Friday, December 13, 2024
homeاہم خبریںمسلمانوں کو گالیاں اس کے باوجود ووٹوں کی امید کیوں؟

مسلمانوں کو گالیاں اس کے باوجود ووٹوں کی امید کیوں؟

بنگال کی سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کی تلاش میں کئی دہائیوں سےمسلمانوں خارج اور خوشامد کی انتہا پر انحصار کررہی ہیں۔مگر مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حقیقتوں کو مسلسل نظر اندازکیا جارہا ہے

کلکتہ : انصاف نیو ز آن لائن

’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کو اگرکسی نے مذاق بنایا ہے وہ خود وزیر اعظم مودی ہیں ۔گزشتہ دس برسوں میں اپنے اس نعرے کی معنویت کو ختم کرنے کا کوئی بھی موقع مودی نے ضائع نہیں کیا ہے۔انہوں نے ہرایک پلیٹ فارم اور حکومتی کام کاج تک میں اس نعرے کو رد کیا ہے۔چناں چہ اگر بی جے پی کے لیڈران چاہے وہ کوئی بھی اس نعرے کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نئی نہیں ہے۔

لوک سبھا انتخابات کے بعد گرچہ تیسری مرتبہ اقتدار میں پہنچنے میں مودی کامیاب ہوئے مگر مودی اور بی جے پی کا وہ اقبال جو 2014اور 2019میں تھا وہ ختم ہوگیا ۔اترپردیش میں جس میں مذہبی انتہا پسندی کا لیبرٹی بنانے کی کوشش کی گئی تھی وہ بی جے پی بکھرتی ہوئی نظر آئی ۔بنگال سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں مگر بنگال کے عوام نے بھی بی جے پی کو رد کردیا ۔چناں چہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی تجزیہ کے دوران اس نتیجے پر نہیں پہنچ پارہی ہے کہ اسے مستقبل میں کن خطوط پر آگے بڑھنا ہے۔مسلم ووٹوں کو بے اثر کرنے کا خواب دیکھنے والے اس بات سے مایوس ہیں کہ آخر مسلمانوں نے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیا ؟ گرچہ اس سوال کا جواب بی جے پی کو بہت ہی آسانی سے مل سکتا ہے مگر بی جے پی گہرائی اور گیرائی سے اپنا تجزیہ کرنے کے بھی لائق نہیں بچی ہے۔وہ تکبر اور گھمنڈ میں اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اس کو اپنے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔

بنگال میں بی جے پی نے کل 42سیٹوں میں سے 35سیٹوں پر جیت کا ہدف رکھا تھا مگر ہدف تک پہنچنا تو دور گزشتہ انتخاب میں جیتی ہوئی 18سیٹوں کو بھی بی جے پی برقرار نہیں رکھ سکی ۔شوبھندو ادھیکاری جیسے بڑ بولے پن لیڈروں کیلئے یہ دھکچے سے کم نہیں تھا۔وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وزارت اعلیٰ کی کرسی محض چند قدم دور ہے۔ وہ بنگال کے ہیمانت بسوا شرما بننے کیلئے بے چین تھے۔مگر منزل دور ہوجانے سے جھنجھلاہٹ آنا یقینی تھا چناں چہ انہوں نے گزشتہ دنوں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ کے نعرے سے متعلق جوکچھ کہا وہ حیرت انگیز نہیں ہے۔

سوبھندو ادھیکاری نے کہا کہ پارٹی کو ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے کا استعمال بند کرنا چاہئے اور ریاست میں پارٹی کے اقلیتی مورچہ کو ختم کرنا چاہئے۔ ادھیکاری نے گرچہ اس بیان پر وضاحت پیش کردی ہے اور ڈیمج کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر ریاست میںاس پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ادھیکاری کے اس بیان پر صرف اپوزیشن جماعتو ں نے تنقید نہیں کی ہے بلکہ بی جے پی قیادت نے بھی عدم اتفاق ظاہر کیا ہے ۔بی جے پی لیڈروں نے کہا کہ وہ مودی کے اس نعرےمیں یقین رکھتے ہیں ۔’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرے پر پوری پارٹی کو یقین ہے چاہے بی جے پی کو مسلمان ووٹ دیں یا نہ دیں ۔

یہ تبصرہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی کارکردگی پر بی جے پی لیڈر کی مایوسی کی عکاسی کر تی ہے۔تاہم اس بیان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ریاست میں مسلمان صرف ووٹ بینک بن کر رہ گئے ہیں ۔بی جے پی کے نقطہ نظر سے بنگال میں بی جے پی کی سیاست مسلمان کو درکنار کرنے اور ہندئوں کو پولرائزیشن پر مرکوز رہی ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے )اور اس کے بعد لوک سبھا انتخابات سے عین قبل اس کو نافذ کرکردیا گیا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سی اے اے کے بعد ایک قومی رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) ہوگا جیسا کہ آسام میں کیا گیا ہے نافذ کیا جائے گا۔اس کا مقصدصرف مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

بی جے پی مغربی بنگال میں مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں ناکام رہی ہے، نہ تو کمیونٹی کے ارکان کو ٹکٹ دیا اور نہ ہی مسلم لیڈروں کو پارٹی کے اہم عہدوں پر شامل کر سکی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی، بی جے پی لیڈران بشمول وزیر اعظم نریندر مودی نے کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے غیر قانونی دراندازی کے مسائل اٹھائے اور کہا کہ پورے ملک کو تشویش ہے کہ مغربی بنگال کے سرحدی علاقوں کی آبادی میں تبدیلی آرہی ہے۔اس کے باوجود ادھیکاری کی شکایت ہے کہ مسلمانوںنے بی جے پی کو وٹ نہیں دیا۔مگر سوال یہ ہے کہ بی جے پی نے اس اقلیت کو راغب کرنے کے لیے کوئی سیاسی زمینی کام نہیں کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مالدہ دکشن لوک سبھا سیٹ میں جہاں ووٹروں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، کانگریس اور بی جے پی کے بعد ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) تیسرے نمبر پر ہے۔ کانگریس امیدوار عیسیٰ خان چودھری نے تقریباً1 .28لاکھ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ نتائج بتاتے ہیں کہ پولرائزڈ ماحول میں بھی مسلمانوں نے ٹی ایم سی کے علاوہ دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمان مغربی بنگال کی 27فیصد آبادی پر مشتمل ہیں۔مسلم ووٹ 2011 سے ہی ترنمول کانگریس کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، ۔ تاہم، گزشتہ 13 سالوں سے ٹی ایم سی کے اقتدار میں رہنے کے باوجود، مسلمان ریاست کی اقتصادی طور پر سب سے پسماندہ ہیں۔ بائیں محاذ کی حکومت کے مقابلے میںترنمول کانگریس کے دور حکومت میں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں میں صرف برائے نام اضافہ ہوا ہے، اور ریاستی وزراء کونسل کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال اسمبلی میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کا فقدان بدستور پریشان کن ہے۔ ترنمول کانگریس کی حکومت کے دور میں مغربی بنگال میں زیادہ مسلم آبادی والے اضلاع نہ صرف انسانی ترقی کے اشاریوں میں پیچھے ہیں بلکہ کارکنوں کی نقل مکانی بھی زیادہ ہے۔2016 میں مغربی بنگال میں ’’مسلمانوں کی موجودہ صورت حال ‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے، نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے کہا تھا کہ مسلمان ریاست میں غریبوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں‘‘۔

چند ہفتے قبل ریاستی وزیر فرہاد حکیم نے ایک مذہبی اجتماع میں یہ کہہ کر تنازعہ کھڑا کر دیا تھا کہ جو مسلمان پیدا نہیں ہوئے وہ بدقسمت ہیں اور مذہب کا پیغام غیر مسلموں میں پھیلانا چاہیے۔مسٹر حکیم شاید مسلم کمیونٹی کے واحد نمائندے ہیں جن کے پاس وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے کابینہ میں کلیدی قلمدان ہے کو اس تقریب کے منتظمین کو مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع کو جمع کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے سنا گیا، اس طرح اس کمیونٹی کے سیاسی اثر و رسوخ کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے نظرآئے۔دوسری طرف ماضی میں کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے میئر نے شہر کے ایک محلے کو ’’منی پاکستان کہا ہے۔مسٹر ادھیکاری اور مسٹر حکیم کے ریمارکس مغربی بنگال کی سیاست میں دو انتہائے ہیں، اور سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ بینک کی تلاش میں کئی دہائیوں سے ان انتہاؤں پر انحصار کر رہی ہیں۔کبھی کبھار ہونے والے مطالعے اور سچر کمیٹی جیسی رپورٹوں نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کی وسیع تر سماجی اور معاشی حقیقتوں پر روشنی ڈالی ہے، لیکن انتخابی لڑائیوں کے نتائج پر قائم تمام جماعتوں کے سیاست دان مسلسل ان کی تشویش سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔

جہاں تک اقلیتی مورچہ کو ختم کرنے کی بات ہے ۔ایک مسلم صحافی ہونے کی حیثیت سے میرا بھی ماننا ہے کہ بی جے پی ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں میں اقلیتی مورچہ کوختم کردینا چاہیے ۔کیوں کہ سیاسی جماعتوں کا اقلیتی مورچہ مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانے کے بجائے مسلمانوں کو سیاسی جماعتوں کا دلال بنانے کے مشن پر کام کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان ہی پہنچتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین