Wednesday, December 4, 2024
homeاہم خبریںبی اے کے نئے نصاب میں مسلم دور حکومت کا ذکر غائب...

بی اے کے نئے نصاب میں مسلم دور حکومت کا ذکر غائب ہٹلر کے طرز پر آریوں کو خالص ہندوستانی نسل ثابت کرنے کی کوشش۔۔ملک کے نامور مورخین نے نئے نصاب پر تشویش کا اظہار کیا

کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن)
ملک کے معروف تاریخ دانوں نے یونیورسٹی کے گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعہ مرتب کی گئی’بی اے“ تاریخ کے نصاب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نصاب نسلی برتری کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔جس طریقہ سے ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں رائج کیا تھا۔انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق اس موضوع پرمنعقد ویب نار میں ملک کے مشہور مورخین پنکج جھا، آدتیہ مکھرجی اور عرفان حبیب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ کی بائیں بازو کی حمایت یافتہ تنظیم ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کے زیر اہتمام اس ویب نار کا انعقاد کیا گیا تھا۔
انڈر گریجویٹس کے لیے تاریخی نصاب کے مسودہ جو یو جی سی(یونیورسٹی گرانٹ کمیشن) نے رواں سال فروری میں مرتب کیا ہے۔اس نصاب میں ہندو افسانوں اور مذہبی متون پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔اس نصاب میں مسلم دور حکومت کی تاریخ کا ذکر بہت ہی مختصر کردیا گیا ہے۔
مرکز میں بر سراقتدار بی جے پی حکومت سنگھ پریوار اور دیگر ہندو تنظیموں کے نظریات کو فروغ دینے کیلئے مسلسل کوشش کررہی ہے۔نئے نصاب میں ملک کے نامور مورخین آر ایس شرما اور عرفان حبیب جیسی شخصیات کی لکھی ہوئی تاریخ جس میں قدیم اور قرون وسطی کے ہندوستان کی تاریخ تھی کو ہٹادیا گیا ہے۔
یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے کہا کہ ”نصاب کوایک رہنما اصول کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔اس کا مقصد ہندوستان کی تاریخ کے شاندارا ماضی اور وسیع کینوس کوسامنے لانا ہے۔
عرفان حبیب نے کہا کہ نئے یو جی سی نصاب میں آریوں کے لیے ایک بڑا حصہ مختص کیا گیاہے اور آریوں کو ہی ہندوستان کا اصل باشندہ قرار دیا گیا ہے۔آریوں کو اس طریقے سے پیش کیا ہے جیسے جرمن میں ایڈولف ہٹلر نے پیش کیا تھا۔ہٹلر کا یہ نظریہ تھا کہ جرمن ایک خالص نسل ہیں۔ جرمنی میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے لیے سبق ہونا چاہیے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے ایک قسم کی جھوٹی تاریخ پیش کی جا رہی ہے۔
حبیب نے مزید کہا: ”ذات پات کے نظام کا کوئی حوالہ نہیں ہے گویا یہ موجود ہی نہیں ہے۔ یہ جامع ثقافت کو ختم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ راجہ رام موہن رائے کی سماجی اصلاحی تحریک کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
لیڈی شری رام کالج میں تاریخ کے پروفیسر جھا نے کہا کہ مجوزہ نصاب نے ایک نظم و ضبط کے طور پر تاریخ کو چیلنج کیا ہے۔ایک نظم و ضبط کے طور پر تاریخ کا نظریہ قابل تصدیق معلومات کی بنیاد پر متعدد خیالات کی اجازت دیتا ہے۔ اس سب نصاب میں مکمل طور پر مسترد کردینا چاہیے۔

پروفیسر نے بتایا کہ ”آئیڈیا آف بھارت“ کے تحت ایسی تفصیلات کو پیش کیا گیا ہے جس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نہیں جانتے ہیں ا س نصاب کو کس نے مرتب کیا ہے اور آخر کس مقصد کے تحت نصاب مرتب کرنے والوں کے نام کو صغیہ راز میں رکھا گیا ہے۔
تاریخ کی کتاب میں ایسے حصے شامل کئے گئے ہیں جس میں بھارت کی قدیم روایات، ویدوں، ویدنگوں، اپنشدوں، سمرتیوں اور پرانوں کی عظمت جیسے موضوعات شامل ہیں۔ نصاب 13 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک کا احاطہ اس طریقہ سے کیا گیا ہے اس میں مسلم دور حکومت کا کوئی خاص ذکرع نہیں ہے۔
پرفیسرآدتیہ مکھرجی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ریاستی طاقت کو ”تصور شدہ تاریخ” کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ نظریے کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کا موجودہ استعمال اسی طریقے سے کیا گیا ہے کہ جس طریقے سے انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کو محفوظ بنانے کے لیے کیا تھا۔برطانوی راج نے خود اس طرح سے پیش کیا تھا کہ وہ ہندوستانیوں کو بچانے کیلئے یہاں آئے ہیں۔ان کی پوری کوشش تھی ہندوستانی شہریوں کے درمیان مذہب اور زبان کے نام پر تقسیم کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی فرقہ پرست جماعتوں نے انگریزوں کی مدد کی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین