افروز عالم ساحل
’ہر الیکشن کی ایک خاصیت، خوبی اور اہمیت ہوتی ہے جو سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کے لیے ہی نہیں بلکہ ووٹروں کے لیے بھی اہم ہوتا ہے۔ اتر پردیش کو کچھ مورخ ہندوستانی سیاست کا ’ہارٹ لینڈ‘ کہتے ہیں کیوں کہ یہ اس ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں اس صوبے میں ہیں۔ اسمبلی سیٹیں بھی سب سے زیادہ یہیں ہیں۔ یہاں جو پارٹی بھی زیادہ سیٹیں جیتے گی اس کی راجیہ سبھا میں نمائندگی بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ جو ’ہندوتوا پروٹاگونسٹ‘ ہیں اور جن کی تعداد ان دنوں بہت بڑھ گئی ہے ان کی یہ کوشش ہے کہ ہندوستانی سیاست کے ’ہارٹ لینڈ‘ پر ان کا قبضہ برقرار رہے۔ دوسری طرف اس صوبہ میں مسلم تناسب کئی اعتبار سے فیصلہ کن ہے۔ صرف آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بعض دوسرے اعتبارات سے بھی اتر پردیش میں مسلمانوں کی اہمیت ہے۔ آزادی کی لڑائی میں یہاں کے مسلمانوں کا بہت بڑا رول رہا ہے۔۔۔‘
یہ باتیں ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد نے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں یو پی کی فرقہ وارانہ سیاست پر سجن کمار اور سودھا پائی کی کتاب ’ایوری ڈے کمیونلزم‘ مارکیٹ میں آئی، اس میں جو ریسرچ ہے اس کو تھوڑا اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سال 2002 میں گجرات میں قتل عام کیا گیا، اس کے مقابلے میں یو پی میں چھوٹے چھوٹے معاملے سامنے آئے۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اس کا فائدہ حکومتوں کو یہ ہوتا ہے کہ جب تک فرقہ واریت برقرار رہتی ہے دوسرے مسائل جیسے سڑک، بجلی، پانی، تعلیم، صحت، قانون و انتظام وغیرہ تمام سوالوں سے لوگوں کا ذہن بھٹکا دیا جاتا ہے اور انہیں صرف ہمہ وقت تصادم میں رہنے والا مذہبی شناخت والا بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ووٹ حاصل کرنا سب سے آسان ہو جاتا ہے۔‘
کیا کسان تحریک کا کوئی اثر اس الیکشن پر پڑے گا؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران کسان اور حکومت کے درمیان تصادم تو ضرور ہوا، لیکن وہ تصادم الیکٹورل پولیٹکس میں ووٹ میں تبدیل ہوگا یا نہیں، یا یو پی کے کسان بی جے پی مخالف محاذ میں شامل رہیں گے یا نہیں، یا ان کی ایک بڑی تعداد اس تصادم کے باوجود بی جے پی کی طرف رہے گی، یہ کہنا مشکل ہے۔ حالانکہ موجودہ حکومت سے لوگوں کی ناراضی بظاہر تو نظر آرہی ہے لیکن ووٹنگ والے دن بھی یہ جذبہ برقرار رہے گا یا ان پر بھی فرقہ وارانہ سیاست حاوی ہوجائے گی یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔
پروفیسر محمد سجاد مزید کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں جب شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مسلمانوں نے پرامن مظاہرہ کیا تھا تو ان کے خلاف بہت سخت اقدامات کیے گئے جنہیں قانونی اقدامات کہنا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی سطح پر کافی زیادتیاں دیکھی گئیں۔ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کے بارے میں اکثریتی طبقے میں انصاف پسندانہ خیالات نہیں ہیں تو صرف اقلیت اپنے آپ کو یکجا کرکے بھی کیا کرے گی؟ وہ مزید کہتے ہیں کہ یو پی میں مسلمانوں کے خلاف سرکاری ظلم عروج پر ہے تو ایسی صورت میں اگر اقلیتیں متحد بھی ہو جائیں تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کہ جب تک اکثریت کو یہ احساس نہ ہو کہ اقلیتوں کے ساتھ بی جے پی حکومت زیادتی کر رہی ہے، اس لیے دوبارہ اسے اقتدار نہیں ملنا چاہیے اور حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول نہیں کر پارہی ہے لہٰذا اسے دوبارہ منتخب نہیں ہونا چاہیے صرف مسلمان اپنی مظلومیت کی داستان سنا کر خود کو متحد کرکے بھی کوئی بڑی سیاسی تبدیلی نہیں لا پائیں گے۔ صرف یہ خیال کہ متحد ہو کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے خود کو محفوظ کر پائیں گے مشکل ہے، تاوقتیکہ اکثریت ان کے ساتھ نہ ہو جائے۔
تو پھر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ انتخابی سیاست شہریت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جمہوری ملک میں ہر شہری دوسرے شہری کے برابر ہوتا ہے۔ جب شہری کو مسلمان اور ہندو بنا دیا جائے تو مسلمان ہمیشہ ایک ’ویلین‘ ہی نظر آئے گا۔ اس لیے یہ سوال مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اگرچہ مسلمانوں کو مسلمان کی شناخت کی وجہ سے ستایا جا رہا ہے۔ مسلمان جب تک اپنی شناخت کے نام پر ووٹ دیتے رہیں گے وہ برابر کے شہری نہیں بن سکیں گے اور اپنے حقوق نہیں حاصل کرسکیں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ شہری چاہے مسلمان ہوں یا ہندو انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ سڑک، بجلی، پانی، تعلیم، صحت، ڈیولپمنٹ، لا اینڈ آرڈر، ان تمام چیزوں کے لیے کون سی پارٹی بہتر ہے اور اگر وہ پائیں کہ کوئی بھی پارٹی بہتر نہیں ہے تو صرف ایک ہی پارٹی کو کیوں بار بار موقع دیں۔ تبدیلی ہوتی رہنی چاہیے۔ جب تک سوچ میں تبدیلی نہیں ہو گی کچھ خاص ہونے والا نہیں ہے۔
شناخت کی سیاست سے باہر آنا ہوگا۔۔۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ شناخت کی سیاست کی اپنی حدیں ہیں۔ چاہے وہ مذہبی ہوں لسانی ہوں یا پھر ذات پات کی ہوں انہیں ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ شناخت پر مبنی سیاست کی حدیں اب انتہا کو پہنچ چکی ہیں، اس لیے لالو یادو اور مایاوتی کی سیاست ایک نقطہ پر جاکر کمزور پڑ گئی۔ شناخت کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا پڑتا ہے۔ ہندوتوا پولیٹکس کا بھی ایک نہ ایک دن خاتمہ ہونا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ اٹلی، جرمنی یا ان تمام ممالک میں جہاں اس طرح کی آمرانہ حکومتیں تھیں وہ ختم ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ جتنا عرصہ رہیں گی ایک مخصوص گروپ کو نقصان پہنچاتی رہیں گی لیکن دراصل یہ نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ اگر کسی ریاست میں فرقہ پرستی حاوی ہے تو اس فرقہ پرستی کے زہر کا تریاق سیکولرزم ہے۔ اس کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت، بہوجن سب کو ایک ساتھ سیکولر سیاست کے لیے آگے آنا پڑے گا۔ ان سب کو ایک ساتھ متحد ہونا پڑے گا۔
خود احتسابی کی ہے ضرورت ہے
وہ کہتے ہیں کہ مظلوم قوم کو ظلم سے نمٹنے کے طریقے سیکھنا چاہیے۔ اسے اپنا احتساب بھی کرنا ہو گا کہ آخر ہمیں آج پریشان کیوں ہونا پڑ رہا ہے۔ اگر ملک میں ہندوتوا غالب ہو رہا ہے تو کیوں؟ پچھلی دہائیوں میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہو گا جس سے اسے طاقت ملی۔ اس کا احتساب بھی ضروری ہے کہ کہاں کہاں سیکولر ڈیموکریٹک فورسیز کے پاس کون سی کمیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے یہ طاقتیں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی خود کی کمیوں پر بھی غور کیا جائے اور ان سے سبق لے کر آگے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
پروفیسر سجاد کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا تجزیہ جب آپ پوری گہرائی کے ساتھ غیر جانب دارانہ، ایماندارانہ و منصفانہ طریقے سے کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آگے حکمت عملی و نظریاتی اعتبار سے کون سا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، دونوں سطحوں پر کون سی ترکیبیں اختیار کرنی چاہئیں جن سے ہندوتوا کا زور ٹوٹے اور ملک میں جمہوریت و مساوات کی سیاست مضبوط ہو۔
یہ کام ہم ہی کیوں کریں؟ دوسری کمیونٹی کے لوگ کیوں نہیں؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر سجاد کہتے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر سیکولر سیاست کمزور ہوتی ہے اور شناخت کی سیاست مضبوط ہوتی ہے تو دوسری کمیونٹی کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسائل کا ہم ہی کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر آپ ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ اپنی شناخت بچا لیں گے تو سب بچ جائے گا، تو میری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی قوم اپنی شناخت بچا پاتی ہے جو تعلیم، ٹیکنالوجی، میڈیا اور تجارت کے میدان میں آگے ہوتی ہے۔ اگر آپ تعلیم، روزگار اور کاروبار کا انتظام نہیں بلکہ صرف اپنی شناخت کی سیاست کریں گے تو یاد رکھیں کہ کچھ بھی بچنے والا نہیں ہے۔
پروفیسر سجاد کہتے ہیں کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہو رہا ہے تو پھر سیکولر سیاست کو بچانے میں پیش پیش مسلمانوں کو ہی رہنا پڑے گا۔ فرقہ وارانہ سیاست کا جواب سیکولر سیاست ہی ہو سکتا ہے۔ اب اگر سیکولرزم کو لادینیت کہہ کر مسلمان بھی کمیونل سیاست کریں گے تو اقلیت ہونے کے ناطے آپ کو ہر وقت کمزور رہنا ہے، اور یہ جو مقابلہ جاتی فرقہ واریت کی سیاست ہے اس میں اقلیت ہمیشہ پٹے گی۔ اس بات کو حکمت عملی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
کون ہیں پروفیسر محمد سجاد؟
پروفیسر محمد سجاد بہار کے ضلع مظفر پور میں پیدا ہوئے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے یہاں طلبا کو جدید اور عصری تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جدید تاریخ پڑھاتے تھے۔ ان کے والد محمد عقیل مرحوم کا تعلق بھی درس و تدریس سے تھا، جو بہار کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اردو اور تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔
واضح رہے کہ پروفیسر محمد سجاد کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی پہلی مشہور کتاب Muslim Politics in Bihar: Changing Contours کو Routledge نے شائع کیا۔ اسی سال مظفر پور کے مسلمانوں پر 1857 سے 2012 تک کا احاطہ کرنے والی کتاب Contesting Colonialism and Separatism: Muslims of Muzaffarpur Since 1857 شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ گزشتہ سال قومی اردو کونسل نے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘‘ گزشتہ سال ہی منظر عام پر آئی ہے۔ ابھی اسی مہینے ان کی کتاب ’ہندوستانی مسلمان : مسائل و امکانات‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی شائع ہوکر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ سال 2019 میں Remembering Muslim Makers Of Modern Bihar ایڈیٹ کیا تھا۔ وہ اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں ملک کے متعدد اخباروں اور ویب سائٹوں پر کالم لکھتے ہیں۔ اگلے کچھ دنوں میں یو پی الیکشن پر سینئر جرنلسٹ انیل مہیشوری کی ایک کتاب آرہی ہے، جسے اوم بکس انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں یو پی کی مسلم سیاست پر ان کا ایک چیپٹر بھی شامل ہے۔
بشکریہ:ہفت روزہ دعوت