نور اللہ جاوید
آخر کار پاپولر فرنٹ انڈیا پرمرکزی حکومت نےپابندی عائد کردی، گزشتہ کئی سالوں سے اس تنظیم کے خلاف ماحول ساز گار کئے جارہے تھے، ملک کے کسی بھی کونے اور گوشے میں ہونے والےبدامنی کے واقعات کو اس تنظیم سے جوڑ دیا جاتا تھا۔میڈیائی پروپیگنڈہ اس قدر شدت کے ساتھ چلائی جارہی تھی کہ یہ سوال کھڑے ہونے لگے تھے کہ جب یہ تنظیم ملک میں ہونے والے بدامنی کے ہر واقعات کےلئے ذمہ دار ہے توپھر حکومت ہند پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کیوں نہیں کررہی ہے؟۔دراصل ان سب کے ذریعہ مرکزی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی تھی کہ حکومت صبر و ضبط سے کام لے رہی ہے۔پابندی عائد کئے جانے سے قبل این آئی کے ذریعہ ملک بھر میں چھاپے اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قائدین اور ذمہ داروں کی تابڑ توڑ گرفتاری کے ذریعہ یہ پیغا م دیا گیا کہ حکومت نے ان اقدام سے قبل اس تنظیم کے خلاف کافی شواہد اور ٹھوس دلائل جمع کرلئے ہیںاور اب پابندی عائد کرنے کا بہترین موقع ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ 27ستمبر کو جاری نوٹی فیکشن میں پابندی کے لئے جو بنیادیں قائم کی گئی ہیں اور جودعوے کئے گئے ہیں اس نے دائیں بازوں کی ہندو جماعتوں پر پابندی عائد نہیں کئے جانے پر سوال کھڑا کیا جانے لگا ہےکہ اگر پی ایف آئی خفیہ ایجنڈا چلاکر ایک مخصوص طبقے(ہندو)کو جنونی بناکر جمہوریت کے تصور کو کمزور کررہی ہے توپھر بجرنگ دل، وشو ہندو پریشداور ان کی مادرتنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کیا کررہی ہے؟ رام جنم بھومی تحریک سے لے کر ملک میں ہونے والے متعدد بم دھماکے میں ان تنظیموں سے وابستہ افراد کے نام آچکے ہیں، موب لنچنگ، مساجد کے سامنے نفرت انگیز نعرے، مسلمانوں کا قتل عام کی دھمکی یہ وہ جرائم ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی ہوئی ہے۔بھارت کے تنوع میں اتحاد کا تصور کمزور ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم نھارت میں مسلسل ایک انڈسٹری میں تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔صورت حال اس قدر بے قابو ہوگئی ہے سپریم کورٹ کے مسلسل تبصرے اور تنبیہ بھی کام نہیں آرہی ہے ۔ان نفرتی ٹولے کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں ۔حال ہی میںآر ایس ایس کے سابق کارکن یشونت سہدیو شندے نے نانڈیر بم دھماکے میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے کے ثبوت اور ہندو نوجوانوں کی ٹریننگ سے متعلق جو ثبوت عدالت کے سامنے پیش کئے ہیں وہ آر ایس ایس کی قلعی کھولنے کےلئے کافی ہے۔عدالتیں اور جانچ ایجنسی سی بی آئی شندے کے حلف نامے کو نظر انداز کررہی ہے۔ایسے میں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو اور دیگر سیاسی لیڈروں کا یہ مطالبہ بروقت اور بجا ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟ آر ایس ایس پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے کہیں زیادہ ملک میںنفرت انگیز حالات پیداکررہی ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کی جمہوریت کی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔ایف بی آئی پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد ملک کی سیکولر جماعتوں اور دیگر تنظیموں نے آر ایس ایس سے متعلق جو مطالبات رکھے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ برادران وطن کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت ملک میں غیر یقینی جو صورت حال ہے اور ملک تیزی سے عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے پیچھے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔
انگریز اخبارت ’’ہندوستان ٹائمز ‘‘کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کئے جانے سے قبل کئی مسلم تنظیموں کے نمائندے اور مذہبی رہنمائوں سے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے ملاقات کی اورپاپولر فرنٹ آف انڈیا پرپابندی کےلئے انہیں اعتماد میں لیا ۔اخبار نے گرچہ مسلم تنظیموں اور اس کے نمائندے کے ناموں کا ذکر نہیں کیا ہے۔تاہم ایک مخصوص نظریات و فکر کی حامل طبقے کے مذہبی رہنمائوں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی پابندی کی جس طریقے سے کھل کر حمایت میں بیان جاری کئےہیں ۔اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ پابندی کی حمایت کرنے والے افراد کون ہیں اور ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔
مسلم تنظیموں میں جماعت اسلامی ہنداور مسلم مجلس مشاورت نے بیان جاری کرکے اس پابندی کی تنقید کی ہے ۔ان دونوں کے علاوہ بیشتر تنظیموں نے خاموشی کو ترجیح کی ہے۔ان مسلم تنظیموں کی خاموشی کی وجوہات کیا ہیں ؟ کیا وہ حکومت کے اقدامات سے خائف ہیں یا پھر یہ خاموشی تائید کا حصہ ہے، یہ واضح نہیں ہے ۔ بی بی سی ہندی اور انگریزی اخبار’دی ہندو‘ نے پی ایف آئی پر پابندی عائد کے جانے کے بعد بڑے پیمانے مسلمانوں کی گرفتار ی پر مشہور تنظیموں کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کئی یہ تنظیمیں اور شخصیات حکومت کے کسی ٹریک کا حصہ تو نہیں بنتے جارہے ہیں ۔
مسلم سیاسی شخصیات میں ممبر پارلیمنٹ اسدین اویسی اور کیرالہ میں مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے رد عمل میں جو بیانات دئیے ہیں اور اس کے لئے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے طریقے کار سے خوش نہیں تھے۔تاہم ان کے نزدیک ان کا جرم اتنا سنگین بھی نہیں تھا کہ ان پر پابندی عائد کردی جائے۔ 2006میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے جنوبی ہند کے بعد تیزی سے شمالی ہند میںبھی مقبول ہوتی چلی گئی، حکومت کے دعوے کے مطابق اس تنظیم کے 4لاکھ باضابطہ ممبر ہیں ۔جب کہ ایسے حامیوں کی بڑی تعداد ہے جنہوں نےحکومتی کارروائیوں کے خوف سے ممبری شپ حاصل نہیں کی مگروہ پاپولر فرنٹ آف انڈیاکے کاز اور ان کے مقاصد کی حمایت کرتے تھے۔ایسے میںاہم سوال یہ ہے کہ محض دو دہائیوںسے کم عرصے میں اس تنظیم نے اتنی تیزی سے مقبولیت کیوں حاصل کی ؟یہ بھی اہم سوال ہے کہ پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے خلاف گزشتہ ایک دہائی سے سوالات کھڑے کئے جارہے تھے ۔اس کےباوجود ملک کی مقتدر مسلم تنظیمیں اور مسلم قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قائدین اور ذمہ داروںسے گفت و شنید کے ذریعہ انہیں بدنام کرنے کی وجوہات کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کی کوئی سنجیدہ گوشش نظر نہیں آئی ۔دودہائی کے کم عرصے میں ملک کے طول و عر ض میں وسیع ہورہی یہ تنظیم ایک طرح سے تنہائی کی شکار رہی اور اس کا فائدہ حکومتی مشنری اور پروپیگنڈیائی میڈیا نے اٹھایا اور آج سیکڑوں افراد جیلوں کی سلاخ کے پیچھے ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ2014کے بعد ملک کے حالات میں تیزی سے تبدیلی آئی ، ملک کا ہرشعبہ متاثر ہوا ہے اور مسلم فوپیا کا بھوت سر چڑھ کر بولنے لگا۔ان حالات میں جماعت اسلامی ہنداور ملک کی دیگر تنظیموں نے حکومت کے رٹ کو چیلنجز کرنے اور جوش و جذبات سے کام لینے کے بجائے خاموشی سے تعمیری کام پر توجہ دی ۔اپنی صفوں کو درست کرنے اور مسلمانوں کے امپاورمنٹ کےلئے اقدامات کو ترجیحی دی۔موب لنچنگ، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم، شہریت ترمیمی ایکٹ ، این آر سی، کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی، تبدیلی مذہب کے الزام میں بے دریغ مسلمانوں کی گرفتاری اور حجاب پر پابندی کے واقعات نے مسلم نوجوانوں کو مایوس کردیا۔ایسے حالات میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے آگے بڑھ کر مایوس نوجوانوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کی اوربغیر کسی لاگ لپیٹ کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیااور اس کی قیادت آرایس ایس کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آئی۔اس کی وجہ سے نوجوانوں کا اس تنظیم پر اعتماد میں اضافہ ہوا ۔ پرجوش نوجوانو ں نے ملک کی مقتدر ملی تنظیموں کی خاموشی اور غیر جارحانہ تنقیدی بیانات کو بزدلی اورمداہنت سے تعبیر کرتےنئی مسلم قیادت پر زور دیا۔نوجوانوں کے اعتماد میں اضافے نے پاپولرفرنٹ آف انڈیا کو حدسے خوش فہمی میںمبتلا کردیا کہ مسلمانوں کو ان کے علاوہ کوئی قیادت فراہم نہیں کرسکتی ہے۔پاپولر فرنٹ کی یہی سوچ اور حقائق کے برخلاف خوش گمانی نے اسے ملک کی مقتدر تنظیموں اور اہم شخصیات سے دور کردی۔مگر اس کے باوجود یہ کوئی اتنا بڑاجرم نہیں ہے کہ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں اختلافات رائے کا گلا گھونٹ دیا جائے ۔تاہم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے پر اس وقت پابندی عائد کرنے کے سے حکومت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا سمیت اس کی دیگر 6ذیلی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے مگر پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے سیاسی ونگ ایس ڈی پی آئی اس پابندی کی زد سے کیوں بچ گئی ہے۔بلاشبہ ایس ڈی پی آئی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ایک سیاسی جماعت ہے ، اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا حق الیکشن کمیشن کو ہے تاہم ایس ڈی پی آئی کی انتخابی سیاست میں موجودگی سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہونے والا ہے۔اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے؟۔کیا پاپولر فرنٹ پر پابندی ملک کے مفادات میں اٹھایا قدم ہے یا پھر سیاسی قدم ہے؟۔پاپولر فرنٹ پر پابندی کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف پابندی کے مطالبات کیوں کئے جارہے ہیں ۔کیا دونوں تنظیموں کے طریقے کار میں مماثلت ہے۔یہ وہ سوالات پر جس پر غور کئے بغیر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
مرکزی حکومت کا نوٹی فی کیشن اور قانونی تقاضے
مرکزی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کئے جانے کا جواز اپنے نوٹی فیکشن میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ایف آئی اور اس سے منسلک تنظیمیں سماجی، اقتصادی اور سیاسی تنظیم کے طور پر کام کرتی ہیں، لیکن وہ ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت سماج کا حصہ ہیں۔پی ایف آئی کے پلیٹ فارم سے ایک مخصوص طبقے کو جنونی بنا کر جمہوریت کے تصور کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی تھی ۔علاوہ ازیں پی ایف آئی کئی مجرمانہ اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث رہی ہے اور یہ ملک کی آئینی اتھارٹی کی توہین کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ بیرون ممالک سے فنڈنگ کی جارہی تھی ‘‘۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے حکومت کے ذریعہ عائد کی گئی پابندی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں اور اکائیوں کو تحلیل کردیا ہےمگر پاپولر فرنٹ آف انڈیا کےلئے قانونی راہیں اب بپھی کھلی ہوئی ہیں۔یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کے جانے کے بعدفرنٹ کے پاس اپنا مقدمہ کسی ٹریبونل کے سامنے پیش کرنے کا اختیار ہے۔ٹربیونل ہی حکومتی نوٹی فیکشن کی تصدیق کرے گی۔
کسی تنظیم کو یوا ے پی اے کی دفعہ 3کے تحت غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔ شق میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا کوئی نوٹیفکیشن اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوگا جب تک کہ ٹریبونل، سیکشن 4 کے تحت کیے گئے ایک حکم کے ذریعے، اس میں کیے گئے اعلان کی تصدیق نہیں کرتا اور حکم کو سرکاری گزٹ میں شائع نہیں کیا جاتا۔ تاہم، غیر معمولی حالات میں، نوٹیفکیشن فوری طور پر نافذ ہو سکتا ہے جب اس کی وجوہات تحریری طور پر درج ہو جائیں۔ جیسا کہ اس معاملے میں کیا گیا ہےتاہم ٹریبونل اس کی توثیق یا مسترد کر سکتا ہے۔پابندی عائد کے جانے والے نوٹیفکیشن کو 30 دنوں میں ٹریبونل تک پہنچنا چاہیے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا اس اقدام کے لیے کافی ٹھوس شواہد دلائل اور وجوہات ہیں یا نہیں ۔ٹربیونل 6مہینے میںٹربیونل کوفیصلہ سنانا لازمی ہوتا ہے۔ کوڈ آف سول پروسیجر، 1908 کے تحت دیوانی عدالت کو جو اختیارات حاصل ہیں ویہی اختیارات ٹربیونل کا حاصل ہیں ۔تاہم بیشتر مواقع پر ٹربیونل نے حکومت کے رٹ کو ہی تسلیم کیا ہے ۔2008میں مختصر مدت کےلئے سیمی پر پابندی ہٹانے کے علاوہ ٹربیونل نے ذاکر نائک، سکھ فارجسٹس اور جے کے ایل ایف کے خلاف حکومت کی پابندی کو ہی جاری رکھا ہے۔ایسے میں ٹربیونل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ پی ایف آئی کے معاملے میں حکومت کی منشا کے برخلاف کوئی فیصلہ سنائے گی۔یو اے پی اے تحت پابندی عائد کی جانے والی تنظیموں کے خلاف اکثر حکومت مہربند لفافے میں ثبوت دیتی ہے۔ا س کی وجہ سے کسی تنظیم کو اپنے دفاع کا موقع بھی نہیں ملتا ہے۔
پی ایف آئی کی مختصر تاریخ
1980 کی دہائی میں عسکریت پسند ہندوتوکے عروج اور 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ نے بھارت میں طرزحکمرانی اور مسلمانوں کی سیاسی سوچ اور اپروچ میںنمایاں تبدیلی واقع ہوئی ۔اس دور میں دہلی کی جامع مسجد کے امام مولانا عبداللہ بخاری کی ’آدم سینا‘ سے لے کر بہار کی ’پسماندہ مسلم محاذ‘ اور ممبئی کی ’انڈین مینارٹی سیکیورٹی فیڈریشن‘ اسی دور میں وجود میں آئیں۔جنوبی ہند کی ریاست کیرالہ میں نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ(این ڈی ایف)، تمل ناڈو میںمنیتھا نیتی پسارائی ور کرناٹک میں ’’کرناٹک فورم فار ڈگنیٹی‘‘ بھی اسی عرصے میں قائم کی گئیں۔تاہم چند سالوں بعد جنوبی ہند کی ان تینوں تنظیموں کے درمیان تعامل و توافق کی شروعات ہوئی اور مقاصد میں یکسانیت ہونے کی وجہ سے 22 نومبر 2006 کوکیرالہ کے کوزی کوڈ میں منعقدہ ایک میٹنگ میںجنوبی ہند کی ان تینوں تنظیمیں’’ پاپولر فرنٹ آف انڈیا ‘‘ کے بینر تلے ضم ہوگئی ۔فروری 2007سے باضابطہ طور پر کام کرنا شروع کردیا۔اس کے اگلے دوسال بعد مغربی ہندوستان کی ریاست گوا، راجستھان ، آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاست منی پور کی پانچ تنظیمیں بھی پی ایف آئی میں ضم ہوگئیں۔آکسفورڈ کے اسکالر والٹر ایمرک نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد بھی بھارتی مسلمانوں کی قیادت عمومی طور پر شمالی ہند کی تنظیمیں کرتی تھیں اور ان ہی ریاستوں کے قائدین کو قومی سطح کا لیڈر تسلیم کیا جاتا تھا۔گرچہ انفرادی طور پر ہندوستان کی سیاسی افق پر غلام محمود بنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ اورصلاح الدین اویسی جیسی شخصیات ابھریں اور مسلمانوں کی آواز بھی بنے مگر انہیں پان انڈیا کے لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔پی ایف آئی بھارت کی پہلی ایسی تنظیم ہے جسے جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے چلارہے تھے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے قائدین نے پی ایف آئی کو کیڈر پر مبنی جماعت تشکیل تھی۔اپنے کارکنان کی تربیت اور اس کے اصلاح کےلئے ٹریننگ کیمپ منعقد کرتے تھے ۔ پی ایف آئی کی ویب سائٹ پر مقاصد اور تعارف کے تحت لکھا ہے کہ ہمارا مقصد سماجی اور اقتصادی مساوات قائم کرنا ہے، وہ قومی اتحاد اور سالمیت کے تحفظ کے ساتھ اس کا مشن ایک غیر امتیازی معاشرہ قائم کرنا ہے، جس میں سب کو آزادی، انصاف اور تحفظ مل سکے اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے وہ موجودہ سماجی اور اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تاکہ دلت، آدیواسی اور اقلیتوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔
چند ماہ قبل انگریزی نیوز پورٹل دی پرنٹ نے ’’پی ایف آئی ‘‘ سے متعلق زمینی رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی ۔دی پرنٹ نے پروفیسر کویا جو اس وقت این آئی اے کے ذریعہ گرفتار ہیں کی وضاحت کو نقل کرتے ہوئےلکھا ہے کہ انہوں نے 1982میں ہی سیمی سے علاحدگی اختیار کرلی تپی اور اس کے ایک دہائی بعد 1993میں بابری مسجد کی شہادت اور ہندتو فاشزم کے عروج کے رد عمل میں این ڈی ایف قائم کیا تھا۔پروفیسر کویا نے بتایا تھا کہ 1992میں ہندو فسطائی قوتوں کے ذریعہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ روایتی مسلم تنظیمیں مسلم کمیونٹی کے خدشات کے تدارک اور اس کا حل کرنے کے قابل نہیں ہے۔سیمی سے تعلق ہونے کے الزام میں وہ کہتے ہیں کہ دس سال تک این ڈی ایف اور سیمی متوازی طریقے سے کام کیا۔سمی اور ہماری فکر میں بنیادی فرق تھا ۔سیمی کا خیا ل تھا کہ اسلام ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ایک تکثیری ملک ہے جس میں بہت سے مذاہب ہیں۔ اس لئے تکثیری معاشرے میں غیرامتیازی معاشرہ ، آزادی اور انصاف کے حصول کی راہ ہموار ہمارا بنیادی ایجنڈا ہے۔
این آئی اے کے ذریعہ گرفتار پی ایف آئی کے لیڈران دہشت گردی میں ملوث ہیں یا نہیں ۔یا پھر مرکزی ایجنسی ا ن کے تعلق ملک دشمن بیرونی طاقتوں سے ثابت کرپائے گی یا نہیں یہ ایک طویل قانونی جنگ ہے۔ایک دو واقعات کو چھوڑ کر پی ایف آئی کی قیادت کے خلاف اب تک کوئی بڑے ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں ۔تاہم پی ایف آئی پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد قومی نیوز چینلوں کے رویے کو حیرت انگیز اور تعجب خیز نہیں بتایا جاسکتا ہے۔کیوں کہ مسلمانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے معاملات میںعموماً ان چینلوں کارویہ یہی ہوتا ہے۔مگر چند نیوز چینلوں نے پی ایف آئی پر پابند ی کو ’’ہندو فوپیا‘‘ سے جوڑ کر دعویٰ کیا کہ پی ایف آئی پرپابندی سے ہندئوں کے خلاف مہم پر روک لگے ۔متوازن اور معتدل رپورٹنگ کےلئے مشہور این ڈی ٹی وی اور انڈین ایکسپریس بھی اس معاملے میں خود کو متوازن نہیں رکھ پائے۔انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریہ میں پی ایف آئی کو ’’اسلامی عسکریت پسندی‘‘ سے جوڑ نے کی کوشش کی ہے۔پی ایف آئی کے کسی بھی لیڈر کا کوئی بیان ریکار پر موجود نہیں ہے جس میں وہ اسلامائزیشن کی بات کی ہو۔جب کہ انڈین ایکسپریس ’’ہندو عسکریت پسندی‘‘ یا پھر سیکولر بھارت کے مقابلے ہندو راشٹر کے قیام کی کوششوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔انگریزی اخبار نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عوامی زندگی میں مسلمان بے دخل ہورہے ہیں ، ریاستی ایجنسیوں کے ذریعہ حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور قومی دھارے کی سیکولر جماعتیں آئین کی حفاظت کےلئے کھڑےہونے سے گریز کررہی ہے۔اس کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی میں اضافہ ہوا ہے ۔پی ایف آئی نے اسی عدم اعتمادی اور مایوسی کا فائدہ اٹھایاہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو کنارہ لگانے کی کوشش کون کررہا ہے۔وہ کونسی طاقتیں ہیں جنہوں نے ملک کی اکثریت کے ذہن و دماغ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت بھر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات کےلئے آر ایس ایس کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے۔گاندھی جی کے قتل سے لے کر ا ب تک آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کےجرائم کی فہرست طویل ہے۔بابری مسجد کی شہادت،ملک کے طول و عرض میں ہونے والے فرقہ اوارانہ فسادات اور مسلمانوں کا قتل عام، مالیگائوں، اجمیر اور نانڈیر بم دھماکے ، اڑیسہ میں گرجا گھر کے پادری گراہم اسمتھ اور اس کے خاندان کے بہیمانہ قتل کے پیچھے انہیںتنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ بناد پرستی کی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزائم اور قوت ارادی پر سوال اٹھ رہے ہیں ؟۔ مسلمانوں لنچنگ، حملے اور مسلمانوں کا قتل عام جیسی سنگین دھمکی دینے والے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل ،ہندو جن جاگرتی سمیتی یا سناتھن سنستھا جیسی تنظیمیں جو گزشتہ کئی د ہائیوں میں اور اس سے پہلے کے سلسلہ وار قتل و غارت اور بم دھماکوں میں ملوث رہی ہیں۔سے متعلق خاموشی یہ ثابت کرتا ہے کہ مرکزی بنیاد پرستی کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہے اور مہنگائی ،بے روزگاری،ملک میں عدم معاشی استحکام ،سیاسی خلفشار کی وجہ سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ہزاروں کوششوں کے باوجود راہل گاندھی کی بھارت جوڑ یاترا موضوع بحث ہے۔آر ایس ایس فرقہ واریت سیاست پر کھلے عام چرچے ہورہے ہیں ۔ایسے پس منظر میں، پی ایف آئی کی پابندی موجودہ سیاسی بحث کی رخ کو موڑنے کی کوشش ہے اور ہندو مسلم پولرائزیشن کا فائدہ ہمیشہ بی جے پی کو ملا ہے۔2024کے قومی انتخابات میں کانگریس اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں جمود کی شکار معیشت، فرقہ وارانہ انتشار اور بے رزگاری جیسے موضوع کو شدت کے ساتھ اٹھارہی ہے ۔جب کہ بی جے پی پولرائزیشن کے حربے کا سہار ا لے کر بی جے پی انتخابی نظریات کو تشکیل دے رہی ہے۔چناں چہ کئی سیاسی تجزیہ نگاروں نے ایس ڈی پی آئی پر پابندی عائد نہیں کئے جانے کو سیاسی انجینئرنگ کےطور پر دیکھ رہے ہیں ۔کیوں کہ ایس ڈی پی آئی کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو کے ساحلی اضلاع میں تیزی سے مقبول ہوئی ہے اور کرناٹک میں تو پنچایت اور مقامی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ایس ڈی پی آئی کی موجودگی کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کیرالہ میں مسلم لیگ کی پکڑ کو کمزور کرنے کےلئے بائیں محاذ اندرون خانہ ایس ڈی پی آئی مدد کرتی رہی ہے۔چناں چہ اگر سیاسی تجزیہ نگار اگر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پی ایف آئی ایک نرم چارہ تھی، کیوں کہ وہ مسلمانوں کی روایتی تنظیموں سے الگ تھلگ تھی اس لئے اس پر پابندی عائد کرکے سیاسی انجینئرنگ کی گئی ہے اب دیکھنا ہے کہ گجرات، تلنگانہ اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں اس سیاسی انجینئرنگ کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے یا نہیں ؟