راقم علی ارقم
راوینشو کالج المنس،کٹک (اوڈیشا)
انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس (22، جنوری 2023ء) میں علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر طارق منصور کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں بی بی سی کی ڈاکومینٹری نے گجرات فسادات پر پہلے سے بے نقاب حقیقتوں کی دستاویز تیار کرتے ہوئے، آں وقتی وزیر اعلی (موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی) کو دنیا کی نظر میں پھر سے مشکل میں ڈال دیا ہے۔
اس کی تردید میں ملک کی سب سے بڑی یونی ورسٹی اور مسلم شناخت والے ادارے کے سربراہ کی معرفت کلین چٹ حاصل کرنا ہی وزیر اعظم کے لئے سب سے مفید تھا۔ اگلا وائس چانسلر مقرر کرنے کے بجائے، ایک برس کی توسیع لے کر، پھر سے ایک برس کی مزید توسیع لینے کے ذاتی مفاد کے لئے وی سی صاحب کو اس کالم کے نیچے اپنا نام دینا ہی تھا،ورنہ مسلمان وائس چانسلر سے کلین چٹ کی بات بھی عجیب معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ تو ابھی سے کچھ ہی ہفتے قبل بہ بانگ دہل اعلان کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو 2002ء میں گجرات میں سبق سکھایا جا چکا ہے۔ معلوم نہیں خدا نہ خواستہ وی سی صاحب کے یہاں بھی وہی ہوا ہوتا جو احسان جعفری اور بلقیس بانو کے ساتھ ہوا تھا، تو کیا پھر بھی وی سی صاحب ایسا کالم لکھتے اور ایسا ہی نظریہ رکھتے؟
جب بی جے پی معافی مانگ ہی نہیں رہے گجرات فساد کے لئے، تو وی سی صاحب معافی دے کر آگے بڑھنے کی بے قراری کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ نہایت تشویش ناک بات یہ ہے کہ مسلم یونی ورسٹی کے جو پروفیسر حضرات (اور دیگر علیگ) مختلف انگریزی روزناموں اور پورٹلس میں متواتر کالم لکھتے رہتے ہیں، ان میں سے کسی نے وی سی کے اس کالم اور اس سے قبل کے دیگر ایسے موقع پرستانہ کالموں کی تردید نہیں کی یا ان کے مواد کے خلاف احتجاج درج نہیں کروایا۔ اے ایم یو ٹیچرس ایسوسی ایشن نے بھی اس کی مذمت نہیں کی۔ کیا ملک کے عام شہری، عام مسلمان اور ان کے پڑھے لکھے نوجوان اس سیاست کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ایسی کالم نگاریوں اور خاموشیوں کی ملی بھگت سے موجودہ بھارت کی مسلم سیاست کا ایک کردار واضح طور پر بے نقاب ہوتا ہے یا نہیں؟ یعنی مغربی اتر پردیش کے مسلم خواص کے چند افراد کی خود غرضانہ سیاست بے نقاب ہوتی ہے یا نہیں؟
اب آئیے یہ غور کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے ریاض اور جدہ کے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کی سیاست کیا کہتی ہے؟2 دسمبر 2022ء اور پھر 15 جنوری 2023ء کو نلسار یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلراور اے ایم یو میں اب نئی وائس چانسلر ی حاصل کرنے کے خواہش مند پروفیسر فیضان مصطفے کا جدہ کی علیگ برادری نے بڑے زور و شور سے خیر مقدم کیا، یہاں تک کہ ان کو مہمان خصوصی وغیرہ تک کا اعزاز بخشا گیا۔ 17 اکتوبر 2022ء کو لکھنؤ کے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے بھی فیضان مصطفے ہی کو مہمان خصوصی بنایا۔اور اسی طرح8 دسمبر 2022ء کو ریاض (سعودی عرب) کے اے ایم یو المنائی نے وائس چانسلر طارق منصور اور ان کے صاحب زادہ محمد ناصر (شعبہئ قانون)کا استقبال کیا۔ یہ اولڈ بوائز انہیں کا خیر مقدم کرتے ہیں جو اکثریت پرست اور اقلیت سوز سیاسی طاقتوں کی حمایت میں کالم لکھتے ہیں اور ویڈیو اپلوڈ کرتے ہیں۔
مثلاّ:
1: حال ہی میں رام مادھوکی تصنیف شدہ کتاب”پارٹیشنڈ فریڈم“ پر بات کرتے ہوئے پروفیسر فیضان مصطفے نے یو ٹیوب پر اس کتاب کے مصنف کی خوب خوش آمد کی؛ جبکہ رام مادھو نے اس ویڈیو میں یہ کہا کہ مسلم حکمرانوں کا دور ہی ہندو مسلم منافرت کا دور ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے اے ایم یو کے بانی سر سیداحمد خان کو علیحد گی پسند اور دو قومی نظریے کا پیشوا بھی کہا۔ کیا فیضان مصطفے صاحب کے پاس ان توہمات کا کوئی جواب نہیں تھا؟
2: اس خوش آمد پرستی کے پیشوا نے 6 جولائی 2021ء کے انڈین ایکسپریس میں لکھے گئے مضمون میں موہن بھاگوت کے سیاسی نظریہ کی بھی خوب مدح سرائی کی۔
3: منصب حاصل کرنے کی اس آنکھ مچولی میں اپنا سکہ جمانے کے لیے طارق منصور صاحب کے صاحب زادہ محمد ناصر نے بھی ہندوستان ٹائمزکی 15جولائی 2021ء کی اشاعت میں بھگوا سیاست کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہوئے اپنا مضمون شائع کرایا۔(ایسی مثالیں لا تعداد ہیں)۔ اور یہی خود غرض افراد بقیہ مسلم عوام کے نوجوانوں اور نچلے متوسط طبقہ کے لوگوں کو، انہیں اکثریت پرستوں کے خلاف احتجاج، شورش اور بغاوت کرنے کی تلقین و ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ پھر چاہے اس عوام کے رہائشی مکانوں پر بلڈوزر چلے، لنچنگ کر دی جائے یا پھر اس عوام کے معصوم نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جائے،بلکہ اے ایم یو کے وائس چانسلر نے یو نی ورسٹی میں اپنے مخالفین کی آواز کو کچلنے کیلئے حکومت کی پولیس کا بے جا استعمال کیا ہے (دسمبر 2019ء کے بعد)۔اس کے باوجود ریاض اور جدہ کے المنائی نے اسی وی سی اور ان کے صاحب زادے کا خیر مقدم کیا۔ یہ المنائی اپنے وی سی صاحب کی بدعنوانی اور مطلق العنانیت کے خلاف نہیں بول سکتے، لیکن عام مسلمان معصوموں کو اکساتے رہیں گے کہ بھگوائی فاشزم کے خلاف احتجاج کرو۔کتنے علیگ کالم نگاروں نے اے ایم یو کے اندر کی لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری کو بے نقاب کرنے کی جسارت کی؟ علی گڑھ المنائی کا کردار و ردعمل دیکھئے:
اکثریت پرستی اور اقلیت سوزی کی حمایت میں کالم لکھنے والے ان چند اقتدار پرست صاحبان کا رد عمل ان کے فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر کئی سوشل میڈیا سے خوب نظر آتا ہے کہ اے ایم یو کے اندر کے انتظامی عہدے، داخلے، تقرریاں، ٹھیکے وغیرہ کے کاروبار پر ان کی اجارہ داری برقرار ہے اور مسلمانوں کو ملنے والے ملک کے دیگر بڑے عہدوں پر بھی نظر ہے۔اے ایم یو کے ایکزیکیوٹیو کونسل (ای سی) پر بھی یہی حاوی ہونا اور قابض رہنا چاہتے ہیں،بلکہ قابض ہیں۔ اے ایم یو اساتذہ کے واٹس ایپ گروپس میں جھانکئے۔ ان کی ہمت نہیں ہے کہ وی سی کے خلاف بول سکیں، لیکن قوم کو اکسانے میں پیش پیش رہیں گے۔ جب یہ واٹس ایپ پر نہیں بول سکتے، تو ای سی میں ان کا منہ کیسے کھلے گا؟انہیں مودی کے خلاف مزاحمت کی سیاست کے لئے عام جذباتی معصوم مسلمانوں کی قربانی چاہئے۔کیا کسی کی جرائت نہیں ہے کہ ان قوم کے ٹھیکے داروں کے خلاف کوئی بر جستہ آواز یا قدم اٹھائے؟
ابھی چند ماہ قبل علی گڑھ کے نہایت ہی مہنگے ہوٹل لیمن ٹری میں برسر اقتدار پارٹی کے کم معروف، لیکن نہایت با اثر نیتا کے ساتھ وائس چانسلری کی آرزو رکھنے والے اساتذہ کی تصویریں سوشل میڈیا پر تیر رہی تھیں۔ اس ہوٹل میں بڑے پیمانے پر اخراجات بھی کئے گئے۔ ایسے ہی امیدواروں کی حمایت میں زمین مافیا، بلڈرز، ڈرگ مافیا وغیرہ کھلے عام سرگرم ہیں۔ یونی ورسٹی کے اندر انتظامی عہدوں پر طویل مدت سے تعینات پروفیسروں کے روز بڑھتے ہوئے اثاثوں کی جانچ ہونی چاہئے کہ زمینوں اور فلیٹوں کی شکل میں ان کے پاس کیا کیا جمع ہو چکاہے؟
کیا یہ وہی پروفیسر نہیں ہیں، جنھوں نے کچھ برس قبل جعلی سرٹیفیکیٹس والے امیدواروں سے رشوتیں لے لے کر تقرریاں کی تھیں؟ اگر نہیں تو وی سی بننے کے لئے مہنگے ہوٹلوں میں نیتاؤں کے خیر مقدم کا خرچ کہاں سے آتا ہے؟ ملک کے عام شہری، بہ شمول عام مسلمان، ان سب سے بے خبر ہیں۔
یہ دل دہلانے والی باتیں اس لئے عرض کی جا رہی ہیں کہ آپ لوگ مسلم خواص کے چند افراد کی خودغرضی دیکھیں کہ یہ لوگ گدھ ہیں، جو ہمہ وقت اس دھن میں ہیں کہ مسلمان نام کی لاش کو نوچ نوچ کے کھا جاتے رہیں۔ کیا آپ کو یہ بات پتا بھی ہے کہ اکثریت پرست طاقتوں کی حمایت میں کالم لکھنے والے پروفیسر فیضان مصطفے کو مسلمانوں کا لیڈر کس نے بنایا؟جی ہاں، یہ وہی رویش کمار ہے جس نے این ڈی ٹی وی کے اعتبار کا بے جا استعمال کر کے، فیضان مصطفے سے سوال پوچھنے اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے آپس میں پینل ڈسکشن کرانے کے بجائے اسے جمعہ کی نماز کے خطبے کی طرح کا پلیٹ فارم دے دیا۔اس طرح سیکولر ٹی وی چینل نے سیکولرازم کا اعتبار مجروح کر دیا اور نتیجتاً ہندوتوا کے عروج میں معاون ہو گیااور اب مسلم عوام کی سبسکرپشن پر رویش کمار اپنے یو ٹیوب سے روپئے بٹور رہا ہے۔
کووڈ کے دوران اپریل و مئی 2021ء میں، علی گڑھ کے میڈیکل کالج ہسپتال میں بڑے پیمانے پر موتیں کیوں ہو رہی تھیں؟ ہسپتال میں آئی سی یو کے بیڈ سے لے کر آکسیجن سلینڈروں کی بحران کی سیاست دی وائر (انگریزی) کے مدیر کو کیسے پتا چلے گی جب اس نے بغیر تحقیق کئے ہی وی سی طارق منصور کے صاحب زادہ محمد ناصر (شعبہ قانون) کا مضمون چھاپ کرہسپتال کی تمام لاپرواہیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا اور وائس چانسلر اور دیگر ذمہ داران کو الزامات سے بری کر دیا؟
یہ بھی تو غور کیجئے کہ وائس چانسلری حاصل کرنے کی دوڑ بھاگ کرنے والوں میں سے کس پروفیسر نے پچھلے برسوں میں غیر تدریسی عملوں کی تقرری کی ذمہ داری نبھائی تھی؟ ان سنگین معاملات پر عام لوگوں کو گہرائی سے غورو فکر کرنی ہوگی۔ یہ چند لوگ آپ کو معاشرتی و اقتصادی خوش حالی اور توانائی بخشنے کے بجائے پستی کے کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔راقم مسلم عوام کو یہ بھی متنبہ کرنا چاہے گا کہ آپ کے مصائب در اصل گنتی کے چند خودغرض اور لالچی افراد کی وجہ سے بڑھتے جا رہے ہیں،جو اب تو ہندوتوا کی تائید کر کے بھی عہدہ حاصل کرنے کو بے قرار ہیں۔
اور ایسا کیوں نہ کریں؟ ایسا کرنے سے ہی ان کا اقتدار پر قبضہ قائم ہے؛ ان کی ممبر شپ برقرار ہے۔ یہی چند گنے چنے لوگ، مسلم سیاست کے بیانیہ کو تیار کر رہے ہیں؛ مقبول کرا رہے ہیں اور اسی کو مصلحت پسندی اور دور اندیشی کا نام دے رہے ہیں۔ چند مسلم خواص اور علی گڑھ کے المنائی کی گندی سیاست کو سمجھیں، انہیں بے نقاب کریں اور ان سے مزاحمت کے لئے آمادہ ہو جائیں۔اگلا وائس چانسلر کہیں وہ نہ بنا دیا جائے، جو اقلیت سوز اور اکثریت پرست سیاست کی حمایت میں کالم لکھتا رہتا ہے:
کن نیندوں تو سوتی ہے، اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
(میر)