Sunday, November 3, 2024
homeدنیامحمد علی جناح کی سیاست کے تضادات اور برصغیر کے موجودہ مسائل:پروفیسر...

محمد علی جناح کی سیاست کے تضادات اور برصغیر کے موجودہ مسائل:پروفیسر اشتیاق احمد کی کتاب کا خصوصی مطالعہ

پروفیسر محمد سجاد
شعبۂ تاریخ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

آج کے ہندوستانی مسلمانوں کے پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے بارے میں کس طرح کے تاثرات اور خیالات رکھتے ہیں؟ ملک کے بٹوارہ یا تقسیم کے لئے عام ہندو اور مسلمان آج کس کو زیادہ ذمے دار مانتے ہیں: انگریزوں کو، مسلم فرقہ پرست علیحدگی پسند سیاست کو یا ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس جیسی طاقتوں کو؟ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فرقہ پرست تنظیمیں تقسیم ملک کی تاریخ نویسی کو کون سا رخ دینا چاہتی رہی ہیں؟ سنہ 1946ء اور 1947ء کے فسادات، دردناک ہجرتیں اور عورتوں کی آبرو ریزیوں کے لئے یہ لوگ زیادہ ذمے دار کس فریق کو مانتے ہیں؟ نئے تاریخی انکشافات کی روشنی میں جناح کو آج کا عام ہندوستانی مسلمان کیسے دیکھے؟ ایسے کئ سوالات اورعوامی حلقے میں تقسیم اور جناح کے تئیں تاثر اور رویہ اور ہندو مسلم تعلقات کے مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے سوئڈن کی اسٹاک ہوم یو نی ورسٹی میں سیاسیات کے پاکستانی پروفیسر اشتیاق احمد کی پنگوئن سے سنہ ۲۰۲۰ء میں شائع شدہ ۸۰۰ سے زائدصفحات پر مشتمل کتاب پر مذاکرہ ضروری ہے۔

جناح نے سنہ 1906ء میں کانگریس کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔ نو برسوں بعد سنہ 1915ء میں گاندھی جی بھارت آ جاتے ہیں۔ تب تک جناح کا رتبہ کانگریس کے اندر بہت اہم ہو چکا ہوتا ہے۔ اور سنہ 1920ء کے بعد جناح کانگریس سے الگ ہو جاتے ہیں۔

سنہ 1915ء میں بیرون ملک مقیم گجراتیوں کا ایک اجتماع ہوتا ہے۔ گاندھی جی جناح کو مسلم لیڈر، نہ کہ ہندوستانی لیڈر، کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ بات جناح کو ناگوار گزرتی ہے۔ سنہ 1917ء میں ایک خطاب کے موقعے سے گاندھی اصرار کرتے ہیں کہ جناح انگریزی کے بجائے گجراتی زبان میں خطاب کریں۔ جناح ایک بار پھر گاندھی جی سے خفا ہو جاتے ہیں۔ سنہ 1920ء میں کانگریس کے ناگ پور کے اجلاس میں جناح گاندھی جی کو مہاتما اور محمد علی جوہر کو مولانا کے سابقے والے قابل احترام القاب کو حذف کر کے خطاب کرتے ہیں۔ اس پر نہ صرف احتجاج ہوا، بلکہ شیلا ریڈی کی تحقیق کے مطابق محمد علی جوہر نے محمد علی جناح کے ساتھ نہایت گھٹیا قسم کی جارحانہ بے عزتی والا سلوک روا رکھا۔ میثاق لکھنؤ (1916) کے بعد جناح کا رتبہ کانگریس میں کافی عروج پر جا چکا تھا۔ رالٹ ایکٹ (1919ء) کے خلاف جناح اور گاندھی دونوں نے نہایت مضبوط احتجاج درج کیا تھا۔ لیکن ناگ پور اجلاس (1920ء) میں محمد علی جوہر کی بد تمیزی کے بعد جناح کانگریس سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جاتے ہیں۔ مانا جاتا تھا کہ مولانا جوہر نے ایسا گاندھی جی کے اشارے پر کیا، خلافت کے سوال پر جناح اور گاندھی کے درمیان اختلاف یہ تھا کہ غیر ملکی مسلمانوں کے مذہبی مسئلے کو ہندوستانی سیاست کا مسئلہ بنانا نہایت غیر مناسب تھا۔ جب کہ گاندھی جی ترکی کے خلیفہ کے سوال پر ہندوستانی مسلمانوں کو انگریزی حکومت کے خلاف صف آرا کرنا چاہ رہے تھے۔

بہ حیثیت مجموعی ہوا یہ کہ جناح چوں کہ لبرل، آئینی سیاست کے طرف دار تھے، جب کہ گاندھی جی نے، بال گنگا دھر تلک کی وفات (1920ء) کے بعد سیاست کو عوامی بنا دیا تھا اور عوامی سیاست جناح کے بس کی نہیں تھی ؟

پٹنہ کے سچدانند سنہا (1872-1950) نے جناح پر لکھے ایک کتابچہ (1948) میں نفسیاتی توضیح پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جناح نہایت کامیاب اور امیر وکیل تھے، اپنے کپڑے، سگریٹ، اپنی کار، اور دیگر معاملات میں دنیا کی مہنگی ترین قسمیں اور برانڈس ہی استعمال کر تے تھے۔ یعنی لیڈر کی حیثیت سے وہ نمبر دو پر خود کو رکھنے کے لئے قطعی آمادہ نہیں تھے۔ اس طرح سنہ 1924ء میں میثاق لکھنؤ (1916ء) کی مکمل خلاف ورزی کے بعد اور موتی لال نہرو رپورٹ (1928ء) کے ریجکشن کے بعد جناح کے لئے کانگریس کی طرف واپسی مشکل ہو گئی۔ واضح رہے کہ موتی لال نہرو رپورٹ کی مخالفت ہندو مہاسبھا نے کی تھی، بلکہ پہلے وہ تائید کر چکی تھی، پھر اپنے وعدے سے مہاسبھا مکر گئی۔ اشتیاق احمد کی دلیل یہ ہے کہ جناح کا کانگریس کے ساتھ مذاکروں سے دوریاں اختیار کرتے چلے جانا اور مسلم کمیونیٹیریئن والی تنگ نظر سیاست میں سمٹتے چلے جانا ملک کی سالمیت کے لئے بہت مضر ثابت ہوا۔ یعنی اس رویے سے مہاسبھا جیسی طاقتوں کے سامنے کانگریس کمزور ہوتی چلی گئی، اور جناح کے چودہ نکاتی مطالبے (1929ء) کو بھی خارج کرنے پر مجبور ہو گئی۔ جناح سیاست سے مایوس اور بیزار ہو کر، انگلینڈ چلے گئے اور اپنی وکالت اچھی طرح وہاں بھی جما چکے تھے۔ لیکن سنہ 1934ء کے بعد اچانک بھارت واپس آ کر سیاست میں کافی سرگرم ہو گئے۔ ایسا انہوں نے انگریزوں کے اشارے پر کیا، تاکہ کانگریس کے خلاف مسلم لیگ کو ایک متوازی طاقت بنا کر رکھا جا سکے، اس کے ٹھوس (یا واقعاتی) شواہد نہیں مل سکے ہیں۔

ایسی تفصیلات میں عموما لوگ برطانوی مفادات کے پہلو سے چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ برطانوی مفاد کے مرکز میں تھا بھارت کو تقسیم کر کے پاکستان کو وجود میں لا کر انہیں سویت روس کے خلاف استعمال کرنا۔ سنہ 1930ء کی دہائی کے بیشتر برسوں میں جناح کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ انگلینڈ میں جا کر اپنی وکالت بھی اچھی طرح جما چکے تھے۔ کراچی کانگریس (1931ء) کی قراردادوں سے اور سنہ 1936ء میں نہرو نے کسانوں کے حقوق کی بات تیز کر دی تھی۔ اس سے زمینداروں اور دیسی ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان خوف کا ماحول بن گیا تھا۔ اب جناح نے شریعت قانون (1937ء) کا سہارا لیا اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے لڑکیوں کو والدین کی زمین والی وراثت میں شئیر نہ دینے کی صورت بھی نکال لی گئ۔ (اشتیاق احمد اس پہلو پر زیادہ روشنی نہیں ڈالتے ہیں اور تاریخ دانوں نے اب تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ مولانا آزاد اس مخصوص مسئلے، یعنی شریعت کے قانون کے سوال پر کیا کر رہے تھے؟)۔

سنہ 1937ء کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو بھاری شکست ہوئی، لیکن جناح نے بڑی چالاکی سے اور خاموشی سے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال کی کرشک پرجا پارٹی سے گفت و شنید شروع کر دی۔ کانگریس کے خلاف مسلمانوں کو ورغلانا شروع کر دیا اور انگریزوں نے تب تک ساورکر کی پشت پناہی کرتے ہوئے مہاسبھا کو مضبوط پارٹی کے طور پر ابھارنا شروع کر دیا۔ سنہ 1942ء کی بھارت چھوڑو تحریک میں کانگریسی لیڈروں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور جناح کی لیگ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی وہ وقت تھا جب یونینسٹ پارٹی کو بھی انگریزوں نے کمزور کر دیا۔ مارچ 1940 کے لیگ اجلاس ،لاہور میں جناح نے اقلیتی حقوق کی سیاست کو آگے بڑھا کر اقلیتوں کو ایک نیشن کے طور پر پیش کیا، جس کے لئے ایک ریاست چاہئے۔ جنوری سے اپریل 1938 کے دوران نہرو اور جناح کے درمیان جو مراسلت ہوئی اس میں نہرو کا خط بہ نام جناح، بہ تاریخ 6 اپریل 1938 خصوصی طور پر پڑھنے لائق ہے۔ اس میں نہرو نے جناح کے بیش تر مطالبات پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہی مراسلوں کے بعد نہرو نے یہ نتیجہ نکالا ہوگا کہ فرقہ پرستانہ مطالبات کو جتنی رعایت دوگے، ان کی اتنی ہی حوصلہ افزائی ہوگی ، وہ اپنے مطالبات کا دائرہ وسیع تر کرتے چلے جائیں گے۔ (اشتیاق احمد نے ان مراسلوں پر خاطر خواہ بحث نہیں کی ہے)۔

اسی لئے 16 جنوری 1940 کی گاندھی جی کی وہ تجویز کہ بہ قول جناح، اگر کانگریس اونچی جاتیوں کے ہندوؤں کی پارٹی ہے، تو جناح خود، کانگریس کے مد مقابل، مسلمانوں، ہریجنوں اور آدی باسیوں کی ایک مشترکہ پارٹی بنا لیں۔ اس کو جناح نے ٹھکرا دیا، اس طرح جناح کی علیحدگی اب امبیڈکر اور پیریار سے بھی بڑھ گئی۔ جناح نے گاندھی کے ساتھ ہوئے سنہ 1944ء والے مذاکرہ کو بھی ٹھکرا دیا، راجہ جی، سبھاش بوس، اور مولانا آزاد کی تجویزوں کو بھی حقارت آمیز لہجوں میں ٹھکرا دیا۔ بلکہ دراوڈوں اور سکھوں اور جھارکھنڈ کے آدی باسیوں کو علیحدگی پسند سیاست کے جال میں پھنسانے کی شاطرانہ سیاست بھی شروع کر دی۔ اشتیاق احمد اور فاروق احمد ڈار کی تحقیقات میں عائشہ جلال کی “بارگیننگ تھیوری” کی تردید کی گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جناح، در اصل کانگریس سے بارگین کرنے کے بجائے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کی بات پر ہی ہٹ دھرمی کی حد تک ٹکے رہے۔ متحدہ قومیت کی باتیں کرنے والے آزاد کی تضحیک جناح نے کی اور مدنی کی تضحیک اقبال نے کی۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں نے آزاد مسلم کانفرنس کی معرفت مسلم لیگ کی مخالفت شروع کی لیکن برطانوی حکومت کی پشت پناہی لیگ کو حاصل تھی (تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب، مسلم پالیٹکس ان بہار، باب چہارم)۔

کسان تحریکوں کی بڑھتی توانائی کے رد عمل کے طور پر،مسلم زمینداروں نے تیزی سے مسلم لیگ کی حمایت شروع کردی۔ سنہ 1943ء کے بعد تو، پنجاب اور سندھ میں، اس حمایت میں مزید شدت آ گئی، جہاں سجادہ نشین ہی لینڈ لارڈس بھی تھے۔ جناح نے یرغمال کی تھیوری بھی لانی شروع کر دی کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کی راہ میں مسلم اقلیتی صوبے والے مسلمان رکاوٹ نہ بنیں۔

مارچ 1944ء میں علی گڑھ کی تقریر میں جناح نے اپنا پینترا پھر ایک بار بدلا۔ اس تقریر میں اس نے یہ کہہ دیا کہ جس دن پہلے ہندو شخص نے اسلام قبول کیا اسی دن علیحدہ مسلم ریاست کا جواز تیار ہو گیا اور یہ کہ ہندوؤں کی زیادتی مسلمانوں کے خلاف ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کو علیحدہ ریاست کا حق ہے۔ ان کے لئے غیر مسلم کی حکومت کو قبول کرنا ہی غیر شرعی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاءالدین احمد زبیری کی دعوت پر جناح کی تقریر بڑی تعداد میں مدعو، برطانوی اور امریکی خبر نویسوں کی موجودگی میں ہو رہی تھی۔ سر ضیاءالدین زبیری کو یو پی کے گورنر اور مسلم لیگ کے رکن کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔

اشتیاق احمد کی دلیل یہ ہے کہ اگر جناح نے گاندھی کے ساتھ ہوئے مذاکروں (1944) کو قبول کر لیا ہوتا تو کم از کم فسادات روکے یا کم کئے جا سکتے تھے۔

جناح کے مسلسل بدلتے اور متضاد سیاسی موقف اور بدلتے تصور ات پاکستان (جغرافیائی اور نظریاتی، دونوں اعتبار سے) ہی کافی ہیں جناح کو تقسیم اور اس سے منسلک تمام انسانی ٹریجڈی کا کھلنائک قرار دینے کے لئے۔ یقینا یہ سب انگریزی حکومت کی شہہ اور پشت پناہی سے ہی ممکن ہو سکا۔

مذہب کو ہی نیشن اسٹیٹ کی نظریاتی بنیاد قرار دے دیا گیا۔ جب اسلام ہی شہریت کی بنیاد ہوگا، تو کسی بھی بہانے کسی بھی فرد، مسلک یا جماعت کو غیر اسلامی قرار دے کر، ایسی حکومت و ریاست، کسی فرد یا جماعت یا مسلک کی بھی شہریت اور اس کے بنیادی حقوق منسوخ کر دے گی۔ ساورکر کے ہندوتوا میں بھی تو یہی ہے کہ ایک خاص قسم کے ہندو کے علاوہ کسی کو بھی نیشن کا وفادار حصہ قرار دینے کو آمادہ نہیں ہے۔

خالد بن سعید (پاکستان، دی فارمیٹیو فیز) اور ایلین میک گریتھ (ڈسٹرکشن آف پاکستان) کی کتابوں کے حوالے سے اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ جناح ایک مطلق العنان حکمراں تھے، جنہیں پارلیمانی جمہوریت میں قطعی کوئی اعتماد نہیں تھا۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے پاکستان میں جناح کا مختصر عہد بالکل ایسا ہی تھا۔ 11 اگست 1947 کی پاکستان کنسٹیٹوئنٹ اسمبلی میں جناح کی تقریر میں سیکولرازم ڈھونڈنے والوں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ جناح کی منطق کے حساب سے پاکستان کی اقلیتوں کو ان کا نیشن اسٹیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟ بلکہ انہیں تو شہریت کے اصول پر مساوی جمہوری حقوق دینے کی بات کی گئی۔ تو یہی باتیں تو کانگریس مسلمانوں کے تعلق سے کہتی آ رہی تھی اور خود جناح یہی باتیں ابتدائی سیاسی دور میں( کانگریس میں رہتے ہوئے) کہتے آ رہے تھے۔

اشتیاق احمد کی دلیل یہ ہے کہ جناح نے شہریت کے مساوی حقوق، بلا تفریق مذہب، کی بات صرف اس لئے کی تھی کہ مسلم اقلیتی صوبوں کے ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں کو نوزائیدہ ملک پاکستان میں ہجرت کر نے کے لئے بھارت کی حکومت مجبور نہ کرے ۔

ایسے تمام اصولی و عملی تضادات اور بد دیانتی کے علاوہ جناح نے تقسیم سے منسلک خوں ریزیوں کے خلاف کبھی اظہار ندامت کیا؟ سعادت حسن منٹو نے جناح کے خاکے میں یہی سوال تو اٹھایا تھا۔ اس نے جناح کے ڈرائیور، حنیف، سے یہی تو جاننا چاہا تھا کہ اس کے صاحب جناح نے کبھی کسی بھی مسئلے پر، لفظ “sorry”کہا ؟ یہ بھی خیال رہے کہ پاکستان کی آبادی کا 55 فی صد بنگالی تھے۔ لیکن صرف ایک بنگالی مسلم کو وزارت کی پہلی کیبینیٹ میں شامل کیا گیا۔ مسلمانوں کے اندر کے ایسے ہی تعصبات اور under representation کے سوالات پر پاکستان کو بھی تقسیم ہونا پڑا اور بنگلہ دیش کا سنہ 1971ء میں قیام ہوا۔ اتنا ہی نہیں مذہب کی بنیاد پر قائم پاکستان کے بانی کی موت کے بعد خود بانی (قائد اعظم) کا مذہب، مسلک طے نہیں ہو پایا، ان کی جائیداد کی وراثت کا حق کس کو ہے، یہ بھی طے نہیں ہو پایا۔ تقسیم کے بعد فاطمہ جناح کے علاوہ ان کے بھائی اور بہنوں اور اکلوتی بیٹی نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔

بٹوارے کا یہ سیاسی کھیل بر صغیر کو عمومی طور پر اور بر صغیر کی اقلیتوں کو خصوصی طور پر نہ جانے کتنی طرح کی مصیبتوں میں آج تک ڈالے ہوئے ہے۔ مذہبی و مسلکی تشدد اور دہشت گردی کا جنون بڑی حد تک اسی سیاست کا نتیجہ ہے۔

تقسیم ملک اتنا بڑا گناہ ہے کہ کوئی فریق اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو آج بھی تیار نہیں ہے۔ لیکن اتنی بات تو وثوق سے کہہ دی جانی چاہئے کہ برطانوی حکومت کی شہہ اور پشت پناہی پا کر فرقہ پرست طاقتیں، بالخصوص، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا و آر ایس ایس نے ملک کا بٹوارہ کروا یا۔ کانگریس کی اسٹریٹجک غلطیاں اور ذمہ داریاں جو بھی رہی ہوں، لیکن یہ ایک واحد جماعت تھی جو بٹوارے کی اصولی و عملی مخالفت کر رہی تھی اور سبھی ہندوستانیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتی تھی۔ مسلم لیگ اور اس کے قائد اعظم جناح نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور وہ مطالبہ پورا ہوا، اس لئے منطقی دلیل تو یہی ہونی چاہئے کہ سب سے بڑی ذمہ داری بھی اسی کو قبول کرنی پڑے گی۔

آخر میں اشتیاق احمد کی کتاب کی تاریخ نویسی کے اصولوں کے پیش نظرکچھ خامیوں کا

ذکر کر دینا مناسب رہے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاسیات کے مضمون سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اشتیاق احمد نے پرائمری مآخذو شواہدکی جانب اتنی زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ جب کہ تاریخ نویسی میں شواہد کا درجہ بہت بلند ہے۔ کئ اہم جگہوں پر اشتیاق احمد نے قیاس پر مبنی باتیں کہنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر چند مخصوص خامیاں کچھ یوں ہیں:

اول: پہلے 15 ابواب میں (یعنی 459 صفحات تک) جو باتیں کہی گئیں ہیں ان میں تقریبا تمام باتیں پہلے کے مصنفین کی معروف تحقیقات سے ماخوذ ہیں اور کئی جگہوں پر ان سکنڈری مآخذ کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ یعنی اس کتاب کا بہت بڑا حصہ معروف سکنڈری مآخذ پر ہی منحصر ہے۔

دوم: یہ حیرت انگیز بات ہے کہ زوار حسین زیدی کی چار جلدوں پر مشتمل دستاویزات کے کلکشن’ جناح پیپرس‘ سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔

سوئم: صفحہ 11 پر لکھا گیا ہے کہ جناح کبھی کوئی کتاب یا طویل مضمون تحریر نہیں کر پائے۔ یہ بات کریم چھاگلا نے اپنی آپ بیتی میں کہی ہے، جس کا حوالہ دینے سے اشتیاق احمد نے گریز کیا ہے۔

چہارم: کئی جگہوں پہ اہم اور متنازعہ باتیں بغیر کسی شواہد یا حوالوں کے لکھ دی گئیں ہیں، مثلا صفحہ 10 کا دوسرا پیراگراف، صفحہ 188 کا آخری پیراگراف، صفحہ 176 کے آغاز میں لکھی بات وغیرہ۔کتابیات اور حوالہ سازی میں بھی کئ خامیاں ہیں۔

پنجم: جناح اور برٹش (لارڈ لن لتھگو) کے درمیان سانٹھ گانٹھ کے تعلق سے بیش تر باتیں گوہر رضوی کی کتاب (1978) سے اخذ ہیں۔ اس تعلق سے زیادہ ٹھوس باتیں ثنا ائیر کے مضمون (ماڈرن ایشین اسٹڈیز، 2008 ) میں ہیں اور انیتا اِندر سنگھ کی کتاب (1987) میں ہیں، جن کے حوالے نہیں دیے گئے ہیں۔ اوما کور (1977)، سوچیتا مہاجن (2000)، جویا چٹرجی، پاپیا گھوش وغیرہ کی اہم ترین تحقیقات سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خورشید کمال عزیز کی تالیف کردہ دستاویزات برائے کانگریس وزارت کی کارکردگی1937 تا 1939بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

ابواب کے اندر ذیلی عنوانات بہت تیزی سے بدلتے ہیں۔ کئی دفعہ تو ذیلی عنوان چند سطروں کے بعد ہی بدل دیے گئے ہیں۔

یعنی ایڈیٹنگ اور کاپی ایڈیٹنگ کی سطح پر بہت ساری کوتاہیاں رہ گئی ہیں۔ اسی لئے مواد کی تکراریں بھی راہ پا گئی ہیں۔ پنگوئین نے راج موہن گاندھی، رام چندر گوہا وغیرہ کی لکھی گاندھی جی کی ضخیم سوانح عمریاں شائع کی ہیں۔ ان میں ایسی کوتاہیاں نہیں برتی گئیں۔

ایسی کوتاہیوں سے قطع نظر (جنہیں اگلے ایڈیشن میں درست کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے)، جناح کی یہ بایوگرافی پڑھی جانی چاہئے۔ جن نوجوانوں کے مطالعات جناح پر کم ہیں، انہیں یہ کتاب نسبتا زیادہ پسند آئے گی

متعلقہ خبریں

تازہ ترین