Friday, July 26, 2024
homeہندوستان’کشمیر فائلز اور کیرالہ اسٹوری‘ کے بعد دواور اسلام مخالف ...

’کشمیر فائلز اور کیرالہ اسٹوری‘ کے بعد دواور اسلام مخالف فلمیں ’72 حوریں‘اور ’’ اجمیر 92‘ ریلیز ہونے کو تیار

سوال یہ ہے کہ اس طرح کی مسلم مخالف فلموں کی بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں ٹیکس معاف کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔اگر وہ سمجھتی ہے کہ نفرت کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہے مگر اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نفرت زدہ سماج ملک کے استحکام اور امن و سلامتی دونوں کےلئے خطرہ ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں ملک کو سنبھالنا ان کےلئے مشکل ہوجائے گا۔

ا(انصاف نیوز آن لائن )
گزشتہ سال کی متنازع بولی وڈ فلم ’دی کشمیر فائلز‘ اور مئی میں ریلیز کی گئی اسلام مخالف فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے بعد دو اور مسلم مخالف فلم ’’72حوریں‘‘ اور’’ اجمیر 92‘‘ریلیز ہونے کو تیار ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب رکے گا اور مسلم مخالف فلموں کو عدالتیں ’’اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ریلیز کرنے کی اجازت دیتی رہے گی ۔

’72 حوریں‘ کا ٹیزر 4 جون کو جاری کیا گیا، جس کے بعد لوگوں نے اس پر تنقید کرتے ہوئے فلم کو ریلیز کرنے سے قبل ہی اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

جاری کیے گئے مختصر ٹیزر میں اسامہ بن لادن، حافظ سعید، اجمل قصاب اور دیگر افراد کی تصاویر دکھائی گئی ہیں جب کہ پس پردہ آواز میں بتایا جا رہا ہے کہ مذکورہ تمام افراد نے مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلائی۔

مختصر ٹیزر سے عندیہ ملتا ہے کہ فلم کی کہانی اسلام مخالف ہوگی اور مسلمانوں کو دہشت گرد کرداروں کے طور پر دکھایا جائے گا۔

مختصر ٹیزر کے ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ ’72 حوریں‘ کو آئندہ ماہ 7 جولائی کو ریلیز کیا جائے گا۔

ٹیزر ریلیز ہوتے ہی ہزاروں افراد نے اس پر تنقید کرتے ہوئے فلم کو اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے اس کی ریلیز روکنے کا مطالبہ کیا۔

’72 حوریں‘ کو سنجے پورن سنگھ چوہان نے بنایا ہے اور اس میں غیر معروف اداکار اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیں گے۔

مذکورہ فلم سے قبل گزشتہ ماہ ہی ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے نام سے اسلام مخالف فلم ریلیز کی گئی تھی، جس میں بے بنیاد دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی ریاست کیرالہ سے 32 ہزار نوجوان ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرکے دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

’دی کیرالہ اسٹوری‘ سے قبل گزشتہ برس کے اختتام پر ’دی کشمیر فائلز‘ کے نام سے بھی مسلم مخالف متنازع فلم ریلیز کی گئی تھی، جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان ہندو پنڈتوں کے قتل عام میں ملوث ہیں اور وہ مسلمان مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔

’دی کشمیر فائلز اور دی کیرالہ اسٹوری‘ پر بھارتی فلم انڈسٹری کو نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ بھارت میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مذکورہ دونوں فلموں کے علاوہ بھی ماضی میں متعدد بولی وڈ فلموں میں مسلم اور اسلام مخالف کردار اور مواد کو دکھایا جاتا رہا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اجمیر 92کے نام سے جاری ہونے والی فلم کو سماج میں پھوٹ ڈالنے سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ہندو مسلم اتحاد کی مثال اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے’ حقیقی سلطان‘تھے ۔ ایک ہزار سال سے آپ، اس ملک کی پہچان ہیں اور آپ کی شخصیت امن کے پیغامبر کے طور پر معروف ہے۔ ان کی شخصیت کی توہین یا تحقیر کرنے والے خود رسوا ہوئے ہیں ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ وقت میں سماج میں پھوٹ ڈالنے کے بہانے ڈھونڈھے جارہے ہیںاور مجرمانہ واقعات کو مذہب سے وابستہ کرنے کے لیے فلموں اور سوشل میڈیا کا سہارا لیاجارہا ہے ، جو یقینا افسوسناک اور ہماری متحدہ وراثت کے لیے شدید نقصان دہ ہے ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اجمیر میں پیش آمدہ واقعہ کی جو شکل بتائی جارہی ہے ، وہ سبھی سماج کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور گھناؤنا عمل ہے ، اس کے خلاف بلا لحاظ مذہب و ملت اجتماعی جد وجہد کی ضرورت ہے ۔لیکن یہاں تو سماج کو بانٹ کراس دردناک واقعہ کی سنجیدگی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس لیے میرا مرکزی سرکار سے مطالبہ ہے کہ ایسی فلم پر پابندی لگائی جائے اور جو لوگ سماج کو بانٹنے کی کوشش کررہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی اظہار رائے ایک بہت بڑی نعمت اور کسی بھی جمہوریت کی اصلی طاقت ہے ، لیکن اس کی آڑ میں ملک کو توڑنے والے خیالات اور نظریات کو فروغ نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ ہمارے ملک کے لیے مفید ہے۔موجودہ وقت میں جس طرح سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے فلموں ، ڈاکیومینٹری وغیرہ کا سہارا لیا جارہا ہے ، وہ اظہار رائے کی آزادی کے عین خلاف اور ایک مستحکم ریاست کے عزائم کو پامال کرنے والا ہے ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین