یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے ادارے (ای یو اے اے) کے مطابق رواں برس اب تک موصول ہونے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے تقریباً ایک چوتھائی شامی اور افغان ہیں جبکہ دیگر افراد کا تعلق وینزویلا، ترکی، کولمبیا، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے تارکین وطن کی تعداد رواں سال کی پہلی ششماہی میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 28 فیصد بڑھ گئی ہے۔
رواں برس جنوری سے جون کے آخر تک 27 رکنی بلاک اور اس سے منسلک ممالک سوئٹزرلینڈ اور ناروے میں پانچ لاکھ 19 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔
یوں یورپی یونین رواں سال 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کی جانب بڑھ رہا ہے، جو 2015-2016 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس وقت زیادہ تر شامی تارکین وطن جنگ کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہو رہے تھے۔
2015 میں اس بلاک کو سیاسی پناہ کی 13 لاکھ 50 ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جبکہ 2016 میں مزید 12 لاکھ 50 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔
2017 میں یورپی یونین کی جانب سے ترکی کے ساتھ غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں پر پابندی عائد کرنے اور 2020 اور 2021 میں کرونا وبا کے عروج کے دوران سفری پابندیوں سے یہ تعداد کم ہو گئی تھی۔
ای یو اے اے کا کہنا ہے کہ 2022 میں درخواستوں میں 53 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جس سے یورپی یونین کے بہت سے ممالک پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
بہت سے معاملات میں رہائش اور معاونت پہلے ہی بہت کم ہے کیونکہ یورپی یونین کے متعدد ممالک 40 لاکھ یوکرینی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں، جنہیں اپنے ملک کے خلاف روس کی جنگ کی وجہ سے پناہ سے الگ تحفظ کی حیثیث حاصل ہے۔
جرمنی جس نے 2015-2016 میں شامی تارکین وطن کی کثیر تعداد کو پناہ دی تھی، پناہ گزینوں کے لیے یورپی یونین کا سرفہرست ملک ہے، بالخصوص شامی اور افغانوں کے لیے۔
2023 کی پہلی ششماہی میں یورپی یونین میں شامی پناہ گزینوں کی درخواستوں میں سے 62 فیصد جرمنی کو موصول ہوئیں۔
وینزویلا کے پناہ گزینوں کے لیے سپین اہم ملک رہا، جنہیں پناہ گزین کی حیثیت کے بجائے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ویزا دیے جانے کا رحجان پایا جاتا تھا۔
مجموعی طور پر 41 فیصد درخواست دہندگان کو یا تو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا یا تحفظ کی کسی اور صورت میں انہیں رہنے کی اجازت دی، لیکن نتائج مختلف قومیتوں کے لیے مختلف تھے۔
شامیوں اور افغانوں کو، جن کے ممالک میں تنازعات اور جبر ہے، ایسی حیثیت ملنے جبکہ ترکوں کو مسترد کیے جانے کا زیادہ امکان تھا۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں یورپ کے اندر روسیوں اور ایرانیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔