Friday, December 13, 2024
homeاہم خبریںآرایس ایس حامیوں کا نیا فتنہ: دہلی یونیورسٹی میں ’’مارکس جہاد ‘‘...

آرایس ایس حامیوں کا نیا فتنہ: دہلی یونیورسٹی میں ’’مارکس جہاد ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔آر ایس ایس حامی پروفیسر کا الزام کیرالہ والوں نے دہلی یونیورسٹی میں مارکس جہاد شروع کردیا ہے

جاوید اختر
ملک کی موقر دہلی یونیورسٹی میں ان دنوں انڈر گریجویٹ کورسز میں داخلے جاری ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے تحت 77 کالج ہیں، جن میں مجموعی طور پر تقریباً 70 ہزار طلبہ کو داخلہ ملتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لینا تقریباً ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔ اس سال بھی چار لاکھ 38 ہزار سے زیادہ طلبہ اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ایسے میں دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج میں فزکس کے پروفیسر راکیش پانڈے کے ایک بیان نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے، جو سیاسی رنگ بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پروفیسر راکیش پانڈے نے گزشتہ ہفتے اپنی فیس بک پر لکھا،”ایک کالج میں ایک کورس میں صرف 20 سیٹیں ہیں، لیکن 26 طلبہ کو داخلہ دینا پڑا کیونکہ ان سب نے کیرالا بورڈ سے 100 فیصد مارکس حاصل کیے تھے۔گزشتہ چند برسوں سے کیرالا بورڈ مارکس جہاد کر رہا ہے۔”

پروفیسر راکیش پانڈے ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ وہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک ٹیچرس فرنٹ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسر پانڈے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کیرالا کے لوگوں نے جس طرح جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) پر ”قبضہ” کر لیا ہے وہ دہلی یونیورسٹی پر قبضہ کرنے کے لیے اسی طرح کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا، ”یہ کیرالا سے دہلی یونیورسٹی میں در اندازی کی کوشش ہے۔ ہم اس رجحان کو پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیرالا بورڈ اپنے طلبہ کو بہت زیادہ مارکس دیتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کیرالا سے آنے والے تقریباً ہر طالب علم کے پاس 100 فیصد مارکس ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم ان کو داخلہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے۔ ان کا داخلہ تقریباً یقینی ہوتا ہے۔”

پروفیسر پانڈے نے مزید کہا،”کیرالا سے آنے والے بیشتر طلبہ انگلش یا ہندی میں بات نہیں کر پاتے ہیں جو کہ دہلی یونیورسٹی میں مستعمل بنیادی زبان ہے۔ ٹیچر ملیالم بول نہیں سکتے۔ آخر وہ یہاں کیوں آتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ ایک سازش ہے۔ وہ یہاں اپنے جہاد اور بائیں بازو کا پروپیگنڈہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ کیرالا جہادی اور بائیں بازو کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس صورت حال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اسے روکنے کے لیے ہمیں داخلے کی شرائط اور طریقہ کار کو بدلنا ہو گا۔”

پروفیسر پانڈے کے اس بیان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) اور کانگریس پارٹی کی اسٹوڈنٹس ونگ نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے جمعہ 8 اکتوبر کو دہلی یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایس ایف آئی کے صدر وی پی سانو نے کہا،”یہ کیرالا کے طلبہ کو نیچا دکھانے اور بدنام کرنے کی کوشش ہے کہ وہ دوسروں کی قیمت پر داخلہ لے رہے ہیں۔”

دوسری طرف آر ایس ایس کی اسٹوڈنٹس ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے پروفیسر پانڈے کے الزامات کی تائید کرتے ہوئے مختلف ریاستی ایجوکیشن بورڈ اور بالخصوص کیرالہ بورڈ کی طرف سے بارہویں کے امتحان میں طلبہ کو بہت زیادہ مارکس دینے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے بھی اس سلسلے میں مظاہرہ کیا۔ اے بی وی پی کا کہنا ہے،”ریاستی بورڈ اتنے زیادہ مارکس دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے دیگر طلبہ کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔”

اس تنازعے نے سیاسی رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔متعدد سیاسی رہنماؤں نے اسے ریاستوں اور طلبہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا۔

سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرورنے ٹوئٹ کر کے کہا،”دہلی یونیورسٹی کے ایک ٹیچر اب ‘مارکس جہاد‘ کی واہیات اصطلاح استعمال کرکے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے مارکس کی بنیاد پر دہلی یونیورسٹی میں داخلے کے خلاف ہمیشہ بات کی ہے۔ لیکن جہاد کا مطلب جدوجہد ہے اور کیرالا کے طلبہ نے تمام مشکلات کے خلاف جدوجہد کر کے 100فیصد مارکس حاصل کیے تو انہیں بدنام تو نہ کریں۔ اگر ان کی صلاحیت کا اندازہ لگانا ہے تو انٹرویو لے لیجیے۔ کیرالا کے خلاف تعصب ختم ہونا چاہیے۔”

بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی (ایم) کے رکن پارلیمان جون بریٹاس نے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو ایک خط لکھ کر پروفیسر پانڈے کے خلاف قانونی اور شعبہ جاتی کارروائی کرنے اور انہیں سخت سزا دینے کی اپیل کی ہے۔ کیرالا کے وزیر تعلیم وی سیون کٹّی کا کہنا تھا کہ اگر کیرالا کے طلبہ کو ان کی صلاحیتوں کے باوجود من گھڑت اسباب کی بنا پر داخلہ نہیں دیا جاتا ہے، تو یہ جمہوری حقوق کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔

دہلی یونیورسٹی کے رجسٹرار وکاس گپتا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کیرالا یا کسی بھی ریاستی بورڈ کے طلبہ کے ساتھ داخلے کے سلسلے میں کسی طرح کی تفریق نہیں برتی جا رہی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کی طرف سے شائع کردہ اعدادشمار کے مطابق کیرالا ایگزامنیشن بورڈ سے کامیاب ہونے والے 4824 طلبہ نے داخلے کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں اور ان میں سے بیشتر نے بارہویں کلاس کے امتحان میں پورے مارکس حاصل کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک منظم سازش کے تحت جہاد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔


جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 30 طلبہ نے آئی اے ایس کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تو شدت پسند ہندوؤں نے اسے ‘آئی اے ایس جہاد‘ قرار دیا تھا

گزشتہ برس جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سول سروسز کوچنگ سینٹر کے 30 طلبہ نے انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس (آئی اے ایس) کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تو شدت پسند ہندوؤں نے اسے ‘آئی اے ایس جہاد‘ قرار دیا۔ حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اعدادشمار جاری کرکے بتایا کہ ان میں سے 14ہندو طلبہ تھے۔ آئی اے ایس افسران کی تنظیم نے بھی ان الزامات کی سخت مذمت کی تھی۔

لوَ جہاد کے نام پر شدت پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے پرتشدد واقعات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ حال ہی میں کیرالا میں ایک پادری نے ‘منشیات جہاد‘ کا شوشہ چھوڑا تھا۔

آر ایس ایس کے کارکن پروفیسر پانڈے تاہم اپنی بات پر مصر ہیں۔وہ کہتے ہیں،”لو جہاد سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے مذہب کو پھیلانے کے لیے محبت کا غلط استعمال کرنا۔’مارکس جہاد‘یہ ہے کہ آپ بائیں بازو کے نظریات پھیلانے کے لیے اپنے نمبروں کا استعمال کریں۔ میرے نزدیک بائیں بازو کے افراد اور جہادی برابر ہیں۔ میں دونوں میں فرق نہیں کرتا۔ جہاد کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ صرف مذہب تک محدود نہیں ہے۔”

بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام

متعلقہ خبریں

تازہ ترین