نوراللہ جاوید
۵ نومبر کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے کئی اہم سوالات کے جوابات فراہم کر دیے ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایکٹ سیکولرازم کے نظام کی خلاف ورزی ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) نے مدارس کے نظام تعلیم، نصاب اور فنڈنگ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ مدارس کے نظام پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اس کے بعد کمیشن نے ریاستی فنڈنگ پر روک لگانے کی سفارش کی۔ اسی وقت اتر پردیش اور تریپورہ کی حکومتیں حرکت میں آئیں، جبکہ اتراکھنڈ میں بھی مدارس کے نظام کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آسام نے تو کئی سال قبل ہی سیکولرازم کے نام پر حکومت کے زیرِ انتظام مدرسوں کو اسکول میں تبدیل کر دیا ہے، اور گوہاٹی ہائی کورٹ آسام حکومت کے ان اقدامات کی توثیق کر چکی ہے۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے سابق چیئرمین نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس کا عنوان ’’عقیدے کے محافظ یا حقوق کے مظلوم: بچوں کے آئینی حقوق بمقابلہ مدارس‘‘ تھا۔ اس رپورٹ میں مدارس کو بدنام کرنے کا ایجنڈا آگے بڑھایا گیا ہے، مدارس کے تاریخی کردار اور ملک کی آزادی میں ان کی خدمات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ این سی پی سی آر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مدارس بچوں کے لیے ’’مناسب تعلیم‘‘ فراہم کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ مدارس کے نصاب، اساتذہ کی اہلیت، مبہم فنڈنگ اور زمینی قوانین کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں۔ اس سال جون میں بچوں کے حقوق کی تنظیم نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریوں کو ہدایت جاری کی کہ سرکاری امداد یافتہ مدارس کی منظوری ختم کر دی جائے کیونکہ یہ مدارس حق تعلیم قانون 2005 کی تعمیل نہیں کرتے۔ اس کے بعد، اتر پردیش کے چیف سکریٹری نے ضلعی کلکٹروں کو ہدایت دی کہ ایسے مدارس کی جانچ کی جائے جنہوں نے غیر مسلم طلبہ کو داخلہ دیا ہے اور ان کی تسلیم شدہ اسکولوں میں فوری منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ اٹھائیسں اگست کو تریپورہ حکومت نے بھی ایسی ہی ہدایت جاری کی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند نے ان ہدایات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور کہا کہ اس طرح کے اقدامات آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت مذہبی اقلیتوں کے اپنے تعلیمی اداروں کو قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے مطابق عدالت نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ جب تک اس معاملے کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، ان ہدایات پر عمل درآمد سے گریز کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں این سی پی سی آر کی رپورٹ کی بنیاد پر ریاستوں سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سفارش پر عمل درآمد پر عبوری روک لگا دی ہے۔
ملک میں مدارس کے نظام کی جڑیں بھارتی تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ مدرسہ یا مدرسے کا نظام دہلی سلطنت کے دور سے موجود ہے اور اسے خلجی اور تغلق خاندانوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ نظام ایک الگ تعلیمی شعبے میں تبدیل ہو گیا جس نے مذہبی اور سیکولر دونوں طرح کی تعلیم فراہم کی۔ مشہور شخصیات جیسے راجہ رام موہن رائے، ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد، اور مصنف منشی پریم چند نے اپنے بنیادی علم مدارس اور ان کے اساتذہ سے حاصل کیا۔ مدرسہ نظام کا قدیم ترین ادارہ سیتا پور، مغربی بنگال میں قائم کیا گیا تھا۔ کلکتہ مدرسہ بھی 1780 میں قائم ہوا اور پریذیڈنسی کالج کے قیام سے پہلے ہی موجود تھا۔ اس وقت مدارس میں علوم طب، انسانی اعضا اور مختلف علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بھارت میں مدارس دو صدیوں سے زائد عرصے سے مفت تعلیم کے ساتھ طلبہ کو کھانا بھی فراہم کر رہے ہیں۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 23 اکتوبر 2019 کو محمد جاوید کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 2004 کے ایکٹ کے آئینی جواز پر سوال کھڑا کیا تھا۔ جاوید نامی ایک ٹیچر کو 2011 میں امبیڈکر نگر ضلع کے اکبر پور میں مدرسہ نثار العلوم شہزاد پور کے پرائمری سیکشن کے لیے چار ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر، جو کہ آٹھ فیصد سالانہ انکریمنٹ کے ساتھ مشروط ہے، جز وقتی معاون استاد کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور کہا کہ انہیں باقاعدہ اساتذہ کے برابر تنخواہ دی جانی چاہیے اور مدارس میں تقرریوں کو ریاستی حکومت، مدرسہ شکشا پریشد اور ضلع اقلیتی بہبود افسر کے ذریعے منظم کیا جانا چاہیے۔ اس معاملے کو ایک بڑی بنچ کے پاس بھیجتے ہوئے جج نے تبصرہ کیا تھا کہ بھارت میں ایک سیکولر آئین کے ساتھ، کیا کسی خاص مذہب کے لوگوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے بورڈ میں مقرر یا نامزد کیا جا سکتا ہے یا یہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہونا چاہیے، جو ان شعبوں میں جن مقاصد کے لیے بورڈ تشکیل دیا گیا ہے، وضاحت کرتے ہیں۔
دریں اثنا، وکیل انشومن سنگھ راٹھور نے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی (PIL) دائر کی جس میں 2004 کے ایکٹ کے جواز کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ اس نے سیکولرازم کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 14 (قانون کے سامنے مساوات)، 15 (جو امتیازی سلوک سے روکتا ہے) اور آئین کے 21-A (تعلیم کا حق) کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے مطابق لارجر بنچ نے فیصلہ سنانے کے لیے قانون کے سوال کو تیار کیا – “کیا مدرسہ ایکٹ کی دفعات سیکولرازم کی کسوٹی پر کھڑی ہیں جو بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے؟” ایسی تمام درخواستوں پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مشترکہ طور پر سنایا۔
جسٹس سبھاش ودیارتھی اور وویک چودھری پر مشتمل ایک بنچ نے مشاہدہ کیا کہ ان اداروں میں دی جانے والی تعلیم نہ تو معیاری ہے اور نہ ہی فطرت میں عالمگیر۔ اور یہ کہ ریاست کو مذہبی تعلیم کے لیے بورڈ بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 2004 کا ایکٹ سیکولرازم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور حکومت مذہبی وابستگی کی بنیاد پر تعلیم دے کر تعصب نہیں کر سکتی۔ ججوں نے مزید کہا کہ جب کہ تمام مدارس میں اسلامی علوم لازمی ہیں، لیکن انگریزی، ریاضی، سائنس اور سماجی علوم جیسے ضروری جدید مضامین کو یا تو خارج کر دیا گیا ہے یا اختیاری کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آرٹیکل 21-A کے تحت چھ سے چودہ سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کی آئینی ذمہ داری کو کمزور کرتا ہے۔ ہائی کورٹ نے مزید زور دیا کہ ریاستی حکومت کے پاس ایسے معاملات پر قانون سازی کرنے کی اہلیت کا فقدان ہے۔ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ مدارس میں داخلہ لینے والے طلبا کو ریاستی حکومت کے ذریعے تسلیم شدہ باقاعدہ اسکولوں میں فوری طور پر جگہ دی جائے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہ 2004 کے ایکٹ نے سیکولرازم کی خلاف ورزی کی ہے، چیف جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی کسی بھی مبینہ خلاف ورزی کو آئین کی واضح شق سے تلاش کیا جانا چاہیے اور اسے صرف یہ کہہ کر باطل نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بنیادی ڈھانچے کے منافی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت، وفاقیت اور سیکولرازم جیسے تصورات غیر متعینہ تصورات ہیں۔ عدالتوں کو اس طرح کے تصورات کی خلاف ورزی پر قانون سازی کو ختم کرنے کی اجازت دینا ہمارے آئینی فیصلے میں غیر یقینی صورتحال کا عنصر متعارف کرائے گا۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ریاست کو معیاری تعلیم کو برقرار رکھنے اور اقلیتی تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا احترام کرنے کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا چاہیے۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ 2004 کے ایکٹ کو آرٹیکل 21-A کے مطابق بنایا جانا چاہیے “اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مذہبی اقلیتی ادارے اقلیتی کردار کو تباہ کیے بغیر ایک مطلوبہ معیار کی سیکولر تعلیم فراہم کریں۔” تاہم، چیف جسٹس نے متنبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 28(3) کے مطابق ریاست کی طرف سے تسلیم شدہ اقلیتی ادارے میں جانے والے یا عوامی فنڈز سے امداد حاصل کرنے والے طالب علم کو مذہبی تعلیمات میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس میں شرکت کے لیے مجبور کیا جانا چاہیے۔ متفقہ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جہاں مدارس مذہبی تعلیم دیتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد تعلیم فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے انہیں کنکریٹ لسٹ کے اندراج 25 کے دائرے میں لانا ہے۔ ججوں نے زور دے کر کہا کہ “حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں کچھ مذہبی تعلیمات یا ہدایات شامل ہیں، کسی قانون سازی کو ریاست کی قانون سازی کی اہلیت سے باہر نہیں کرتا ہے۔”
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ماہرین قوانین کی رائے ہے کہ یہ فیصلہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ضروری ریاستی نگرانی میں توازن پیدا کرتا ہے۔ معیاری تعلیم فراہم کرنے کے 2024 ایکٹ کے بنیادی مقصد کی توثیق کرتے ہوئے عدالت نے سیکولرازم کے لیے ایک اہم نقطہ نظر کو تقویت دی ہے جو ہندوستان کے تعلیمی نظام میں تنوع کو فراہم کرتا ہے۔ مگر چند بنیادی سوالات ہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد چائلڈ کمیشن کے خلاف جمعیۃ علمائے ہند کے ذریعہ دائر کردہ عرضی کا مستقبل کیا ہوگا۔ چونکہ این سی پی سی آر کی سفارش پر عبوری روک سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے کی ہے جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، نئے چیف جسٹس ایک نئے بنچ کی تشکیل دیں گے۔ نئے بنچ کا رجحان کیا ہوگا اس سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یو پی مدرسہ ایکٹ کے آئینی جواز پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی دفعات جو تشریح کی ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے ذریعے فراہم کی جانے والی کامل اور فاضل کی سند کو رد کر دیا ہے۔ اس تناظر میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ اور بنگال مدرسہ بورڈ جو سرٹیفکیٹس فراہم کرتا ہے اس کا کیا ہوگا۔ اترپردیش میں فاضل اور کامل کے سرٹیفیکیٹس کو رد کیے جانے کی وجہ سے پچیس ہزار طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بہار اور بنگال کے مدارس کے سامنے بھی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ اس فیصلے سے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے وجود کا سوال تو ٹل گیا ہے مگر سوال ان مدارس کے ذریعے فراہم کی جانے والے سرٹیفکیٹوں ہے۔ کیوں کہ بہار مولوی انٹرمیڈیٹ کے مساوی ہے اور فاضل کا سرٹیفکیٹ پوسٹ گریجویٹ کے مساوی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ بہار کے مدارس کے ذریعے فراہم کردہ سرٹیفکیٹس یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ایک کے موافق ہے۔
مدرسے کے فارغ التحصیل افراد میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں قابل احترام عہدوں پر فائز ہیں، اور یہاں تک کہ بھارتی افواج میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں، کیونکہ یہ ادارے ریاستوں میں تسلیم شدہ اداروں سے وابستہ ہیں۔ مدارس کی تعلیم کو اس دعوے کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، یہ ایک اہم غلطی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ مدارس پسماندہ طبقات کو بنیادی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے ثقافتی تنوع کی حفاظت، اور اقلیتوں کے اپنے تعلیمی اداروں کے انتظام کے حقوق کو برقرار رکھتے ہیں۔