مغربی بنگال میں پنچایت انتخابات قتل و غارت گری، تشدد اور دھاندلیوں کی خبروں کے ساتھ مکمل ہوگئے۔حسب توقع ریاست کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کو انتخابات میں برتری حاصل رہی۔بی جے پی 2021 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے مطابق سیٹیں جیتنے میں ناکام رہی۔بنگال کی سیاست میں حاشیہ پر پہنچ چکی کانگریس، سی پی آئی ایم نے اگرچہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ترنمول کانگریس سے مزاحمت کی مگر ان دونوں جماعتوں کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست میں تشدد، قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی سخت ہدایات، گورنر کی مداخلت اور خود ممتا بنرجی کی یقین دہانیوں کے باوجود ریاست میں تشدد کے واقعات رک نہیں رہے ہیں۔بنگال میں سیاسی تشدد میں لقمہ اجل بننے والوں میں ہمیشہ مسلم سیاسی کارکنان کی اکثریت رہی ہے اور اس مرتبہ سیاسی تشدد کے واقعات بھی مسلم اکثریتی علاقے میں ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تشدد کے واقعات کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ ذزمہ دار اور جواب دہ ہے تو ریاستی حکومت ہے۔ پنچایت انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سے اب تک تین ہفتے میں پچاس کے قریب افراد کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی تشدد کا ایندھن بننے والے کون لوگ ہیں؟ آخر بنگال کی سیاست اس قدر پر تشدد کیوں ہے کہ وہ انسانی جانوں کی پروا تک نہیں کرتی ہے۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح تیس فیصد کے قریب ہے، مگر سچر کمیٹی، پروفیسر امیتابھ کندو کی قیادت والی کمیٹی اور نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کے این جی او پراتیچی کے ذریعہ کرائے گئے سروے کے مطابق مغربی بنگال کے مسلمان سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی نمائندگی کے اعتبار سے حاشیہ پر ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد جمود اور تعطل کا شکار مسلم معاشرہ میں ہلچل ضرور پیدا ہوئی مگر پسماندگی اس قدر گہری ہے کہ مرکزی وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگال کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں مسلم طلبا کی نمائندگی چھ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ پسماندگی کی اس شرح کے باوجود پنچایت انتخابات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد جو فہرست مختلف میڈیا کے ذریعہ سامنے آئی ہے ساٹھ فیصد کے قریب ہے یعنی پینتالیس مہلوکین میں پچیس افراد کا تعلق مسلم طبقے سے ہے۔
بنگال میں سیاسی تشدد کے تانے بانے 1937 سے جڑے ہوئے ہیں، بنگال کے پہلے وزیر اعظم اے کے فضل الحق نے اپنی جماعت کرشک پرجا پارٹی کی تشکیل زمین داری کی مخالفت کی بنیاد پر کی تھی۔ بنگال کے دیہی علاقے کی زمینوں پر چند زمین داروں کا غلبہ تھا۔ آزادی کے بعد زمین داری کا خاتمہ اور زمینی اصلاحات کمیونسٹ جماعتوں کا ایجنڈا بن گیا۔ دوسری طرف روایتی قسم کی سیاسی جماعت کانگریس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زمین داروں کی حامی تھی۔ 1977 میں نکسل باڑی بغاوت بھی اسی تحریک کا حصہ تھا۔ 1977 میں جب بائیں بازو کی حکومت آئی، انہوں نے زمینی اصلاحات کیں اور کاشت کاروں کے حقوق تسلیم کیے گئے۔ مغربی بنگال میں زمینی اصلاحات میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ ملک کے دوسرے حصوں میں اس قدر کامیابی سے زمینی اصلاحات نہیں ہوئیں۔ بائیں بازو نے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی 1978 میں مضبوط اور با اختیار پنچایتی نظام کو متعارف کرایا۔ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے بنگال میں پنچایت کو سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ ملک میں کیرالا اور بنگال ہی ایسی دو ریاستیں ہیں جہاں پنچایت کو سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں پنچایت پر قبضہ کرنے کے لیے پوری قوت صرف کرتی ہیں۔ بنگال کی سیاست میں یہ کہا جاتا ہے کہ پنچایت پر جس کا راج چلے گا بنگال میں اسی پارٹی کا اقتدار رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس مرتبہ مسلم علاقوں میں سب سے زیادہ مزاحمت کیوں ہوئی اور مہلوکین میں مسلمانوں کی اکثریت کیوں ہے؟ بنگال کے ایک تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ بنگال کے دیہی علاقے میں آباد مسلمانوں کی اکثریت غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ عالمی وبا اور پے درپے طوفانوں نے انہیں پسماندگی کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں بنگالی مسلم مزدوروں کو تعصبت اور نفرت کا سامنا ہے اس لیے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر بنگال میں ہی روزی روٹی کی تلاش کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے میں مزدور طبقے کے لیے پنچایت میں غلبہ حاصل کرنے والے افراد کی خوشنودی ضروری ہو جاتی ہے اور اسی کا سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرتی ہیں۔ بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ، مرشدآباد اور جنوبی و شمالی چوبیس پرگنہ کے مسلم اکثریتی علاقے بالخصوص بھانگر، کیننگ اور دیگر علاقے میں تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں سب سے زیاد ہ ترنمول کانگریس کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کولکاتہ سےمتصل علاقہ بھانگر جہاں سے آئی ایس ایف کے چیرمین نوشاد صدیقی کامیاب ہوئے ہیں، وہاں 2021 کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے ہی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ممتا بنرجی کی سیاست ایک ایسے مسلم لیڈر کو برداشت نہیں کر پا رہی ہے جو ان کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔ اس اسمبلی حلقے میں اب تک ایک درجن کے قریب افراد کی موت ہو چکی ہے۔ ترنمول کانگریس کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں میں اکثریت ان کی سیاسی جماعت سے ہے مگر مرنے والوں کے ناموں کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف مسلمان ہی ہیں۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جب ترنمول کانگریس یا پھر کانگریس اور بائیں محاذ مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے نمائندگی نہیں دے رہی ہے تو اس کے لیے مرنے والے مسلمان کیوں ہیں؟ یہ سوال بھی لازمی ہے کہ دینی جماعتیں اور مسلم قائدین کیا اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ کیا مسلم تنظیموں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ مسلمانوں کو علم برداری اور اس کے لیے جان لینے اور دینے سے روکنے کی کوشش کریں۔ مشہور سماجی کارکن حاجی عبدا لعزیز کہتے ہیں بھانگر میں سیاسی تشدد روکنے کے لیے انہوں نے چند مسلم شخصیات کے ساتھ مل کر ترنمول کانگریس کے سابق ممبر اسمبلی اعراب الاسلام سے ملاقات کی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی فلاح بہبود کے لیے وہ اور ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی بیٹھ کر مسئلہ حل کرلیں۔ مگر اعراب الاسلام نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ممتا بنرجی کی ہدایت کے بغیر وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ممتا بنرجی کے علاوہ وہ کسی کے بھی ہدایت پر کام نہیں کریں گے۔حاجی عبدالعزیز کہتے ہیں کہ مسلم سیاسی جماعتیں اس وقت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں اور مسلمان سیاسی لیڈروں کے اشارے پر اپنے بھائیوں کا قتل کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس تشدد میں جہاں مسلمانوں کی جانیں سب سے زیادہ گئی ہیں وہیں مقدمات اور جیلوں میں بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں۔
2018میں ہوئے پنچایت انتخابات میں تشدد کے واقعات کا ضلع وار گرافک
حاجی عبدالعزیز کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جہالت اور حماقت زیادہ ہے اس کی وجہ سے ہر سیاسی پارٹی ان کا استعمال کرلیتی ہے اور وہ لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مسلم نو جوانوں میں بے کاری اور بے روزگاری بھی بہت زیادہ ہے اس لیے یہ کم پیسوں میں ہر کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ حاجی عبدالعزیز مزید کہتے ہیں بھانگور کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ مقامی ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی کو ان کے علاقے بھانگور میں جانے نہیں دیا گیا۔ پولیس نے ان کی ایک بات بھی نہیں سنی، انہیں زخمی حامیوں کی عیادت بھی کرنے نہیں دی اور مقتولین کے گھر تعزیت کے لیے بھی جانے نہیں دیا۔کیا اس سے لوگوں پر اچھا اثر پڑے گا اور ممتا بنرجی کی اقلیت نوازی بے نقاب نہیں ہوگی کہ وہ ایک مسلم ممبر اسمبلی کو بھی برداشت نہیں کرسکتیں؟ ساری طاقت بھانگور میں لگائی جا رہی ہے کہ کسی طرح کوئی مسلم نوجوان سر نہ اٹھا سکے اور غنڈوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ بھانگور کے دبنگ ترنمول لیڈر اعراب الاسلام کی نکیل کسے بغیر شاید ہی بھانگور میں امن و سلامتی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ خاکسار نے الیکشن سے بہت پہلے مشاورت کے ذریعہ ان کے گھر جاکر صلح صفائی کی درخواست کی تھی مگر انہوں نے پارٹی کا رونا رویا تھا۔ اعراب الاسلام اور صدیقی برادران میں صلح صفائی ہو گئی ہوتی تو بھانگور میں آٹھ نو نوجوانوں کی جانیں بچ سکتی تھیں۔ بنگال میں سیاسی وفاداری کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ کولکاتہ سے اسی کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع ہگلی کے پنچایت میں ترنمول کانگریس کے ایک مسلم لیڈر، جنہوں نے پنچایت انتخابات میں پنچایت سمیتی میں کامیابی حاصل کی ہے، اپنے حلیف مسلم لیڈر کے مکانات اور دوکانوں پر بلڈوزر چلوادیا اور مقامی پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال انتہائی جاہلانہ اور سیاسی وفاداری کی انتہا کی علامت ہے۔ اتر پردیش و مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے مکانات پر پولیس انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں نے چلائے ہیں مگر بنگال میں مسلمان نے اپنے مسلمان بھائی کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ ممتا بنرجی نے سیاسی تشدد میں مرنے والوں کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے لیکن اس اعلان پر خود ان کی پارٹی کے ممبر اسمبلی اور سابق ریاستی وزیر عبدالکریم چودھری نے ہی اعتراض کیا اور سوال کیا کہ کیا اگلے انتخاب میں مجھے میرے بھائی کے ہاتھوں قتل کرواکر میرے بچوں کو معاوضہ دیاجائے گا؟ انہوں نے کہا کہ معاوضہ سے انصاف نہیں ہوسکتا۔