Wednesday, December 4, 2024
homeاہم خبریںہندوستانوں کے اسپتالوں میں بھی مسلمانوں اور دلتوں کو تعصب کا سامنا

ہندوستانوں کے اسپتالوں میں بھی مسلمانوں اور دلتوں کو تعصب کا سامنا

غیر سرکاری تنظیم آکسفیم انڈیا نے ’’Securing Rights of Patients in India'”کے عنوان سے صحت کے شعبہ میں سروے کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان کے اسپتالوں میں بھی مسلمانوں دلت ،قبائلی اور پسماندہ طبقات کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 33فیصد مسلمانوں، 21فیصد دلت، 22فیصد قبائلی اور 15فیصدپسماندہ طبقات کو اسپتالوں میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ کرناٹک میں 28فیصد، گجرات میں 24فیصد، مہاراشٹر میں 21فیصد، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور راجستھان میں 20فیصد افراد کو صحت کے شعبے میں وابستہ افراد (ڈاکٹرس، نرس اور اسپتال عملہ) کی طرف سے سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صحت جیسے اہم شعبے سے وابستہ افراد بھی مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر متعصب ہوچکے ہیں ۔
سروے کے نتائج کے مطابق ایک تہائی سے زیادہ خواتین (35٪ فیصد) نے کہا کہ انہیں ایک مرد پریکٹیشنر سے جسمانی معائنہ کرانا پڑا۔جب کہ اس وقت کمرے میں کوئی بھی خاتون موجود نہیں تھی۔
سروے میں 28 ریاستوں اور پانچ مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کل3,890 افراد نے حصہ لیا، جس کے نتائج منگل کو جاری کیے گئے۔
آکسفیم انڈیا کا تازہ ترین سروے ‘Securing Rights of Patients in India’ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں مریضوں اور شہریوں کی حالت زار پر ایک تناظر فراہم کرتا ہے۔

سروے میں، 30فیصدلوگوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کسی بیماری یا صحت کی حالت کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے، 12فیصد افراد نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا گیا ہے، 13افراجد نے محسوس کیا کہ ان کے ذات کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
وبائی مرض کے دوران، این جی او کے مطابق، “پسماندہ کمیونٹیز جیسے دلتوں، آدیواسیوں اور مسلمانوں جیسی مذہبی اقلیتوں کو سرکاری اور پرائیوٹ اسپتالوں میں تشدد کی نئی شکلوں اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔سروے میں بتایا گیا کہ زیادہ تر ریاستوں میں، ان خلاف ورزیوں کے خلاف کوئی اچھی طرح سے متعین روک تھام اور ازالے کا طریقہ کار نہیں ہے۔مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دلتوں، آدیواسیوں اور مسلم اقلیتی برادریوں کے لیے صحت کے نتائج مسلسل کم ہیں۔

سروے میں ایک مطالعہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں ممبئی میں صحت کی سہولیات میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی کھوج کی گئی تھی اور یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بہت سی مسلم خواتین نے محسوس کیا کہ صحت عامہ کی سہولیات کے عملے کا بات کرنے کا انداز ہی الگ ہوتا ہے یعنی جب وہ کسی غیر مسلم خواتین سے بات کرتی ہیں تو ان کا لہجہ مناسب ہوتا ہے مگر مسلم خواتین سے بات کرتے وقت ان کا لہجہ انتہائی سخت ہوتا ہے
آکسفیم انڈیا نے کہا کہ وبائی مرض کورونا کے دوران صحت کاشعبہ بھی اسلام فوبیا کا شکار ہوگیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی میں واقع مرکز نظام الدین میں تبلیغی اجتماع اور اس پر میڈیا کی رپورٹنگ کے بعد ہندوستان میں اسلام فوبیا کو مزید ہوا ملی اوراس کے بعد اسپتالوں میں مسلم مریضوں کو داخلہ کرنے کے انکار کے واقعات زیادہ رونما ہوئے ۔
آکسفیم انڈیا کے مطابق سروے کے نتائج 2001 میں شائع ہونے والے ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی رپورٹ کے مطابق ہیں۔دیہی ہندوستان کے اسپتالوں میں دلت اور آدی واسی طبقات کو تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔21فیصد اسپتالوں نے انہیں اسپتال میں داخل کرنے سے انکار کردیا تھا۔سروے میں بتایا گیا کہ طبی برادری کی طرف سے ٹرانس جینڈر مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔آکسفیم انڈیا نے کورونا وائرس کی ویکسینیشن کے عمل سے متعلق لوگوں کے تجربات کے مختلف پہلوؤں پر ایک سروے بھی جاری کیا۔اس سروے میں سماجی اور اقتصادی گروپوں بشمول دلت، آدیواسی اور مسلمان، اور معذور افراد (PwD) پر مبنی ویکسینیشن کوریج پر مختلف اعداد و شمار مانگے گئے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین