Thursday, November 21, 2024
homeادب و ثقافتجغرافیہ کا معتوب فلسطینی شاعر محمود درویش

جغرافیہ کا معتوب فلسطینی شاعر محمود درویش

سلمیٰ اعوان
دنیائے عرب میں گذشتہ نصف صدی کی نسل میں محمود درویش ایک عظیم شاعر کے طور پر جانا اور مانا گیا ہے۔عربی کے چوٹی کے سات آٹھ شعرا میں سے وہ ایک ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سارے ایواڈز کے ساتھ افرشیائی اہل قلم کا ادبی ایوارڈ لوٹس بھی حاصل کیا۔اُس کی نظموں کے ترجمے دنیا کی ہر اہم زبان انگریزی،فرنچ،روسی،اطالوی،جرمن،بلغارین کم از کم بیس زبانوں میں ہوچکے ہیں۔جنہیں بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
وہ فلسطینی ہے۔فلسطین پر لکھتے ہوئے محمود درویش کو میں نے تفصیلی پڑھااور اس کی بابت جانا تھا۔
13مارچ 1942ء کو پیدا ہونے والا محمود گلیلی کے بالائی علاقے کے فلسطینی گاؤں البروہ میں پیدا ہوا۔چھ سات سال کا تھا جب اُسے گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑاتھاکہ گاؤں پر قبضے کیلئے صیہونیوں نے حملہ کردیا تھا۔
یہ اُس کی زندگی کا وہ تلخ ترین حادثہ تھاجسنے اُسے ساری زندگی مضطرب رکھااور وہ ساری زندگی یہاں وہاں گھر کیلئے بھٹکتا رہا۔
پہلی پناہ گزینی لبنان میں ہوئی۔پھر چوری چھپے وطن واپسی کی تو گاؤں ملیامیٹ ہو کر اسرائیل کے نئے منصوبے کی آماجگاہ بن رہا تھا۔
بدقسمتی کہ وہ اسرائیلی علاقوں میں رہ جانے والے فلسطینی عربوں کی مردم شماری میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا۔اپنی جنم بھومی میں آکر وہ ہجرت اور پناہ گزینی کے ایک اور کرب سے گزراجو اُس کے حساس ذہن پر ہمہ وقت کچوکے لگاتا تھا۔
شاعری اُس کے ضمیر میں رچی تھی۔پہلی نظم جو اُسنے تیرہ سال کی عمر میں پڑھی وہ ایک صدائے احتجاج تھی۔
ایک عرب لڑکے کے اسرائیلی لڑکے سے سوال تھے۔تمہارے پاس گھر ہے میرے پاس گھر کیوں نہیں۔تم جیسے چاہو اور جس طرح چاہو سورج کے نیچے کھیل سکتے ہو میں کیوں نہیں۔خوشیاں تمہارے لیے ہیں میرے لیے کیوں نہیں۔اور اگلے ہی دن اُس لڑکے کو مجد الکروم کے فوجی دفتر میں بلا کر اِسقدر ڈرایا دھمکایا گیاکہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتا رہااور خود سے سوال کرتا رہاکہ آخر اُس کا جرم کیا تھا؟اپنے اس سوال کا جواب پوری فصاحت کے ساتھ اُسے بہت بعد میں ملا۔
اُسے اسرائیل میں رہنے والے بیش تر یہودی دانشوروں کا رویہ ناقابل فہم لگتا تھا۔اُس کا کہنا تھا کہ میں سمجھ نہیں سکتا وہ کیسے ادیب ہیں جو دنیا میں کہیں بھی یہودیوں پر گزرنے والے کسی حادثے یا تکلیف پر مضطرب ہو اٹھتے ہیں وہ اسرائیل میں رہنے والے عرب فلسطینیوں کیلئے وہ بے چینیاں کیوں محسوس نہیں کرتے؟اُس کے یہی وہ جذبات تھے کہ اُس نے الجدید رسالہ نکالااور اپنے ہر ادارےئے میں اِس مسئلے کو چھیڑا اور اپنے اسرائیلی ہم وطنوں سے سوال کیا۔
قوموں کے درمیان بنیادی تضادات کیوں پیدا ہوں اگر ان کے باہمی تعلقات مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر قائم ہوں۔
محمود درویش کا کہنا ہے کہ میں باوجود اِن دکھوں اور تکلیفوں کے جو ظلم سے پیدا ہوتی ہیں۔اور جو ہمیں متاثر کرتی ہیں خود کو منفی نہیں ہونے دیتا۔انسانیت کا اہم عنصر اپنے اندر زندہ رکھنا چاہتا ہوں اور رکھتا بھی ہوں۔
میں جن حالات میں رہتا ہوں اس پر جھنجھلاتا نہیں ہوں۔ہر شام اپنے کمرے میں بیٹھا یہ سوچ کر خوش ہوتا ہوں کہ میرا رشتہ صرف آفتا ب سے ہے کیونکہ رات کو میں اسرئیلی قانون کے تحت باہر نہیں نکل سکتا۔
خود سے کہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے کیسی عزت بخشی ہے کہ میرا ناطہ روشنی سے جوڑ دیا ہے ۔ہر روز چار بجے مجھے تھانے جاکر اپنے وجود کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔میں دل میں کہتا ہوں ہم نے دن رات کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کررکھا ہے۔اُن کیلئے رات میرے لیے دن۔ہم جانتے ہیں کہ رات سے دن زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔زیادہ پر اُمید ہوتا ہے۔تو میں فائدے میں ہوں اور اسرائیلی پولیس نقصان میں۔
میں ہمیشہ چاہتا ہوں کہ قومی تعصب سے بالاتر رہوں۔
اور یہی وجہ ہے کہ جب میں نے A Soldier dreams white lilies لکھی اور مجھ پر دو تین شامی ادیبوں نے تنقید کی کہ یہ میری محض خیالی کردار نگاری ہے۔میں نے ان کی بات کو ردّ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انسانوں کو ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا۔اِس خطے میں رہنے والے یہودیوں کے ساتھ بطورانسان تو کوئی لڑائی نہیں۔لڑائی تو صرف عرب قومیت اورصیہونیت کے ساتھ ہے۔آخر ہم کیوں یہ چاہتے ہیں کہ جذباتی اور جانب درانہ احساسات کی شاعری ہی توڑ ہے۔
نہیں یہ عقل سلیم کو قائل نہیں کرتی۔ضرورت ہے کہ اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کیلئے اعلٰی فنی معیار اپنایا جائے۔جیسی میری نظموں نے دنیا میں میرے موقف کی بھرپور تائید کی ہے۔
رجسٹر میں لکھو میں ہوں عرب
کارڈ کا نمبر ہے اکاون ہزار
میرے بچے آٹھ ہیں اور نواں آنے کو ہے گرما کے بعد
تم نے ہی چھینے ہیں مجھ سے باغ تھے جتنے میرے اجداد کے
اور چھینا ہے زمین کا وہ قطعہ
ہاں تو پہلے صفحے پر لکھو
مجھ کو انسانوں سے کوئی بغض یا نفرت نہیں
لیکن اتنا ہے کہ میرا رزق اگر چھن جائے گا
غاصبوں کا گوشت بھی کچا چباجاؤں گا میں
بس ڈرو تم بھوک سے میری ڈرو
اور میرے غیض و غضب سے ڈرو
سلام + شلون بھی ایک ایسی ہی نظم ہے
You have stand in the door way, come in
Drink Arabic coffee with us
and you will sense that you are men like us
اُس کی شاعری کے چودہ مجموعے چھپ چکے ہیں۔
پہلا مجموعہ زیتون کی پتیاں اور آخری گیارہ سیارے ہیں۔نو مجموعوں پر مشتمل کلیات بھی بہت بار چھپی اور لوگوں سے خراج حاصل کرچکی ہے۔ اُس کے انٹرویوز اُس کے اہم مضامین بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔
میں گلوکارمیکیش تھیوڈوراکس سے بہت محبت کرتا ہوں۔وہ مجھ جیسا ہی ہے۔ایک دن میں نے پڑھا کہ اُسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔میں نے اُس کی گرفتاری سے متاثر ہو کر Love me Rita لکھی۔نظم کے تعارف میں میں نے لکھا تھا کہ میکیش کی گرفتاری دراصل انتہا پسندی کی طرف اسرائیل کا بڑھتا ہوا رحجان ہے جو صحت مند نہیں۔
اگلے چند دنوں میں میں بھی گرفتار ہوگیا تھا۔اُس کی روز مرہ کی ڈائری میں جو اُس کے درج کردہ واقعات ہیں۔وہ بھی کسی چھوٹے موٹے افسانے سے کم نہیں۔یہ اُس کے وہ دکھ ہیں جو ہیجان برپا کرتے ہیں۔
اُس کی شہرہ آفاق نظم ”عاشق من الفلسطین ہے۔“نظم کی جو محبوبہ ہے وہ دراصل سرزمین فلسطین ہے ۔شاعر نے کیسے اپنا دل چیر کر اپنا درد اس میں سمو دیا ہے۔
زیتون کی کوئی شاخ مجھ سے لے لو
میرے المیے کی کوئی سطر
میرے خیال کا کوئی سلسلہ
میرے بچپن کا کوئی کھلونا
مصائب کی اس چہار دیواری سے کوئی اینٹ
کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے رستے کا پتہ رکھیں
اور لوٹ آئیں
اسرائیلیوں کیلئے محمود کا نام فلسطینی قو م پرستی کا دوسرا نام ہے ۔
حالانکہ اس کی شاعری تعصب سے بہت بلند ہے۔
اسرائیل کے وزیر تعلیم نے محمود درویش کی پانچ نظمیں اسرائیلی سکولوں میں اختیاری مطالعے کے طور پر چاہا کہ شامل کی جائیں۔یوسی سارد کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے سے لاتعلقی اچھے پڑوسیوں کے زمرے میں نہیں آتی۔مگر حکومتی ارکان نے سخت مخالفت کی۔
یہ خوبصورت اور رُلادینے والی شاعری کا خالق 67سال کی عمر میں ہارٹ سرجری کے نتیجے میں ہوسٹن کے ہرمن اسپتال میں فوت ہوا۔ انکی آخری خواہش فلسطین میں دفن ہونے کی تھی۔فلسطینی صدرنے ان کی رسومات ایک قومی شاعر کے طور پر کیں۔۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین