Wednesday, May 14, 2025
homeاہم خبریںامارت شرعیہ کا تنازع۔ہرایک کردارمکروہ اور قابل نفرت -------نور اللہ جاوید

امارت شرعیہ کا تنازع۔ہرایک کردارمکروہ اور قابل نفرت ——-نور اللہ جاوید

طالب رحمانی، فہد رحمانی، شبلی قاسمی اورخالدانورجیسے کردار جب تک رہیں گے ادارے تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے

نور اللہ جاوید

آج شام بہارکے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اور ابوالمحاسن حضرت مولانامحمد سجادؒ کے خواب اور منصوبوں کا محور امارت شرعیہ پھلواری شریف میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف انتہائی شرمناک اوربدترین ہے بلکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بھارت کے مسلمان ذلت وپستی کی حدتک گر چکے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے مسلمان مختلف مرحلے اور مواقع پر سخت آزمائش سے گزررہے ہیں اورمسلمانوں کی مذہبی آزادی کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں ملک کے موقر ترین اداروں میں سے ایک میں اقتدار کی رسہ کشی کے مناظر نہ صرف تکلیف دہ ہیں بلکہ باعث ننگ وعار ہیں۔

اس پورے واقعے کے ویلن مولانا ابوطالب رحمانی نے دیر رات ایک وضاحت جاری کی ہے۔یہ پوری وضاحت مولانا ابوطالب رحمانی کے نفاق، اقتدار پرستی، عہد ہ طلبی کا بین ثبوت ہے۔مولانا طالب رحمانی نے فہد رحمانی اور امیر شریعت کے عہدہ پر فائز فیصل رحمانی سے متعلق جو کچھ انکشافات کئے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہے فرق یہ ہے کہ مولانا یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ معصوم ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوطالب رحمانی، فہد رحمانی اور فیصل رحمانی کے والد مرحوم مولانا ولی رحمانی کی چاپلوسی، خوشامد کے ذریعہ ہی امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بوڈ میں اپنی جگہ بنائی تھی۔مولانا رحمانی اللہ کے حضور میں پیش ہوچکے ہیں اس لئے ان سے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کے بجائے مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت امارت شرعیہ جن حالات سے گزرہا ہے اس میں مولا نا ولی رحمانی کی خوشامدپسندانہ مزاج، اقرباپروی اور مریدان با صفاکو عہدوں کو نوازنے کی سوچ کا بڑا کرداررہا ہے۔

یقینا امارت شرعیہ مسلمانوں کا ادارہ ہے اور یہاں خاندانی وراثت کیلئے جگہ نہیں ہے۔یقینا امارت کی ترقی میں مولانا منت اللہ رحمانی کا اہم کردار رہا ہے مگر امارت شرعیہ کے بانی مولانا ابو المحاسن سجاد ؒ کے خوابوں کا نتیجہ ہے۔ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ کے خلوص وللہیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ بانی ہونے کے باوجود امیر شریعت کا عہدہ کبھی کبھی قبول نہیں کیا۔مولانامنت اللہ رحمانی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا ولی رحمانی کو امیرشریعت نہیں مقرر کیا گیا۔شنیدہے کہ انہوں نے اس وقت کوشش کی تھی اورمریدان باصفالاٹھی اور ہتھیار کے ساتھ موجود تھے مگرناکام رہے اس درمیان مولانا عبدالرحمنؒ اور مولانا سید محمد نظام الدین کے دوادوارگزرے ہیں۔یہی وہ دونوں ادوار ہیں جس میں امارت شرعیہ نے ملک بھر میں اپنا اعتبار قائم کیا اوربہار ہی نہیں بلکہ بھارت کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔مولاناسید محمد نظام الدین اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی اس جوڑی نے امارت کو مالی اعتبار سے مستحکم کیا اور ان کے دورمیں ہی المعہدالعالی اوردارالعلوم امارت شرعیہ، ٹیکنیکل ادارے قائم ہوئے۔ملک بھرمیں دارالقضا قائم کئے گئے۔گجرات فسادات اور دیگر قدرتی آفات میں امارت سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھاتی تھی۔

مولاناسیدمحمد نظام الدینؒ کے وفات کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی اتفاق رائے سے امیرشریعت منتخب ہوئے۔مگرمولانا ولی رحمانی مرحوم کا دور امارت میں افرتفری کا دور رہا۔انہوں نے پرانے لوگوں کو نکالنا شروع کیا اور چاپلوسوں اور خوشامدیوں کوبحال کرنا شروع کردیا۔اس دور میں ہی مولانا ابوطالب رحمانی کی امارت میں دخل اندازی ہوئی۔امارت کے ٹرسٹی کے ممبربنے اور پھر فرعون وقت کی طرح امارت کے عملہ اور دیگر اسٹاف پر ڈھونس جمانے لگے۔مولانا ابوطالب رحمانی کسی بھی عہدہ پر فائز نہیں تھے مگر امارت میں ان کادخل تھا۔فہد رحمانی جس کو آج وہ گالی دے رہے ہیں اس کے ہرگناہوں میں شریک تھے۔طالب رحمانی کی ہرزہ سرائی کی وجہ سے مولانا انیس الرحمن قاسمی کو نظامت کے عہدہ سے چھٹی کرکے شبلی قاسمی کو بحال کیاگیا۔شبلی قاسمی الزامات کی زد میں آئے۔خاتون نے سنگین الزام عائد کیامگروہ اس کا دفاع کرتے رہے۔دارالعلوم امارت کے صدر مولانا محمد جنید کے خلاف سازش رچی گئی۔

مولانا ولی رحمانی کے دورمیں پٹنہ میں ہی ”دین بچاؤاور دیش بچاؤ“ کے عنوان سے ایک عظیم کانفرنس ہوئی۔بہار کے مسلمان اس میں شریک ہوئے۔مگر مولانا ولی رحمانی نے نتیش کمار سے اس پوری کانفرنس کی قیمت ایک ایم ایل سی کی سیٹ کے طور وصول کرلیا۔خالد انور جو آج نتیش کمار کی نگاہ میں آنے کیلئے امارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کررہا ہے وہ دراصل اسی خوشامدی طائفہ کا زائدہ ہے۔امارت کے اندرونی لوگ بتاتے ہیں کہ دین بچاؤ اور دیش بچاؤ کانفرنس کا انعقاد ہی سیاسی دھندے کیلئے کیا گیا تھا۔خالد انور، طالب رحمانی نے ہی مولانارحمانی کو ورغلایااور اس کانفرنس کیلئے آمادہ کیا۔ اور خالد انورنے امارت کے نام پر ایم ایل سی بننے پرکامیاب ہوگیا۔

مولانا ولی رحمانی کے انتقال کے بعد خالدانور، طالب رحمانی،شبلی قاسمی، فہد رحمانی، شمشاد قاسمی امارت کے حل و عقد کی فہرست میں گڑبڑی کی، غیرقانونی کام کئے، ووٹروں کو دھمکایا، بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی حمایت سے بڑی تعدادمیں پولس اہلکارکی مددلی گئی اور بہار کی سرزمین جہاں ایک سے ایک کبارعلماکی موجودتھے وہاں ایک ناتجربہ کار فیصل رحمانی جنہوں نے کبھی کبھی کسی دینی درس گاہ میں علم حاصل نہیں کی تھی۔وہ پیشے سے انجینئر تھے، امریکہ کے ملٹی نیشنل کمپنی میں برسرملازمت تھے کو امیر شریعت جیسے عہدہ جلیلہ پرفائز کردیا گیا۔

فیصل رحمانی کے امیرشریعت منتخب ہونے کے بعد اب باری تھی جوتیوں میں دال بٹنے کی۔مولاناابوطالب رحمانی کسی بڑے عہدہ کی لالچ میں تھے۔شبلی قاسمی مستقل ناظم بننا چاہتے تھے۔خالد انور اپنے اشاروں پر فیصل رحمانی کو نچوانا چاہتاتھا مگر امریکہ کی شہریت رکھنے والے فیصل رحمانی ان کے امیدوں کے خلاف ثابت ہوئے۔ وہ کٹھ پتلی بننے کے بجائے وہ خود فیصلہ کرنے لگے۔اس نے اپنے والد مرحوم کے چاپلوسوں کو منھ لگانے کے بجائے نئے چاپلوسوں کی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور اور اس طرح چاپلوسوں کا یہ طائفہ فیصل رحمانی کے خلاف سازش رچنے لگا۔انصاف نیو ز آن لائن کے قارئین جانتے ہیں کہ ہم نے کئی مہینے قبل ہی بتادیا تھا کہ مولانا ابوطالب رحمانی، خالدانور کی یہ جوڑی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فیصل رحمانی کسی بھی درجے میں امیرشریعت کے عہدہ جلیلہ کے لائق نہیں ہیں، ان کا انتخاب بھی مشکوک ارباب وحل عقد کی فہرست کی بنیادپر ہوا تھا۔مگر اب جب کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کام کررہے ہیں تو اگر وہ اس عہدہ کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ انہیں اس عہدہ سے معزول کرنے کیلئے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہے؟ کیا مجلس شوری، اربا ب وحل عقد کی اکثریت میٹنگ نہیں بلاسکتی تھی مگرآج شام جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے امارت پرقبضہ کرنے کی کوشش کی گئی وہ کسی بھی اصول و ضوابط کے تحت درست نہیں تھا۔

فیصل رحمانی جس دعوے اورامیدوں کے ساتھ امارت شرعیہ کی قیادت سنبھالی تھی وہ نظر نہیں آرہا ہے۔شہریت کے سوال پر جس طریقے سے مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکنیت ان کی موقوف کی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی امارت شرعیہ پھلواری شریف اور مسلم پرسنل لا بور ڈکے درمیان ٹکراؤ ناگزیرہے مگر بورڈ کی ہدایت پر فیصل رحمانی اور امارت شرعیہ نے وقف بل کے خلاف نتیش کمارکوچیلنج کیا اور جرأت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔یہی وہ نقطہ تھا جب جنتادل یو کے مسلم لیڈروں کو فیصل رحمانی کو سبق سیکھانے کا ٹاسک دیدیا اور پھر اقتدارپرستوں کا طائفہ جس کی قیادت ابو طالب رحمانی کررہے تھے کے درمیان ناپاک کٹھ جوڑ نے امارت کے وقار کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

امارت شرعیہ اس وقت خانقاہ رحمانی کے مریدان باصفا جو عقل و خردسے مکمل طورپرعاری ہے کے نرغے میں ہیں۔عقل و خرد سے عاری مریدان باصفا یہی وہ جماعتیں ہیں جس نے ماضی میں جمعیۃ علمائے ہند، دارالعلوم دیوبند،مظاہرعلوم سہارن پور جیسے ملت کے عظیم اداروں کو تقسیم کردیا۔مریدان باصفاکی یہ جماعت اب امارت شرعیہ کے وقار کوملیا میٹ کرنے پرآمادہ ہیں۔ مولانا ابوالمحاسن مولانا سجاد ؒنے امیر شریعت کے عہدہ کی تخلیق جس امارت کی امیدکے ساتھ کیا تھااس میں روحانیت، امت مسلمہ کی قیادت اور رہنمائی شامل تھی مگر اب امیرشریعت کاعہدہ اقتدار اورطاقت کا مرکز بن گیاہے۔امیر شریعت ہر سوالوں سے ماوار بن گیا ہے۔وہ جب چاہے جس کو چاہے راندہ درگاہ کرسکتا ہے۔امارت شرعیہ میں امیر شریعت اور قاضی شریعت کے دو عہدے طاقت کے دو مراکز ہیں۔قاضی شریعت دارلقضا کے نظام کو دیکھتے ہیں جب کہ امیرشریعت تنظیم اوردیگر امور انجام دیتے ہیں مگر فیصل رحمانی طاقت کے اس مرکز کو ختم کرکے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تاحیات امیرشریعت کا عہدہ غیرمنطقی اور تمام فتنوں کی جڑہے۔سوال یہی ہے کہ کیا امارت شرعیہ اپنے نظام میں اصلاح کی جرأت کرے گی۔اس کی امید تو نظر نہیں آتی ہے۔

علمی و نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر مولانا ابوالاعلی مودودی اور جماعت اسلامی کو لعن وطعن تشنیع کرنے والوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ جماعت اسلامی میں اقتدار کی رسہ کشی کبھی کبھی 75برسوں میں نظرآئے۔امیر جماعت کا عہدہ صلاحیت، قابلیت، اور للہیت کی بنیاد پر پر سونپاجاتا ہے۔اپنی امارت کیلئے تشہیر کرنے والا اس عہدہ کیلئے نااہل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں جماعت بڑی ہے۔فرد نظام کے تابع۔جب تک امیر رہتے ہیں تو نمایاں رہتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد ایک عام رکن بن کر جماعت کی خدمت کرتے ہیں۔آخر دیوبندی حلقے کی جماعتوں میں یہ خلوص و للہیت کیوں نظر نہیں آتی ہے۔یہاں اقتدار کی رسہ کشی کیوں ہے؟ کرسی کیلئے اداروں کے وقارکے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا جاتا ہے؟

ابوطالب رحمانی جیسے کردار کے حاملین جب تک رہیں گے ادارے تباہ و برباد ہوتے رہیں گے۔دیکھنایہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کب اپنی صفوں میں اصلاح کرے گی۔ابھی تو بھارت میں مسلمانوں کی آزمائش کا دور ہی شروع ہوا ہے۔مسلم دشمن طاقتیں مسلمانوں کی مذہبی شناخت چھیننے کیلئے سازشیں کررہی ہیں اور دوسری طرف خود ساختہ قائدین جوتیوں میں ڈال بانت رہے ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس تنازع کوہرایک کردار مکروہ اورلائق نفرت ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین