نوراللہ جاوید
گزشتہ ہفتے پردہ سیمیں پر دو فلمیں ریلیز ہوئیں ایک کیرالا اسٹوری اور دوسری سدھیر مشرا کی فلم ’’افواہ‘‘ ۔ ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کا چرچا زبان زد خاص و عام رہا، مغربی بنگال اور تمل ناڈو نے نقص امن کے اندیشے کے پیش نظر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اس پابندی کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں زیر غور ہیں ۔یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ کیرالا ہائی کورٹ اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے فلم پر پابندی عائد کرنے سے پہلے ہی انکار کرچکا ہے۔ یہ فلم ہندوتوا پروپیگنڈے سے متاثر افراد کی پذیرائی، بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں غیر معمولی رعایت اور ہندوؤں و مسلمانوں کا سوال بناکر پیش کرنے کی وجہ سے شمالی ہندکے مختلف شہروں میں ناظرین کو جمع کرنے میں کسی حدتک کامیاب رہی لیکن جنوبی ہند بالخصوص کیرالا میں بری طرح ناکام رہی ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات سے محض چند دن قبل اسے ریلیز کرنے کا مقصد سیاسی مفاد بھی تھا۔کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ یہ پروپیگنڈہ فلم کرناٹک کے عوام، بالخصوص ساحلی اضلاع جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہےوہاں اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے ایک حلقہ کا ماننا ہے کہ دراصل یہ فلم کرناٹک اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ہی بنائی گئی تھی کیونکہ کیرالا اور کرناٹک کی سرحدیں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔گزشتہ دو سالوں سے کرناٹک میں فرقہ واریت پر مبنی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس کےلیے حجاب، حلال گوشت، مسلم ریزرویشن کا خاتمہ اور آخری حربہ کے طور پر دی کیرالا اسٹوری کو استعمال کیا گیا مگر یہ حربہ روٹی کپڑا اور مکان کے ایشو کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔
’’کیرالا اسٹوری‘‘ پر گزشتہ ہفتے دعوت کے شمارے میں تفصیلی تجزیہ میں بتایا گیا تھا کہ بالی ووڈ ہی نہیں بلکہ ملک کی علاقائی فلم انڈسٹری بھی پروپگنڈہ انڈسٹری میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔مسلسل ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جن سے مسلمانوں کی شبیہ کو نقصان پہنچ سکے، اسی کے ساتھ ساتھ ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کی جارہی ہے۔ایسے میں اس کا جواب کیسے دیا جائے؟ کسی بھی پروپیگنڈہ کا جواب اگر اسی انداز میں نہ دیا جائے تو اس کے اثرات محدود رہتے ہیں ۔پروپیگنڈہ کا جواب دینے کے متعددطریقے ہوسکتے ہیں اور اس کے لیے صرف فلمی دنیا سے وابستہ سیکولر افراد ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں کے لوگوں کو بھی آگے آنا ہوگا۔بالی ووڈ میں اب بھی کئی اہم شخصیات ہیں جو پولرائزیشن کے اس دور میں بھی سچائی کی راہ پر چل کر فلمیں بنارہے ہیں اور پروپیگنڈہ کا توڑ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد محدود ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ دی کیرالا اسٹوری کے ساتھ ہی ریلیز ہونے والی فلم ’’افواہ‘‘ نے خاموشی کے ساتھ پروپیگنڈہ کا جواب دیا ہے۔
سدھیر مشرا کی یہ فلم ’’لو جہاد‘‘ کی ایک دوسری کہانی کو بیان کرتی ہے۔اس فلم میں انہوں نے لو جہاد کا ہوا کھڑا کر کے سماج کو غلط راہ پر ڈالنے اور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور سماج میں پڑنے والی دراڑ کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس فلم میں غلط معلومات اور افواہیں پھیلانے کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔دراصل افواہ اور پروپیگنڈہ شیطانی چالیں ہیں۔ حکمراں طبقہ افواہوں اور پروپیگنڈے کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرتا ہے تاکہ ملک کے عوام کو غیر متعلقہ ایشوز میں الجھائے رکھے جس کا فائدہ اسے ملتا رہے ۔عالمی جنگوں، فرانسیسی اور امریکی انقلابات کے درپردہ بھی یہی عنصر کام کرتا تھا۔ فرانسیسی مورخ آرلیٹ فارج نے 18ویں صدی میں فرانس میں افواہوں اور پروپیگنڈے کے اثرات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلے افواہوں کو ادارہ جاتی طور پر جنم دیا گیا ہےاور اس کے بعد ریاست کو گھیرنے کی کوشش کی گئی ۔سدھیر مشرا نے اپنی فلم میں بتایا کہ افواہیں پھیلانے والےکھلے عام یا علانیہ نہیں آتے ہیں بلکہ خاموشی کے ساتھ آدھے ادھورے سچ کا سہارا لے کر اپنا کام کرنا شروع کردیتے ہیں، آدھا ادھورا سچ بادی النظر میں پورا سچ ہی معلوم ہوتا ہے اور جب تک افواہوں کی حقیقت آشکار ہوتی ہے تب تک بہت کچھ تباہی مچ چکی ہوتی ہے۔
نوازالدین صدیقی اور بھومی پیڈنیکر کی اداکاری والی اس فلم کو نقادوں کی طرف سے خوب پذیرائی ملی ہے۔ نقادوں نے اسے ایک بہترین فلم قرار دیتے ہوئے اس کی کہانی، اداکاری ، پیشکش اور دیگر تکنیکی امور کی بے حد تعریف کی ہے۔فلمی ناظرین نے لکھا ہے کہ یہ فلم اپنے ناظرین کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے بجائے انہیں سنجیدہ مسائل سے آگاہ کرتی ہے۔اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ لوجہاد کی اصطلاح ذاتی مفادات کے لیے گھڑی گئی ہے۔ تاہم نقادوں کی طرف سے مثبت رد عمل ملنے کے باوجود یہ فلم پرائم ٹائم خبروں میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ دراصل ٹی وی چینلوں کا پرائم ٹائم فلموں کی طرح مکمل طور پر ہندوتوا کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔خبروں اور تجزیوں کے نام پر عوام کے دماغوں میں فرقہ واریت کا زہر اتارا جاتا ہے۔اس لیے ان سے امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اس طرح کی فلموں پر کبھی بات کریں گے۔ ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ پرائم ٹائم میں چھائی رہی جس کی وجہ سے یہ ’’افواہ‘‘ کے مقابلے کہیں زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی جو آج فلم کی کامیابی کا سب سے بڑا پیمانہ ہے ۔مگر کچھ فلمیں اس اعتبار سے ناکام ہونے کے باوجود اپنے دور رس اثرات چھوڑ جاتی ہیں، ’’افواہ‘‘ بھی انہیں میں سے ایک فلم ہے۔
حال ہی میں یوٹیوب پر دو ویڈیوز آئے ہیں جن میں ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کے ذریعہ پھیلائی گئی افواہ کا جواب دوسرے طریقے سے دیا گیاہے۔پہلا جواب مشہور یوٹیوبر دھرو راٹھی نےاپنے یوٹیوب خصوصی پروگرام کے ذریعہ دیا ہے۔انہوں نے اس فلم کے مواد کا حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہوئے اس میں کیے گئے ہردعویٰ کو جھوٹا ثابت کیا ہے۔انہوں نے ہٹلر کے پروپیگنڈہ تکنیکی کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر فائلز اور دی کیرالا اسٹوری بھی ہٹلر کے اسی فارمولے کے تحت بنائی گئی ہیں، جھوٹ کو بار بار اور قوت کے ساتھ اس طرح سے بولا جارہا ہے کہ ملک کے عوام سچ ماننے لگیں۔ دھرو راٹھی کا یہ ویڈیو دیکھنے کے لائق ہے۔یہ ویڈیو ہندوتوا حامیوں پر گویا پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑا ہے، چنانچہ حقائق اور سچائی کا سامنا کرنے کے بجائے الٹا دھرو راٹھی کی حب الوطنی پر ہی سوال کھڑاکیا جارہا ہے اورانہیں ہندو دشمن بتایا جارہا ہے۔دوسرا جواب مشہور انگریزی نیوز ویب سائٹ ’’دی کوئنٹ‘‘ نے اپنے یوٹیوب پروگرام ’’یہ جو انڈیا ہے نا‘‘ میں Another ‘Kerala Story کے عنوان سے دیا ہے۔اس ویڈیو میں کیرالا کی ملک کی معیشت میں اس کی حصہ داری کو نیتی آیوگ کے اعدادوشمار کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں، غیر مقیم کیرالا کے شہریوں نے 2.3لاکھ کروڑ روپے ملک میں بھیجے۔ کیرالا کی فی کس آمدنی ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے 60فیصد زیادہ ہے۔ کیرالا میں بچوں کی اموات کی شرح صرف 6 فیصد ہے۔ کیرالا میں صرف ایک فیصد شہری غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ کیرالا ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست ہے۔ یہ حقیقی اعداد و شمار پر مبنی کیرالا کی اصل کہانی ہے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی کیرالا اسٹوری دیکھنا ہے اور کونسی نہیں دیکھنا ہے۔ دی کوئنٹ کے اس ویڈیو کے آخرمیں ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘کو حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس میں اسلاموفوبیا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اسے مشہور انگریزی اخبارات اور نیو ز ویب سائٹس نے تکنیکی ، مواد اور اداکاری کے اعتبار سے بھی بالکل غیر معیاری فلم قرار دیا ہے۔
مگر یہ ‘‘جو انڈیا ہے نا‘‘ میں بھارتی عوام سچائی اور حقائق پر مبنی ڈاکیومنٹری دیکھنے میں یقین نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ’’افواہ‘‘ جیسی شاندار فلم بھی فلاپ ہوگئی اور تکنیکی اعتبار سے انتہائی غیر معیاری اور گھٹیا لیکن سنسی خیزی کی بنا پر دی کیرالا اسٹوری جیسی فلم کمائی کرنے میں کامیاب رہی جو انڈین فلم شائقین کے غیر معیاری شوق کے معیار پر پوری اترتی ہے، مگرسوال فلم کی کامیابی اور ناکامی کا نہیں ہے بلکہ پروپیگنڈے کا جواب دینے کا ہے۔ سدھیر مشرا کی فلم ’’افواہ‘‘ اور دھرو راٹھی اور دی کوئنٹ کے یہ دونوں ویڈیوز ہمیں راہ دکھاتے ہیں ۔اس طریقے پر ہرایک پروپیگنڈے کا جواب دیاجائے تو افواہوں کے زہریلے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔