Saturday, July 27, 2024
homeدنیادوقومی نظریہ پر مسلم لیگ کے وجود سے 50سال قبل اعلیٰ ذات...

دوقومی نظریہ پر مسلم لیگ کے وجود سے 50سال قبل اعلیٰ ذات کے ہندو دانشوروں نے بات شروع کردی تھی ۔ تقسیم ہند کے مطالبے کو مسلمانوں کی اکثریت نے مسترد کردیا تھا: کلکتہ میں متحدہ ہندوستان تاریخ کا فراموش کردہ باب کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد

کلکتہ:

اس وقت ’مسلمانوں کو غیر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے اور تقسیم ہند اور اس دوران ہونے والے قتل عام کےلئے مسلمانوں کو ذمہ دارٹھہرایا جارہا ہے ۔تاہم کلکتہ میں ہاشم عبد الحلیم فائونڈیشن نے دائیں بازو ں کے ذریعہ قائم کی جارہی اس بیانیہ کو رد کرنے کےلئے ’’متحدہ ہندوستان کےلئے مسلمانوں کی خدمات‘‘ کے عنوان سے یک روزہ سیمینار منعقد کیا گیا جس میں تاریخی حقائق اور واقعات کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’دوقومی نظریہ ‘‘ کے اولین نظریہ ساز مسلمان نہیں تھے بلکہ 19ویں صدی میں ہندومفکریںکے ایک گروپ نے ہندو قوم پرستی کا راگ الاپنا شروع کردیا تھا۔اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ کے مقابلہ مسلمانوں کی اکثریت تقسیم ہند اور مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی شدید مخالف کی ۔

سندھ کے سابق وزیر اعظم اللہ بخش سومر و کی قیادت میں ’’مسلم آزاد کانفرنس ‘‘ کا انعقاد دہلی میں کیا جس میں ملک بھر سے مسلم جماعتوں جس مںی جمعیۃ علمائے ، جمعیہ اہل حدیث، مومن کانفرنس اور دیگر ایک درجن تنظیموں نے شرکت کی اور بیک آواز مسلم لیگ کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ملک کی تقسیم کی تجویز کی مخالفت کی ۔1943میں اللہ بخش سومروکا قتل کردیا گیا ۔
ہاشم عبدالحلیم فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی ڈائریکٹرڈاکٹر فواد حلیم نے کہا کہ ’اس وقت ملک میں پولرائزیشن کی سیاست کی جارہی ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کےلئے یہ بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ بھارت کے مسلمانوں کا اجتماعی مطالبہ تھا جب کہ یہ تاریخی طور پر غلط ہے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان نہیں چاہتی تھی اور سیکولر ہندوستان میں ہی رہ گئی تھی۔ دائیں بازو کے جھوٹ کےکا پردہ فاش کرنے میں یہ کانفرنس کلیدی کردار ادا کرے گا۔

کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے معروف دانشور سعیدہ حمید نے کانفرنس کوا مید کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی مشنری ہرطرف کام کررہی ہے ایسے میں تاریخ کے صحیح اسباق کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کلکتہ نے ہمیشہ صحیح راستہ دکھایا ہے۔چھوٹی سی جگہ سے اٹھنے والی تحریکیں تاریخیں مرتب کرتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علمائے ہند، جمعیۃ اہل حدیث ، مومن کانفرنس اور اللہ بخش کی قیادت والی مسلم آزاد کانفرنس نے پوری شدت کے ساتھ تقسیم کی مخالف کی ۔انہوں نے کہاکہ تاریخ پر نقاب جو ڈال دیا گیا تھاآج اس کانفرنس کے ذریعہ اس نقاب کو اتاردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے پیغام عام کرنے کی ضرورت ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے سیاسیات کے سابق پروفیسر شمس الاسلام نے کہاکہ ’’جب ہمیں آزادی ملی تو ہم اللہ بخش (سمرو) یا رضا الکریم جیسے لوگوں کو بھول گئے۔ جناح کی قرارداد لاہور (جس میں 23 مارچ 1940 کو مسلمانوں کے لیے باضابطہ طور پر پاکستان کی تجویز پیش کی گئی تھی) کو تو یاد رکھا گیا ۔ لیکن دہلی میں ہونے والی تین روزہ آزاد مسلم کانفرنس، جس میں تقریباً تمام مسلم تنظیموں کی طرف سے قرارداد کی مذمت کی تھی فراموش کردیا گیا –

پروفیسر شمس الاسلام نے کانفرنس میں اپنے خطاب میں دلیل دی کہ ہندو قوم پرستوں نے مسلم لیگ کےوجود سےکم از کم 50 سال قبل دو الگ الگ قوموں کا تصور پیش کیا تھا۔مورخین جیسے R.C. مجمدار نے لکھا کہ راج نارائن باسو اور ان کے قریبی ساتھی ناباگوپال مترا جیسے اعلیٰ ذات کے ہندو دو قومی نظریہ پر بات کرنے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے۔ ہندو مہاسبھا کے رہنما بھائی پرمانند نے 1906 میں کسی وقت مسلمانوں کو افغانستان بھیجنے کے بارے میں بات کی تھی۔لالہ لاجپت رائے نے 1919 میں چار مسلم ریاستوں کے بارے میں لکھاکہ پٹھان صوبہ، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال۔ ساورکر نے 1937 میں ہندو مہاسبھا کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد انہی خطوط پر بات کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جناح نے احمقانہ طور پر ہندو دائیں بازوکے طرز پر تقسیم ہند کا مطالبہ کیا۔

کلکتہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر بھاسکر چکرورتی نے کہا کہ پاکستان اور تقسیم کی کہانی کا تجزیہ کرنے کی ایک بار پھر سخت ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس وقت بھی صورت حال یہی ہے کہ قوم پرستی کا پیمانہ مذہب ہوگیا ہے۔ایسے میں قوم کے جامع اورہم آہنگ کردار کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ تاکہ تاریخ کی اس قدیم تشریح کی وجہ سے بھارت کو شدید نقصان ہوا تھا۔

سینٹر فار اسٹڈیز ان سوشل سائنسز میں پروفیسر اور ماہر سیاسیا ت معید الاسلام نے دو قومی نظریہ اور قومیت کی تشریح پرو روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی ہندو دائیں بازوں کی جماعتیں اور مسلمانوں کی سخت گیر جماعتیں کے نظریات میں یکسانیت تھی ۔آج کے سیاسی ماحول میں یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ نئی نسلیں اللہ بخش سمر و یا پھر رضاالکریم جیسی تاریخی شخصیات سے واقف ہوپائیں گی ۔انہوں نے کہا کہ تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں سے مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت جنہوں نے آخر وقت تک تقسیم ہند کی شدید مخالف کی تھی ۔

کانفرنس سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر اخلاق احمد آہن نے خان عبدالغفار، کلکتہ شہر کے مشہور ایڈوکیٹ بکاش رنجن بھٹاچاریہ اور دیگر افراد نے شرکت کی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین