڈکر نے ہندو مذہب چھوڑنے کو دلتوں کی آزادی کا راستہ سمجھا۔

ہندوتوادی تنظیمیں ان حقائق سے واقف ہونے کے باوجود اپنے سیاسی نظریات میں اس بنیادی سچائی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس لیے ہر محب وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھگوا سازش کو بے نقاب کرے، جس کا مقصد دلتوں اور قبائلیوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ اگر ہم نے اپنے ملک کو تقسیم سے بچانا ہے تو اس سازش کو بے نقاب کرنا ناگزیر ہے۔ آج امبیڈکر دلت شناخت کی علامت بن چکے ہیں۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ مرکزی حکومت دلتوں کی تبدیلی اور گھر واپسی جیسے غیر ضروری مسائل کو اٹھا کر ملک کو درپیش بنیادی سماجی و اقتصادی خرابیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے، جان ویبسٹر نے اپنی کتاب
“Religion and Dalit Liberation”
میں کہا ہے کہ مذہبی تبدیلی دلتوں کے لیے سماجی انصاف اور وقار کو حاصل کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امبیڈکر اور گاندھی کے درمیان دلتوں کے حقوق پر ہونے والے مباحثے کا جائزہ لیا جائے۔

دعوت کے اگلے شمارے میں ہم ان تمام موضوعات کا تفصیل سے احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح اترپردیش میں تبدیلی مذہب قانون کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اترپردیش سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں نافذ تبدیلی مخالف قانون میں واضح طور پر جانب داری پائی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں نافذ قوانین میں تعزیرات کے سلسلے میں نسل پرستی کا عنصر بھی شامل کیا گیا ہے، یعنی اگر تبدیلی مذہب کرنے والا برہمن ہے تو اس کی سزا کم ہے اور اگر وہ ایس سی یا ایس ٹی سے ہے تو سزا زیادہ مقرر کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یو پی کے شہر بریلی میں پنڈت شنکھدھر کی جانب سے اٹھتر مسلمان لڑکیوں کو ہندو مذہب میں تبدیل کر کے ان کی شادی ہندو لڑکوں سے کرانے کا کیا قانونی جواز بنتا ہے؟

متعلقہ خبریں

تازہ ترین