نئی دہلی : انصاف نیو ز آن لائن
نصاب تعلیم کو اپنی منشا کے مطابق بنانے کی بی جے پی کی کوشش مسلسل جاری ہے۔این سی آرٹی لگاتار نصاب میں تبدیلیاں کررہا ہے۔نیشنل کونسل آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (این سی ای آر ٹی ) ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے بعد متعدد ایسی تبدیلیاں نصابی کتابوں میں کی گئی ہیں جو تنازع کا سبب بنی ہیں ۔ 12ویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی نئی کتاب منظرِعام پر آئی ہے، جس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی ایودھیا تنازعہ کے موضوع پر ہوئی ہے اور کتاب میں بابری مسجد کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔ مسجد کا نام لکھنے کے بجائے اسے ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ‘ بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ موضوع کو چار کے بجائے دو صفحات میں ہی سمیٹ دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایودھیا تنازع کی معلومات دینے والے پرانے ورژن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس میں گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک بی جے پی کی رتھ یاترا، کارسیوکوں کا کردار، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ تشدد، بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صدر راج اور ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر بی جے پی کا اظہار افسوس شامل ہے۔
بارہویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی پرانی کتاب میں بابری مسجد کو 16ویں صدی کی مسجد کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جسے مغل بادشاہ بابر کے جنرل میر باقی نے تعمیر کیا تھا۔ اب نئی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے، ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ 1528 میں شری رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا تھا لیکن اس ڈھانچے کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر ہندو علامات و باقیات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
این سی آر ٹی کی اس تبدیلی پر کانگریس پارٹی نے بھی اعتراض کیا ہے اور این سی ای آر ٹی کو آر ایس ایس کے تحت کام کرنے والا ادارہ قرار دیاہے۔ نصابی کتابوں میں ترمیم سے متعلق تنازعہ کے درمیان کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ یہ ادارہ 2014 سے آر ایس ایس کی معاون کی شکل میں کام کرتے ہوئے آئین پر حملہ کر رہا ہے۔ جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ قومی امتحان ایجنسی (این ٹی اے) نے نیٹ-2024 امتحان میں گریس مارکس تنازعہ کے لیے این سی ای آر ٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یہ صرف این ٹی اے کی اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’سچ یہ ہے کہ این سی ای آر ٹی اب پیشہ ور ادارہ نہیں رہا۔ یہ 2014 سے آر ایس ایس سے منسلک ادارہ کی شکل میں کام کر رہا ہے۔ ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ اس کی گیارہویں درجہ کی سیاسیات کی ترمیم شدہ نصابی کتاب میں سیکولرزم کے نظریات کی تنقید کی گئی ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’این سی ای آر ٹی کا کام کتابیں شائع کرنا ہے، سیاسی پرچے جاری کرنا یا غلط تشہیر کرنا نہیں۔‘‘
ایودھیا تنازعہ کا ذکر کرنے والی پرانی کتاب میں فیض آباد (اب ایودھیا) ضلع عدالت کے حکم پر فروری 1986 میں مسجد کے تالے کھولے جانے کے بعد ’دونوں طرف سے‘ محاذ آرائی کی بات کی گئی تھی۔ اس میں فرقہ وارانہ تناؤ، سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا، دسمبر 1992 میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سویم سیوکوں کے ذریعے کی کار سیوا، مسجد کی شہادت اور اس کے بعد جنوری 1993 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کیا گیا تھا۔ پرانی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ کیسے بی جے پی نے ایودھیا میں ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور سیکولرازم پر سنجیدہ بحث کا ذکر کیا۔
مذکورہ بالا باتوں کو نئی کتاب میں ایک نئے پیراگراف سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئی کتاب میں لکھا ہے کہ 1986 میں تین گنبدوں والے ڈھانچے کے حوالے سے ایک اہم موڑ آیا، جب فیض آباد (اب ایودھیا) کی ضلعی عدالت نے ڈھانچے کے تالے کھولنے کا حکم دیا، جس سے لوگوں کو وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ تنازعہ کئی دہائیوں سے چل رہا تھا کیونکہ ایسا مانا جاتا ہے کہ تین گنبدوں والا ڈھانچہ ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد شری رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کتاب میں ایودھیا تنازعہ پر 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلے کا ذکر ہے۔ اس فیصلے نے مندر کی تعمیر کا راستہ تیار کیا۔
پرانی کتاب میں انہدام (مسجد کی شہادت) کے وقت اخبارات میں لکھے گئے مضامین اور اس وقت کی خبروں کی تصویریں شامل تھیں، جن میں 7 دسمبر 1992 کی ایک خبر کا عنوان ’بابری مسجد منہدم، مرکز نے کلیان حکومت کو برخاست کیا‘ تھا۔ 13 دسمبر 1992 کو شائع ہونے والے ایک اخباری مضمون کی سرخی میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیا گیا تھا کہ ’ایودھیا بی جے پی کی سب سے خراب غلط فہمی ہے‘۔ اب نئی کتاب میں سے ان تمام اخباری تراشوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔