Saturday, July 27, 2024
homeادب و ثقافتشعر و ادب میں مسئلہ فلسطین کی گونج... معین شاداب

شعر و ادب میں مسئلہ فلسطین کی گونج… معین شاداب

مسئلہ فلسطین نے عربی ادب کو تو نئی جہت اور عطا کی ہی ہے، دیگر زبانوں کے ساتھ اردو شاعری کو بھی مالا مال کیا ہے۔ اس سے مزاحمتی ادب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

مسئلہ فلسطین نے ہر حساس شخص کو متاثر کیا ہے۔ فلسطین عالمی ادب کا موضوع رہا ہے۔ شعراء و ادباء معاشرے کے حساس ترین فرد ہوتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں ان کے قلم کی جنبش فطری ہے۔ اس بڑے المیے کے سبب قلم کاروں کے احساسات درد وکرب کے گوناں گوں تجربات سے گزرے ہیں، جس کے اظہار نے ادب کو وسعت بخشی ہے۔ ناول، کہانی، نظم سمیت نثر اور شاعری کی بہت سی اصناف میں فلسطین کا درد بیان کیا گیا ہے۔ ادب ہی نہیں آرٹ سمیت دیگر فنون لطیفہ میں اس دکھ کی عکاسی کی گئی ہے۔ مسئلہ فلسطین نے عربی ادب کو تو نئی جہت اور عطا کی ہی ہے، دیگر زبانوں کے ساتھ اردو شاعری کو بھی مالا مال کیا ہے۔ اس سے مزاحمتی ادب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ارض فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے اور وسیع تر اسرائیل کے منصوبے کے خلاف قلم کاروں نے احتجاج درج کرایا ہے۔

شعراء نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت، اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کی جدو جہد آزادی، مزاحمت، آشفتہ سری،عزم محکم، یقین کامل، ارض وطن کے لئے جذبہ شہادت، ایمان کی طاقت کو بھی سلام کیا ہے اور ان کا دکھ منظوم کیا ہے۔ فلسطینوں کی جنگ تلواروں کے ساتھ لفظوں سے بھی لڑی جاتی رہی ہے۔ معصوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر شعرا کا کلیجہ پھٹ پڑتا ہے۔ شعرا نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے، ظلم کرنے والوں پرلعن طعن کی ہے، اسرائیل اور اس کے حلیفوں اور سرپرستوں کو کھری کھوٹی سنائی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین پر غاصبانہ صہیونی تسلط کے بعد سے آج تک فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کے خلاف آواز بلند ہے۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم ادیبوں نے بھی فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آوازبلند کی۔ ان میں ایڈورڈ سعید، حنا اشروی، لیلیٰ خالد، جورج گیلو وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

فلسطین کے ادیب غسان کنفانی، فضل النجیب، محمد علی طلحہ، ابو شاور، یحییٰ یخلف، ذکی درویش، نگارلیانہ بدر، سحر خلیفہ، نے فلسطین کے سانحے پر کہانیاں لکھیں، جن کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ یہاں کے شعرا میں توفیق زیاد، سمیع القاسم، سلمیٰ الخضرالجبوی، عدیل وجدان، عرہ فدوی طوفان وغیرہ کی شاعری فلسطین کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہ شعرا مقبوضہ یروشلم، غزہ کے علاوہ غیر مقیم فلسطینی بھی تھے۔

فلسطین کے حق میں مزاحمتی شاعری کا سب سے اہم شاعر محمود درویش کو مانا جاتا ہے۔ وہ عربی زبان کے نمائندہ اور بے باک شاعر تھے۔ ان کا اپنا نقطہ نظرتھا۔ محمود درویش نے تو فلسطین کے غم کو اپنی زندگی کا جز بنا لیا تھا۔ ان کو فلسطین کی سانس کہا گیا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’تتلی کا بوجھ‘ ہے۔ تتلی کو انھوں نے اپنے وطن کا استعارہ بنایا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقوام عالم ان کی تتلی کو بوجھ سے نجات دلائیں۔ ان کی شاعری فلسطین کے آزادی کے خواب سے عبارت ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطین کی آزادی کا خواب اْن کو قبر میں بھی چین کی نیند نہیں سونے دے گا۔ محمود درویش نے فلسطین کا قومی ترانہ لکھا۔ اْن کے تقریباً تیس شعری مجموعے ہیں۔ جن میں بے بال و پر پرندے، زیتون کے پتے، انجام شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام کتابوں کی ایک ایک سطر مقبوضہ فلسطین کے کرب اور فلسطینیوں کے احساسات کا اظہاریہ ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں محمود درویش کی نظم ’شناختی کارڈ‘ پر بحث ہوئی۔

یروشلم کی سلمیٰ الخضرالجیوی نے محمود درویش کو یوں خراج عقیدت پیش کیا :

میں جانتی ہوں کہ وہ مر گئے تاکہ یہ وطن زندہ رہ سکے

ہمارا وطن مقتولوں کا وطن خون میں بھیگا ہوا کھیت

میں جانتی ہوں آزادی سرخ ہے اور یہ اس کی قیمت ہے

محمود درویش فلسطین کی پہچان اس کا عنوان ہیں۔

تمہاری آنکھیں فلسطینی ہیں تمہارا نام فلسطینی

تمہارے خواب، خیال و تمہار ا بدن، تمہارے پیر

تم حیات میں بھی فلسطینی ہو موت میں بھی فلسطینی رہو گے

فلسطینی شاعرہ، مصنفہ اور سماجی کارکن ڈاکٹر حنان داوود عشراوی 15برس کی عمر میں شعر کہنے لگی تھیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں فلسطین کے تئیں اقوام عالم کی بے حسی اور مسلم ممالک کے تغافل کو اپنی فر کا موضوع بنایا۔ رفیف زیاد فلسطینی تحریک کی سرگرم کارکن، شاعرہ، فن کارہ، صدا کارہ اور معلّمہ تھیں۔ رفیف زیادہ نے کم سنی میں ہی 1982 میں فلسطینیوں کے کیمپ میں قتل عام کو دیکھا۔ ان کا خاندان بھی اس حادثے کی زد میں آگیا۔ اس قتل عام کے مناظرمعصوم رفیف کے حساس ذہن میں ثبت ہو گئے۔ انھوں نے کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی۔ رفیف زیادہ نے کبھی اپنی مقبوضہ سرزمین نہیں دیکھی۔ رفیف اور اس کا خاندان زیادہ تر ٹورنٹو میں آباد ہے۔ انھوں نے لندن میں بہت دنوں تک اپنی شاعری کے ذریعے فلسطین کے حالات سے یورپی اور برطانوی عوام کو آگاہ کیا۔ وہ موسیقی کے ساتھ اپنی شاعری کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتی تھیں۔ ان کی ایک نظم غصے کی پرچھائیاں بہت مشہو ہوئی، جو کناڈا یونیورسٹی میں ایک طالب علم کے نفرت انگیز رویے کے خلاف لکھی گئی تھی۔

جہاں تک برصغیر یا اردو قلمکاروں کا تعلق ہے علامہ اقبال سے ہی یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے فلسطین کے حق میں مولانا حسرت موہانی نے بھی آواز بلند کی۔ فیض احمد فیضؔ کی تو اس موضوع سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ اسرائیل کا قیام یوں تو اقبال کی وفات کے تقریباً دس برس بعد عمل میں آیا، لیکن وہ پہلے ہی سے اس خطے میں سامرا جی سازشوں سے آگاہ تھے۔ ضرب کلیم میں شامل ایک نظم ’شام و فلسطین‘ میں انھوں نے یہودیوں کے دعوے کی کاٹ یوں کی ہے:

زندان فرانسیس کا مے خانہ سلامت

پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہدوعنب کا

اقبال نے اور بھی کئی نظموں میں فلسطین کا مقدمہ لڑا ہے۔

فیض احمد فیض نے فلسطینی مجاہدوں کے لئے ایک ترانہ لکھا تھا جو ان کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کی طرز پر ہے:

حقّا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

کیا خوف ز یلغارِ اعداء

ہے سینہ سپر ہر غازی کا

کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا

صف بستہ ہیں ارواح الشہدا

ڈر کاہے کا!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اک دن جیتیں گے

قد جاء الحق و زَہَق الباطِل

فرمودہ ربِّ اکبر

ہے جنت اپنے پاؤں تلے

اور سایہ رحمت سر پر ہے

پھر کیا ڈر ہے!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

فیض احمد فیض نے فلسطینی بچے کے لیے لوری لکھی:

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچے

کچھ ہی پہلے

تیرے ابا نے

اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچے

تیرا بھائی

اپنے خواب کی تتلی پیچھے

دور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچے

تیری باجی کا

ڈولا پرائے دیس گیا ہے

مت رو بچے

تیرے آنگن میں

مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں

چندرما دفنا کے گئے ہیں

مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی

چاند اور سورج

تو گر روئے گا تو یہ سب

اور بھی تجھ کو رلوائیں گے

تو مسکائے گا تو شاید

سارے اک دن بھیس بدل کر

تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

فیض احمد فیض کی ایک اور مشہور نظم ہے:

میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن

تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے

تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے

تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی

تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی

سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا

کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا

دور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں

اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں

جس زمیں پر بھی کھْلا میرے لہو کا پرچم

لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

اس کے علاوہ ابن انشا، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی ‘‘ادا جعفری ‘ احمد فراز ‘ زہرہ نگاہ ‘ کشور ناہید ‘ اسلم فرخی ‘فہمیدہ ریاض ‘ شاہدہ حسن سمیت بہت سے شعرا وشاعرات نے فلسطین پر نظمیں لکھیں۔ احمد ندیم قاسمی کا ایک بہت مشہور شعر ہے:

یک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

ہندوستان میں رفعت سروش (اے ارض فلسطین)، قیصر الجعفری (حریف جاں )، ف س اعجاز (اگلے کرسمس میں) اور حنیف ترین کے نام قابل ذکر ہیں۔ نعیم صدیقی، (یروشلم)، محمد ایوب بسمل کوثر صدیقی، عائشہ مسرور (نئی لوری) نے بھی نظمیں کہیں ہیں جو حوالوں میں رہی ہیں۔ حنیف ترین نے مسئلہ فلسطین پر خصوصیت کے ساتھ قلم اٹھایا۔ ان کے مختلف شعری مجموعوں میں ایسی درجنوں نظمیں اور غزلیں ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی پر مشتمل ان کی نظم ‘باغی سچے ہوتے ہیں’ کافی مشہور ہوئی۔ اس نظم میں انھوں نے بے باکی کے ساتھ فلسطین کے مظلوموں کے درد کو بیان کیا ہے۔

پاکستان میں الطاف فاطمہ، خالدہ حسن، انتظار حسین، خالد سہیل نے اپنی کہانیوں میں فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کیا۔ الطاف فاطمہ نے تو فلسطین کے غم کو اپنا غم بنالیا تھا، جیسے خود فلسطینی ہوں۔ وہ کہتی تھیں فلسطین کی تحریک آزادی میں لفظ اتنے ہی اہم ہیں جتنی تلواریں۔

عرب ممالک کے شعرا کی فلسطین پر کی گئی شاعری کے تراجم کی روایت بھی مستحکم ہے۔ پاکستان میں امجد اسلام امجد، کشور ناہید، زاہدہ حنا، محمد کاظم اور آصف فرخی وغیرہ نے یہ کام کیا ہے۔ امجد اسلام امجد نے تقریباً چار دہائی قبل احمد ندیم قاسمی کی تحریک پر سید محمد کاظم کے تعاون سے عرب دنیا کے کچھ شاعروں کی فلسطین پرکہی گئی مختلف نظموں کے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا جن میں محمود درویش، نزار قبانی، سمیع القاسم، فدویٰ توقان اور عبدالوہاب البیاتی اور نازک الملائکہ وغیرہ کا کلام شامل تھا۔

امجد اسلام امجد نے ایک دو برس قبل اپنے کسی کالم میں نازک الملائکہ کی اس نظم کو کوٹ کیا تھا ۔اس کا ایک بند دیکھیں:

اْس کی دستک کے سمے وقف تحیر ہم لوگ

دشت غلفت میں کھڑے دیکھتے تھے

بے سحر رات کی بے فاصلہ پنہائی کو

خاک سے تابہ فلک کھلتے چلے جاتے تھے

لشکر غم کے علم

اس کی دستک کی صدا سن کے کوئی کہنے لگا

آخر کار کوئی آیا ہے

وہ چمن جس کو غنیموں نے خزاں بخت کیا

اس کے بارے میں کوئی اچھی خبر لایا ہے

قاصد اہل وطن آیا ہے

شاید اْس پاس کوئی اچھی خبر ہو جو ہمیں

غم کے بے نام الاؤ سے رہائی دے دے

نطق خاموش کو پھر نغمہ سرائی دے دے

ہم نے روتی ہوئی آنکھوں سے اٹھائیں پلکیں

اور امید بھرے دل سے کہا

اے گئی رات کے مہمان، بتا کون ہے تو؟

امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ ’’اگرچہ یہ سب کی سب پر اثر اور زبردست نظمیں 1967 کی جنگ حزیران میں فلسطینیوں کی شکست، جلاوطنی اور جذبۂ انتقام کے حوالے سے لکھی گئی تھیں مگر جس انداز میں نازک الملائکہ نے اس صورتحال کو دیکھا، محسوس کیا اور قلم بند کیا تھا وہ بہت مختلف بھی تھا اور دل کو چھونے والا بھی۔ اس نظم کا عربی عنوان ’الضیف‘ تھا جب کہ میں نے اس کا اردو ترجمہ ’مہمان‘ کے نام سے کیا۔‘‘

پاکستان کے معروف شاعر و ادیب فراست رضوی نے کتاب ‘‘سلام فلسطین’’ لکھی۔ فلسطین کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی انتفاضہ کی تحریک اور فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہوئے صہیونی بلڈوزروں تلے دب کر شہید ہونے والی امریکی نوجوان لڑکی راشیل کوری سمیت لیلی خالد، جارج حبش، شیخ احمد یاسین اور فلسطین کے شہداء کی قربانیوں پر کل 37 نظموں کا مجموعہ سلام فلسطین میں شامل ہے۔ فراست رضوی کی یہ کتاب سلام فلسطین آنے والی نسلوں کے لئے مسئلہ فلسطین کے افہام میں بھی معاون ثابت ہو گی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین