Friday, December 13, 2024
homeخصوصی کالمملک بھرکے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی تعداد میں ایک...

ملک بھرکے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی تعداد میں ایک فیصد کی گراوٹ—مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

نوراللہ جاوید

وزارت تعلیم ہر سال ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی سماجی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی پر مبنی سروے شائع کرتی ہے۔ آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ یہ صرف تعلیمی اداروں کا رپورٹ کارڈ نہیں ہے بلکہ اس کے آئینے میں ملک کی مجموعی تعلیمی ترقی، سماجی و معاشرتی پس منظر کی عکاس ہوتی ہے۔ آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کی رپورٹ 2020-21 انتیس جنوری کو منظر عام پرآئی ہے۔اس رپورٹ کے مختلف حصے جو میڈیا میں آئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مسلم لڑکوں کے مقابلے تین فیصد مسلم لڑکیاں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔مگر یہ صرف مسلم لڑکیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک تکلیف دہ اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مجموعی طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں 7.4 فیصد کا اضافہ ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے مسلم طلبا و طالبات کی تعداد میں ایک فیصد کی کمی آئی ہے۔ 2009 کے بعد یہ سب سے بڑی گراوٹ ہے۔

کسی بھی سرکاری رپورٹ اور اس کے اعدادو شمار کا جائزہ لینا ہمیشہ ایک تکلیف دہ عمل رہا ہے۔اعداد و شمار کا جب بھی گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو ہمیشہ مشکل اور باعث تشویش نتائج سامنے آتے ہیں۔کورونا کے بعد معاشی بدحالی، انسانی مصائب اور عدم مساوات میں اضافہ ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے طلبا کی تعداد میں مجموعی طور پر 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے تو واقعی یہ خوش آئند پہلو ہے۔مگر کسی بھی رپورٹ کے صرف ایک پہلو پر خوش ہونے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کی رپورٹ 2020-21سے جو چشم کشا حقائق سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک کے آئی آئی ٹی اداروں، ٹکنالوجی اور میڈیکل کے دیگر اداروں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ریزرویشن پالیسیوں کے نفاذ میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر آئے سترہ سال مکمل ہوچکے ہیں ۔2006میں جب رپورٹ سامنے آئی تھی اس وقت کافی باتیں اور ہنگامہ آرائیاں برپا کی گئیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایشو سیاسی موضوع بھی بنا، ماضی کی حکومتوں کو با دل ناخواستہ ہی سہی کئی اقدامات بھی کرنے پڑے۔چنانچہ 2009 میں جہاں ملک کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی نمائندگی کی شرح محض دو فیصد کے قریب تھی مگر 2010 کے بعد اس میں اضافہ درج کیا گیا اور بتدریج 2019 تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا و طالبات کی تعداد 5.5 تک پہنچ گئی۔مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں شرح نمائندگی میں اضافے کی رفتار اگرچہ قومی اوسط کے اعتبار سے کسی بھی درجے میں قابل اطمینان نہیں تھی لیکن گراف اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا اس لیے امید تھی کہ اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہو گا مگر تازہ رپورٹ میں جو گراوٹ درج کی گئی ہے اس نے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ کیا مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا جذبہ سرد پڑ رہا ہے؟ جب کہ تعلیم کسی بھی کمیونیٹی کی ترقی کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک یا کمیونٹی کی ترقی کا اندازہ ان کی تعلیمی محصولات سے کیا جاتا ہے۔تعلیم قوموں کو وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کا جواب دینے کے قابل بنانے کے لیے طاقت ور اور لچکدار بناتی ہے۔ تعلیم میں انسانوں کو انسانی وسائل میں تبدیل لانی کی طاقت ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کے بغیر ایک پائیدار اور خوشحال قوم کی تعمیر نہیں ہوسکتی ہے اور اس کا مکمل انحصار اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبے کی ہمہ گیری اور اس کی افادیت اور فیوض عامہ پرہے۔ان حقائق کے باوجود اگر کوئی کمیونیٹی تعلیم کے شعبے میں حاشیہ پر پہنچتی ہے تو اس سے بڑھ محرومی اور مایوسی کی بات کیا ہوسکتی ہے؟ اب جب کہ مرکزی وزارت اقلیتی امور کے سالانہ بجٹ میں کٹوتی اور پرائمری، اپر پرائمری اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ جیسی اسکیمیں بند کردی گئی ہیں اس سے یہ اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی کی شرح ایک بار وہیں پر پہنچ جائے گی جہاں 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے وقت تھی۔

رپورٹ کے ایک حصہ کو لے کر میڈیا میں خوب باتیں ہورہی ہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کی تعداد مسلم لڑکوں کے مقابلے میں تین فیصد زائد ہے۔آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کی رپورٹ 2020-21 جب منظر عام پر آئی تو ایک انگریزی اخبار ’’بزنس اسٹینڈر‘‘ نے اس رپورٹ کو بنیاد بناکر یہ خبر شائع کی کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کے مقابلے میں مسلم طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔انگریزی اخبار نے اس کو مسلم معاشرہ میں خوشنما تبدیلی سے تعبیر کیا۔ اس کے بعد اس خبر کو پیش کرنے کی ہوڑ سی لگ گئی۔ جب کہ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے ترقی یافتہ ریاستوں میں سے ایک کرناٹک میں حجاب کا معاملہ پیش آنے کے ایک سال بعد سرکاری کالجوں میں مسلم طالبات کے اندراج میں کمی آئی ہے۔ ’’بزنس اسٹنڈر‘‘ سمیت دیگر اخباروں نے رپورٹ کے کئی پہلوؤں کو نظر انداز کردیا ہے۔بلاشبہ معاشرے کی تبدیلی کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں لڑکوں اور لڑکیوں کو مساویانہ مواقع ملنی چاہیے، اس سے کس کو اختلاف ہوسکتا ہے۔تاہم اعلیٰ تعلیم کے حصول میں لڑکوں کا پچھڑ جانا کسی بھی معاشرے کی سماجی، معاشرتی اور اقتصادی صورت حال کے لیے مزید بھیانک ثابت ہوتا ہے۔اس سے کمیونیٹی کی اقتصادی ترقی متاثر ہوگی اور اس کے اثرات سالوں نہیں بلکہ کئی دہائیوں تک مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2019-20 میں اکیس لاکھ (5.5 فیصد) مسلم طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ 2020-21 میں مسلم طلبا و طالبات کی تعداد کم ہوکر 19.21 لاکھ (4.6فیصد) ہوگئی ہے۔ ایسے میں اعلیٰ تعلیم میں مسلم طالبات کی شرح ترپن فیصد اضافہ ہونے پر جشن منانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔یہ سوال حکومت سے ہی نہیں مسلم معاشرےاور مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں کو خود سے بھی کرنا چاہیے کہ کورونا وبا کے باوجود اگر ملک میں مجموعی طور پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں 7.4 فیصدکا اضافہ ہوا ہے تو پھر مسلم طلبا و طالبات کی تعداد میں کیوں کمی آئی ہے؟ جبکہ کورونا کی وجہ سے ملک میں مجموعی طور پراقتصادی ترقی کو شدید جھٹکے لگے ہیں۔ تمام کمیونیٹیز اقتصادی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔اس کے باوجود اگر شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب اور او بی سی کے طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے تو پھر مسلمان کیوں پیچھےرہ گئے ہیں؟یہ صورت حال جہاں مسلم کمیونیٹی، تنظیمیں، جماعتیں، تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے سماجی کارکنوں کے لیے لمحہ فکر ہے وہیں بھارت کو وشو گرو بنانے کا خواب دیکھنے اور دکھانے والوں کے لیے بھی ایک بڑا سوال ہے کہ کیا وہ مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے دلدل میں دھکیل کر ملک کو وشوگرو بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طریقے سے مرکزی اور بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سے منہ موڑا جارہا ہے، اسکالر شپس بند ہورہے ہیں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ مسلمانوں کے پاس ہے بھی یا نہیں؟ کیا مسلمان پرائیویٹ تعلیمی اداریں قائم کرکے اس کا تدارک کرسکتے ہیں؟ کیا عام مسلمانوں کی اقتصادی و معاشی استطاعت اس قدر ہے کہ وہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں بڑی فیس دے کر اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکتے ہیں؟

آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کی رپوٹ کا تجزیاتی مطالعہ

آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE) 2020-21 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تعلیمی سال 20219-20 کے مقابلے میں تعلیمی سال 2020-21 میں ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے مسلم طلباء کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مبنی رپورٹ کے مطابق کمیونٹی کے طلباء کی تعداد 2019-20 میں اکیس لاکھ (5.5 فیصد) سے 2020-21 میں کم ہو کر 19.21 لاکھ (4.6) ہو گئی۔ دیگر اقلیتیوں جیسے عیسائی، سکھ، بدھ مت، جین اور پارسیوں کے طلباء کی اعلیٰ تعلیمی ادارو ں میں نمائندگی دو فیصد یعنی 8.29 لاکھ ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے۔ گزشتہ سال یہ 2.3 فیصد تھی۔آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کی گزشتہ چار رپورٹوں کا تجزیہ کیا جائے تو 2016-17 میں مسلم طلبا کی تعداد 17.3 لاکھ تھی، 2017-18 میں 18.3 لاکھ تھی۔ 2018-19 میں 19.5 لاکھ تھی اور 2019-20 میں اس میں ضافہ ہوکر اکیس لاکھ تک پہنچ گئی ۔مگر 2020-21 میں ایک بار پھر طلبا کی تعداد کم ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق مسلم اقلیت اور دیگر اقلیتیوں میں طالبات کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ مسلم طالبات کی تعداد 9.6 لاکھ ہے جبکہ مسلم طلبا کی تعداد 9.5 لاکھ ہے۔دیگر اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے 4.48 طالبات اور 3.18 لاکھ طلبا زیر تعلیم ہیں ۔

سروے کے مطابق، اتر پردیش سے تعلق رکھنے مسلم طلبا و طالبات کی تعداد 2.99 لاکھ ہے۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے 2.38 لاکھ، کیرالا سے تعلق رکھنے والے 1.70 لاکھ، تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے 1.62 لاکھ، بہار سے تعلق رکھنے والے 1.43 لاکھ اور مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے 1.50 مسلم طلبا و طالبات کی تعداد ہے۔ تاہم مسلم طلبا کی تعداد میں کمی ملک کی تمام ریاستوں میں نہیں ہوئی ہے بلکہ مغربی بنگال، تلنگانہ اور کیرالا جیسی ریاستوں میں مسلم طلبا کی تعداد میں گراوٹ نہیں آئی ہے۔مغربی بنگال میں سال 2020-21 میں تقریباً 22.38 لاکھ مسلم طلبا نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا، جبکہ سال 2019-20 میں مسلم طلبا کی تعداد 2.35 لاکھ تھی۔ مغربی بنگال میں اگرچہ مجوعی طور پر مسلم طلبا و طالبات کی تعداد میں معمولی سا اضافہ ہوا ہے مگر یہاں بھی 2019-20 کے مقابلے میں مسلم طلبا کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال مسلم طلبا کی تعداد 1.11 لاکھ تھی جو اس سال کم ہوکر 1.10 لاکھ ہوگئی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال مسلم طالبات کی تعداد 1.23 لاکھ تھی جو اس سال اضافہ ہوکر 1.27 لاکھ ہوگئی۔تلنگانہ میں سال 2020-21 میں داخلہ لینے والے مسلم طلباء کی تعداد 1.21 لاکھ سے اضافہ ہوکر 1.28لاکھ ہوگئی۔ اسی طرح، کیرالا میں 2019-20 کے تعلیمی سال میں مسلم طلباء کی تعداد 1.66لاکھ تھی اس سال اس میں اضافہ ہوکر 1.70لاکھ ہوگئی ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ ان ریاستوں میں مسلم طلبا کی تعداد میں کمی کیوں نہیں ہوئی ۔مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے گرچہ مسلم طلبا کی تعداد ناکافی ہے مگر گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی داخلہ لینے کا رجحان باقی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ریاستی حکومت کی طرف سے چلائی جارہی ہے اسکالرشپس اور فلاحی اسکیمیں ہیں ۔مغربی بنگال میں لڑکیوںمیں اعلیٰ تعلیم کےفروغ کے لیے کنیا شری کی اسکیم ہے جس کے تحت ہر ایک لڑکی کو ایک مرتبہ پچیس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔اسی طرح تلنگانہ میں بھی اقلیتی طلبا کے اسکالر شپ کی کئی اسکیمیں ہیں ۔جب کہ کیرالا میں مسلم طلبا کی تعداد میں اضافہ اقتصادی، معاشرتی اور تعلیم کے تئیں ان کی سنجیدگی اہم وجوہات ہیں ۔اسی طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی شرح میں مسلم اساتذہ کی تعداد 5.6 فیصد ہے جب کہ دیگر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی تعداد 8.5فیصد ہے۔ یعنی آبادی کے اعتبار سے بھی مسلم اساتذہ کی تعداد کافی کم ہے۔

جیسا کہ میں نے ابتدا میں یہ بات کہی ہے کہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری سروے رپورٹ کا مطالعہ اور تجزیہ تکلیف دہ اور کرب سے گزرنے کے مترادف ہوتا ہے کیوں کہ رپورٹوں کے مطالعے کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ انتہائی مایوس کن اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE2020-21)کی رپورٹ کاوسیع تناظر میں تجزیہ اور مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت و اضح ہوتی ہے کہ اگرچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں مسلم لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مگر یہ اضافے کن شعبوں میں ہوا ہے؟ رپورٹ بتاتی ہے کہ زیادہ تر لڑکیاں شعبہ آرٹس اردو، بنگلہ، ہندی، مقامی زبان اور انگریزی سے گریجویشن کرتی ہے جبکہ کامرس، سائنس اور دیگر شعبوں میں گریجویشن کرنے والوں میں مجموعی اعتبار سے مسلم طلبا و طالبات کی تعداد کافی کم ہے۔ ملک اعلیٰ انتظامی اسکول آئی آئی ایم اے، آئی آئی ایم بی اور آئی آئی ایم سی میں مسلم طلبا کی تعداد کا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ مایوس کن رہے گا ۔ان اداروں کے بورڈ میں بھی ایک بھی مسلم شخصیت شامل نہیں ہے۔ سرفہرست انجینئرنگ اسکول آئی آئی ٹی آئی آئی ٹی ڈی اور آئی آئی ڈ ی ایم اور دہلی یونیورسٹی کے ٹاپ کالجوں میرنڈا ہاوس، سینٹ اسٹیفن اور ایس آر سی سی، میڈیکل انسٹیٹیوٹ (ایمس دہلی، پی جی آئی چندی گڑھ اور کے جی ایم یو لکھنؤ) آئی سی اے آئی، آئی آئی ایس سی بنگلور میں بھی ان کی گورننگ باڈیز میں کوئی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔اس کے علاوہ مسلم طلبا کی تعداد بھی کہیں زیادہ کم ہے۔بھارت میں عیسائیوں کی آبادی 1970 اور 2019 میں 2.3 میں ایک جیسی ہے۔ آئی آئی ٹی بی میں عیسائیوں کا فیصد 1970 میں 6.37 تھا مگر 2019 میں 0.67فیصد رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی نمائندگی 1970میں 1.67فیصد اور 2019میں 1.68فیصد ہے جبکہ 1970میں مسلمانوں کی آباد ی13.4فیصد تھی اور 2019میں 14.2فیصد ہوگئی ہے۔

غیر منافع بخش تنظیم IDIA نے 2018-19 میں ملک کے پانچ سرکردہ اسکول آف لا میں طلبا کے تنوع سے متعلق ایک سروے کیا تھا، اس پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا چودہ فیصدہیں، لیکن قانون کے اسکولوں میں ان کا اندراج صرف 3.3فیصد ہے۔ اس اعداد وشمار میں 2016-17 سے بہتری آئی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق کل طلباء میں سے13.79اور 7.18باالترتیب شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کے زمروں کے تحت آنے والے طلبا زیر تعلیم ہیں۔ مزید 2015کے نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی (NLSIU) کے ایک متنوع سروے سے پتہ چلتا ہے کہ NLSIU کے 389 سروے شدہ طلباء میں سے صرف تین مسلم طلبا تھے جو کہ ملک کے سب سے اونچے درجے کے اور قدیم ترین NLU میں زیر تعلیم ہیں۔یعنی یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یونیورسٹی کی آبادی میں دیگر مذہبی اقلیتیں جیسے جین، جو کہ آبادی کا تقریباً 0.5 فیصد پر مشتمل ہیں، کافی اچھی نمائندگی کرتی ہیں، جو کہ NLSIU طلباء کی آبادی کا پانچ فیصد سے زائد ہیں ہیں۔NLSIU سروے اس حقیقت کو بھی سامنے لاتا ہے کہ CLAT کے تمام امیدواروں میں سے صرف دو فیصدمسلمان ہیں۔ اس کی وضاحت اس حقیقت سے کی جا سکتی ہے کہ CLAT کے درخواست فارم کی قیمت قومی سطح کے دوسرے امتحانات جیسے JEE یا NEET کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں NLSIU سروے کے مطابق NLUs میں پچاسی فید طلبا نے کوچنگ لی ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ کوچنگ کی اوسط فیس ایک سے دو لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان تمام مذہبی گروہوں میں سب سے غریب ہیں۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، NSSO سروے ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمانوں کی فی کس آمدنی دیگر تمام مذہبی گروہوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ نیشنل لا اسکولوں کی فیس پانچ سال کے لیے بارہ تا پندرہ لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ NLU طالب علم کے اضافی اخراجات کے لیے پانچ لاکھ روپے سالانہ درکار ہیں۔ NUJS Diversity Report 2019 کی رپورٹ جو اب تک کا سب سے جامع اور تنوع سروے ہے، اس میں میں کہا گیا ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف جیوریڈیکل سائنسز میں سروے کیے گئے 544 طلبا میں سے18.6فیصد نے تحقیقی مقالے شائع کیے ہیں، جب کہ صرف ایک طالب علم مسلمان تھا۔

کم نمائندگی کی وجوہات اور اس کا حل
سیاسی تجزیہ کار سبھاموئے مترابتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی کم نمائندگی کو مسلمانوں میں تعلیم کے عدم رجحان کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے معاشی، سماجی اور سہولتوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مسلمان ان کمیونٹیز میں شامل ہیں جو معاشی طور پرپسماندہ ترین طبقات میں سے ایک ہے۔چونکہ اس وقت ملک میں اعلیٰ تعلیم کی نجکاری ہورہی ہے اس رجحان کی وجہ سے کمیونٹی کے طلبا کو کم مواقع مل رہے ہیں۔ جن ریاستوں میں اندراج میں بہتری آئی ہے وہاں ریاست کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی ادارے اور نجی ادارے کم ہو سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا حصہ 2010-11 میں 2.54 سے بڑھ کر 2019-20 ہوسکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مواقع دیے جائیں تو کمیونٹی مرکزی دھارے میں آسکتی ہے۔ تاہم یہ بات پریشان کن ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کے داخلہ کی شرح نمو کم ہو رہی ہے۔ 2010-11 سے 2014-15 کے دوران 120.09فیصد تک داخلہ لینے کی شرح بڑھ گئی تھی مگر اس کے بعد اس میں کمی ہو کر 96.36فیصد تک پہنچ گئی ہے، آخر کیوں؟ مترا بتاتے ہیں کہ ملک کی سیاست اور حکومتوں کے مسلمانوں کے تئیں رویوں کو دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے تئیں امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کی معمولی تعلیمی ترقی کو جہاد سے جوڑ کر مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس درمیان اسکالرشپ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔آئی آئی ٹی دہلی میں پروفیسر دھیرج سنگھی نے اپنے بلاگ پر ایک رپورٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی بھی ادارے میں پچاس فیصدآبادی کے پاس بیس فیصدبھی نمائندگی نہیں ہے تو سمجھنا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم ملک کے ہر ریاست میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی وجوہات مختلف ہیں، مثال کے طور پر آسام جہاں مسلمانوں کی آبادی چونتیس فیصد ہے اور بعض اضلاع میں مسلمانوں کی شرح آبادی ستر فیصد کے قریب ہے مگر وہاں مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کی شرح سترہ فیصد سے بھی کم ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دراصل آسام کی جغرافیائی حدود، سیاسی ماحول اور مسلمانوں کی اکثریت کی زراعت کے شعبے سے وابستگی تعلیمی پسماندگی کی اہم وجوہات ہیں۔اسی طرح مغربی بنگال میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کی شرح تیس فیصد کے قریب ہےمگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ دراصل مغربی بنگال کی مسلمانوں کی پچاسی فیصد دیہی علاقوں میں آباد ہے۔اور دیہی علاقوں میں اسکولوں و کالجوں کی قلت اور مسلمانوں کی کمزور معیشت انہیں شہروں میں جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منیجمنٹ کے پروفیسر فرقان قمر جو یونیورسٹی آف راجستھان کے سابق وائس چانسلر بتاتے ہیں کہ انیس لاکھ مسلم طلبا جو اس وقت اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں ان میں سے 77.66 فیصد کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کالج معیاری تعلیم کے اعتبار سے کم تر ہیں۔ ملک کی معیاری یونیورسٹیوں میں مسلم طلبا کی تعداد جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی وجہ سے مسلمانوں کی سرکاری یا پھر حکومت کے امداد یافتہ یونیورسٹیوں میں نمائندگی آٹھ فیصد کے قریب ہے مگر ان مذکورہ یونیورسٹوں کے علاوہ ملک کی دیگر یونیورسٹی جیسے دہلی یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی، جواہر لال یونیورسٹی اور دیگر ریاستی یونیورسٹیوں اور مین اسٹریم کے منیجنگ اور آئی آئی ٹی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔پروفیسر فرقان قمر بتاتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020میں تعلیمی پسماندگی کے شکار مسلمانوں سے متعلق کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ یہ صرف اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک کے مسلمان تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں مگر ان کی پسماندگی کے خاتمے کے لیے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ پروفیسر قمر کہتے ہیں کہ ملک کے سرکاری اور حکومت کے امداد یافتہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی شرح نمائندگی میں اضافہ حکومت کے اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دراصل جب مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کو تعلیمی اداروں کے قیام کی ترغیب دی جانے لگتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا چودہ کروڑ آبادی پر مشتمل کوئی بھی کمیونیٹی اپنے طور پر تعلیمی اعتبار سے خود کفیل ہوسکتی ہے، وہ بھی ایسی کمیونیٹی جس کی اسی فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارتی ہے جس نے اپنے بچوں کو بہت مشکل سے ہی اسکول اور ہائی اسکول تک تعلیم دلائی ہے؟ میڈیکل نیٹ کے نتائج جب بھی آتے ہیں تو اس طرح کی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں کہ پانچ سو مسلم طلبا نے نیٹ امتحان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔کبھی بھی یہ نہیں دیکھاجاتا کہ امتحان پاس کرنے والوں میں کتنے داخلہ لینے کے اہل ہیں۔ کتنے طلبا کی معاشی حالت اس کی اجازت دیتی ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے مڈل کلاس مسلمانوں کی ضروریات تو پوری کرسکتے ہیں مگر غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے جبکہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے معیار اور تعلیمی ماحول کا موازنہ بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

جواہر لال یونیورسٹی میں ایمریٹ پروفیسر سکھدیو تھوراٹ بتاتے ہیں کہ اگر مالی طور پر کمزور مسلمانوں کی مدد کی جائے تو وہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کا جنرل ان رولمنٹ ریٹ 16.6 فیصد سے کم ہے اور ملک میں قومی سطح پر 26.3 فیصد ہے، معاشی بدحالی کی وجہ سے 54.1 فیصد مسلم طلبا کا انحصار سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں پرہے، جبکہ قومی سطح پر 45.2 فیصد طلبا سرکاری کالجوں میں جاتے ہیں ۔حکومت کی امداد یافتہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں 18.2 فیصد طلبا جاتے ہیں اور 27.4فیصد طلبا غیر امداد یافتہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں، جبکہ قومی سطح پر 24.4 فیصد طلبا امداد یافتہ پرائیوٹ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں اور 30.1 فیصد غیر امداد یافتہ اعلیٰ تعلیمی پرائیوٹ اداروں میں جاتے ہیں۔پروفیسر سکھدیو تھوراٹ کہتے ہیں کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے مناسب فیس اور ہاسٹل کے انتظامات کرکے معاشی طور پر پسماندگی کے شکار مسلم طلبا کو بہتر مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔

شعبہ تعلیم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اب جب کہ وزارت اقلیتی امور نے بڑے پیمانے پر اسکالر شپ پروگرام میں کٹوتی کی ہے ایسے میں اندیشہ ہے کہ آئندہ سالوں میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی میں مزید کمی آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس کاتدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مکمل طور پر تو نہیں مگر کسی حد تک اس کمی کو مسلم تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے پسماندگی کے شکار اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کی مدد کرکے پوری کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے تال میل اور منصوبہ بند پروگرام مرتب کرنا ہوگا۔

بھارت کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی سے متعلق تحقیق کرنے والے اسکالر جان کیورین نے ’’ہندوستانی مسلمانوں کو اٹھانا، ترقی اور تعلیم کی سیڑھی، اکیسویں صدی کے لیے تبدیلی کا ایجنڈا‘‘کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں لکھا ہے کہ 2050 تک مسلمانوں کی آبادی کی شرح 310 ملین ہوجائے گی۔یہ آبادی پاکستان اور انڈونیشیا سے بھی زیادہ ہوگی۔اسی فیصد آبادی غریب اور نچلے متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے میں اردو میڈیم اسکول، مدارس اور کمیونیٹی ادارے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اناسی ملین پچیس سال سے کم عمر مسلمان ہیں۔جان کیورین اتنی بڑی کمیونیٹی کی ضرورت پوری کرنا مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اور ذیلی ادارو ں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ رپورٹ کے آخر میں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ناگزیر کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ کمیونیٹی کو باشعور بنانے اور ان کی ہر سطح پر مدد کرنے میں رول ادا کرسکتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین