Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںبنگال میں اردومیڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی قلت کی وجہ سے بحران...

بنگال میں اردومیڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی قلت کی وجہ سے بحران کا شکار– اردواشرافیہ بے خبراور سیمینار کے نام پر نان ونوش میں مشغول

کولکاتہ کے سخاوت میموریل اسکول میں اردو میڈیم کی طالبات کےداخلے بند کردئے گئے!بنگال کے متعدد اسکولوں میں سیکڑوں اردو اسامیاں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے زیر التواء

شبانہ جاوید

اساتذہ کی کمی کے باعث کولکاتا کے سخاوت میموریل اسکول میں اردو میڈیم کی طالبات کا داخلہ بندہوچکا ہے۔ داخلےبند ہونے کی وجہ سے طلبا سمیت اردو حلقے میں مایوسی دیکھی جا رہی ہے، اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی زینب کے والد محمد اسحاق نے گیارہویں جماعت میں داخلے کا سلسلہ بند ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب اسکول میں گیارہویں جماعت میں اردو میڈیم کے کسی طالبہ کو داخلہ نہیں دیا گیا ہے۔ ان کی بیٹی نویں جماعت کی طالبہ ہے ایسے میں اگر گیارہویں جماعت میں اس اسکول میں داخلے کا سلسلہ بند ہو جائے گا تو انہیں اپنی بچی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دسویں جماعت کے بعد گیارہویں جماعت میں داخلے کے لیے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دسویں جماعت کے بعد ہائر سیکنڈری میں داخلہ لینے کے لیے بالعموم والدین اسی اسکول پر انحصار کرتے ہیں جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں تاہم انہیں دسویں جماعت کے بعد اب گیارہویں جماعت میں داخلے کے لیے نئے سرے سے اسکول کی تلاش کرنی ہوگی ۔جب اس اہم ترین مسئلے کے سلسلے میں اسکول انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا ہے۔

بتادیں کہ رقیہ بیگم جن کا تعلق بنگال سے تھا لیکن ان کی شادی بہار میں ہوئی تھی انہوں نے 1909میں اپنے مرحوم شوہر ڈپٹی کلکٹر خان بہادر سخاوت حسین کی یاد میں مسلم لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے لیے بہار کے بھاگلپور میں سخاوت میموریل گرلس ہائی اسکول قائم کیا تھا مگر بعد میں انہوں نے 1911میں اس اسکول کو کلکتہ منتقل کردیا ۔رقیہ بیگم نے 24 برسوں تک اسکول کی نگرانی کی لہٰذا آج اس اسکول کا شمار شہر کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔ بنگلہ، اردو اور انگریزی سمیت تین زبانوں میں یہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے غیر مسلم طلبا کی تعداد زیادہ ہے مگر اب اس اسکول کے دروازے اردو میڈیم ہائر سکنڈری کے طلبا کے لیے بند ہوچکے ہیں ۔سخاوت میموریل ہائی اسکول انتظامیہ کے مطابق ہائر سیکنڈری میں ارو میڈیم طالبات کا داخلہ بند کردیا گیا ہے کیونکہ اردو ٹیچر ریٹائرڈ ہوگئی ہیں ۔’’بنگال انسٹیٹیوٹ آف ملٹی کلچر اسٹڈیز‘‘کے ایک وفد نے اسکول انتظامیہ سے ملاقات کی ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سخاوت میموریل ہائی اسکول ریاست کا تاریخی اسکول ہے اس کے باوجود یہاں مدت سے ہیڈ مسٹریس ہی نہیں ہیں۔ اسسٹنٹ ہیڈ مسٹریس انچارج اجولا رائے نے وفد سے ملاقات کے دوران حیرت انگیز طور پر دعویٰ کیا کہ ہائر سکینڈری میں اردو میڈیم کبھی تھا ہی نہیں تھا تو پھر بند ہونے کا سوال کہاں سے آتا ہے۔بلکہ ہائر سیکنڈری میں صرف پانچ اردو میڈیم کے طالبات کا آرٹس میں داخلہ لیا جاتا تھا اب چوں کہ جولائی میں ٹیچر ریٹائرڈ ہوجائیں گی اس لیے ان پانچ طلبا کا داخلہ بھی بند کردیا گیا ہے۔

اجولا رائے نے بتایاکہ پری پرائمری سے دسویں جماعت تک ایک سیکشن اردو میڈیم کاہے اور دو سیکشن بنگلہ میڈیم کے ہیں۔دسویں جماعت سے ہر سال 40 سے 45 طالبات اردو میڈیم سے کامیاب ہوتی ہیں مگر ان طالبات کے لیے گیارہویں میں داخلے کے دروازے بند ہیں ۔اس سوال پر کہ دسویں جماعت کے بعد یہ طالبات کہاں جائیں گی ؟ ٹیچر انچارج نے کہا کہ اس اسکول میں گنجائش نہیں ہے۔اگر محکمہ تعلیم اردو میڈیم ہائر سیکنڈری قائم کرنے کی ہدایت بھی دے گی تو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ ہمارے پاس جگہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسو کی ہدایت پر 1983 میں سخاوت میموریل ہائی اسکول میں اردو میڈیم کا سیکشن قائم کیا گیا تھا۔اس دور میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تعلیم کالجوں میں ہوتی تھی ۔ 90 کی دہائی کے بعد ہائر سیکنڈری کو محکمہ اسکول تعلیم کے ماتحت کردیا گیا ۔مگر اس وقت سے لے کر آج تک اہل اردو نے سخاوت میموریل ہائی اسکول جیسے تاریخی ادارے میں اردو میڈیم ہائر سیکنڈری سیکشن قائم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

بنگال انسیٹیوٹ آف ملٹی کلچر اسٹڈیز نے اس پوری صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کو ہر سال بنگال حکومت سے دس کروڑ سے زائد سالانہ بجٹ دیا جاتا ہے ۔اتنے بڑے فنڈ کو استعمال کرنے کے لیے اکیڈمی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ایک بڑی رقم محض مشاعرہ و سمینار پر خرچ کی جاتی ہے اگر اکیڈمی اردو میڈیم اسکولوں کو پارٹ ٹائم اساتذہ کی فراہمی کے سلسلے میں ہی مالی تعاون کرے تو بنگال میں اردو طلبا کی تعلیمی ترقی کا خواب ممکن ہو سکتا ہے۔ بنگال انسٹیٹیوٹ آف ملٹی کلچر اسٹڈیز کے وفد میں شامل جادو پور یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عبدالمتین نے کہا کہ دہلی اردو اکیڈمی اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔وہ دہلی حکومت کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی فراہمی میں مالی تعاون کرتی ہے ۔بنگال انسٹیٹیوٹ آف ملٹی کلچر اسٹڈیز کے رکن سماجی و تعلیمی کارکن محمد حسین رضوی نے بنگال اردو اکیڈمی سے مطالبہ کیا کہ ہے کہ اگر وہ اردو طلبا کی تعلیمی ترقی کے لیے سنجیدہ ہے تو پہلے ریاست کے تمام اردو اسکولوں کا سروے کروائے کہ ان اسکولوں میں اساتذہ اور طلبا کی تعداد کیا ہے؟ کیا طلبا کی تعداد کے مطابق اساتذہ ہیں؟ کن کن مضامین کے اساتذہ کن کن اسکولوں میں نہیں ہیں؟ اگر اساتذہ نہیں ہیں تو اس کے لیے اردو اکیڈمی حکومت سے مطالبہ کرے اور اردو میڈیم اسکولوں کے بحران کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی محکمہ تعلیم کو اس تعلق سے اپیل بھیجی جائے گی تاکہ سخاوت میموریل اسکول میں ہائر سیکنڈری میں اردو طلبا کے لیے تعلیمی سلسلہ کو شروع کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سخاوت میموریل اسکول میں ہائر سیکنڈری میں اردو طلبا کا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع نہیں کیا جا سکا تو کئی ایسے اسکول ہیں جو اس طرح کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں ۔
مغربی بنگال میں اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی ایک بڑی آبادی ہے ریاست کے مختلف اضلاع میں دیگر زبانوں سمیت اردو میڈیم اسکولوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔مغربی بنگال مدھیامک بورڈ سے منظور شدہ ہائر سکنڈری اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد 80 ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی ہزاروں سرکاری و غیر سرکاری مدارس ہیں جہاں اردو زبان میں درس و تدریس ہوتی ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔

بنگال میں 80 اردو میڈیم اسکولس ہیں جن میں ہائر سکنڈری، سکنڈری اور کچھ جونئیر ہائی اسکولس ہیں۔ ان اسکولوں میں گزشتہ کئی برسوں سے مستقل اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو میڈیم اسکولوں میں جب بھی تقرری ہوتی ہے تو پسماندہ طبقے کے امیدواروں کے لیے سیٹیں مختص کی جاتی ہیں لیکن برسوں سے یہ سیٹیں خالی ہی پڑی ہیں۔ جن کی تعداد بھی آہستہ آہستہ کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اردو میڈیم اسکولوں میں مستقل اساتذہ کی ایک بڑی تعداد سبکدوش بھی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب کئی برسوں سے اسکول سروس کمیشن کے امتحانات نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق ہر اردو میڈیم اسکول میں اوسط دس اساتذہ کی ضرورت ہے۔2011 کے بعد سے بس ایک بار ہی اسکول سروس کمیشن کا امتحان ہوا ہے۔ 2013 کے بعد سے اب تک اسکول سروس کمیشن کے امتحانات نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مستقل اساتذہ کی بحالی نہیں ہو سکی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت سے منظور شدہ سرکاری اسکولوں میں ٹیچروں کی تقرری اسکول سروس کمیشن ہی کرتی ہے۔ اساتذہ کی کمی کے باعث اسکول انتظامیہ عارضی اساتذہ کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ لگ بھگ ریاست کے تمام اردو میڈیم اسکولوں میں 10 سے 12 عارضی ٹیچر پڑھاتے ہوں۔ ان ٹیچروں کو بھی تنخواہ کے نام پر صرف ڈھائی سے تین ہزار روپے ہی ملتے ہیں۔ بنگال کے اردو میڈیم اسکولوں میں ٹیچروں کی کمی کی وجہ سے کئی اسکول بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ریاست کے 80 اردو میڈیم اسکولوں میں 1400 اساتذہ کی آسامیاں ہے جن میں 65 فیصد ریزرو کیٹیگری میں ہیں اور آج تک یہ اسامیاں خالی ہیں۔

اردو میڈیم اسکولوں کی اس صورت حال کے خلاف گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل کئی تنظیمیں تحریک چلا رہی ہیں اور مستقل ٹیچروں کی تقرری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کئی تو ایسے اسکول بھی ہیں، جہاں طلبا تو موجود ہیں لیکن ایک بھی مستقل ٹیچر موجود نہیں ہے۔ جن میں ضلع ہوگلی میں موجود چاپدانی گرلس جونئیر ہائی اسکول بھی ہے، جو ایک مستقل گروپ ڈی اسٹاف کے رحم و کرم پر ہے۔

ہوڑہ کے گھسڑی کا بھوٹ بگان ہائی اسکول کا بھی یہی حال ہے۔ مٹیابرج کے عبدالباری ہائی اسکول کا بھی یہی حال ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کے لیے تحریک چلانے والی تنظیم مغربی بنگال اسٹوڈنٹس اسٹرگل کمیٹی اس معاملے پر جلسے جلوس کرتی رہی ہے۔ کمیٹی کے ریاستی صدر شمس العالم کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال میں اردو میڈیم اسکولوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ اردو میڈیم اسکولوں میں غیر اردو زبان والے اساتذہ کی تقرری کی جا رہی ہے۔ ریزرو کیٹیگری کی وجہ سے کئی برسوں سے اساتذہ کی ہزاروں سیٹیں خالی ہیں۔ بار بار ریزرو کیٹیگری کو جنرل کیٹیگری میں تبدیل کرنے کی اپیل کی جاتی ہے لیکن اس کا حل ابھی تک نہیں نکلا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں کئی بار وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم تک اپنی بات پہنچائی لیکن اس مسئلے کا حل اب تک نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم نے اس سے پہلے مدھیامک و ہائر سکنڈری کے سوالنامے اردو اور ہندی زبان میں جاری کرنے کے لیے تحریک چلائی تھی جس میں ہمیں کامیابی ملی۔ اب ہم اردو میڈیم اور ہندی میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کو لے کر لگاتار تحریک چلا رہے ہیں۔ ہوڑہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر آفتاب عالم نے بتایا کہ ریاست کے اردو اسکول کئی برسوں سے یہ اساتذہ کی کمی کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر اسکول میں کم سے کم دس اساتذہ کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ یہ سارے اسکول عارضی ٹیچروں کے رحم و کرم پر چل رہے ہیں جس سے اسکولوں کے تعلیمی معیار میں کمی آرہی ہے اور اس کا نقصان طلبا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین