Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںای وی ایم میں گڑبڑی کا ایک اور معاملہ سامنے آیا۔۔ کئی...

ای وی ایم میں گڑبڑی کا ایک اور معاملہ سامنے آیا۔۔ کئی لوک سبھا حلقوں میں ای وی ایم پولنگ پول اور گنتی میں مماثلت نہیں ہے

362 لوک سبھا سیٹوں پر5, 45,598ووٹوں کو رد کردیا گیا۔بیشتر حلقوں میں بی جے پی امیدوار وں نے بہت ہی کم مارجن سے جیت حاصل کی ہے

نئی دہلی :انصاف نیوز آن لائن

انگریزی نیوز ویب سائٹ ’’دی کوئنٹ‘‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری کئے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں لوک سبھا کی کئی ایسی سیٹوں کی نشاندہی کی ہے جہاں ایم وی ایم مشین میں ڈالے گئے کل وو سے زیادہ ووٹوں کی گنتی ہوئی ہے اور کئی ایسی بھی سیٹوں کی نشاندہی کی ہے جہاں ای وی ایم مشین میں ڈالے گئے کل ووٹ گنتی کے دوران کم ہوگئے ۔ظاہر ہے کہ دونوں صورتیں ای وی ایم مشین میں بڑی گڑبڑی کی نشاندہی کرتی ہے۔یہ بھی اتفاق ہے اس طرح کی صورت حال جن حلقوں میں پیش آئی ہے ان حلقوں میں بہت ہی قریبی مارجن سے بی جے پی کے امیدوار کی جیت ہوئی ہے۔ ان حلقوں میں آسام کی کریم گنج کی سیٹ ہے جہاں کانگریس کے امیدوار حافظ رشیداحمد چودھری اور علی گڑھ میں سماج وادی کے امیدوار کی شکست ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے 362 حلقوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کے ذریعے پولنگ کے5 ,45 598ووٹوں کو الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) نے4 جون 2024 کو ووٹوں رد کردیا۔مزید برآں، ای سی آئی نے 176 حلقوں میں 35,967ای وی ایم ووٹوں کا سرپلس بھی درج کیا۔

دی کوئنٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن کے ذریعے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں پہلے ووٹر ٹرن آؤٹ یا ای وی ایم پر پولنگ ووٹوں کی قطعی تعداد پر اور دوسرا نتیجہ کے دن ہر حلقے میں شمار ہونے والے ای وی ایم ووٹوں کی تعداد کا تجزیہ کیا ہے تو 542لوک سبھا حلقے میں سے 538میں کل ووٹ ٹرن آئوٹ اور ووٹوں کی گنتی میں فرق پائے گئے ہیں ۔

اس کا مطلب ہے کہ ان حلقوں میں ای وی ایم پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد ان ای وی ایم ووٹوں کی تعداد سے میل نہیں کھاتی تھی جن کی گنتی نتیجے کے دن کی گئی تھی۔ (اس موازنے میں پوسٹل بیلٹ شامل نہیں ہیں، کیونکہ ٹرن آؤٹ ڈیٹا صرف ای وی ایم ووٹوں کو پولنگ سمجھتا ہے۔)

کم از کم 267 حلقوں میں یہ فرق 500 ووٹوں سے زیادہ تھا۔

آئیے مثالوں کی مدد سے سمجھتے ہیں

تمل ناڈو کے تروولور حلقہ جہاں پہلے مرحلے19اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔ 25 مئی کو الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری کردہ ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار کے مطابق
14,30,738ووٹنگ ہوئی ۔ گنتی کے دن (4 جون کو)14,13,947ووٹوں کی گنتی ہوئی ۔یعنی 16,791ووٹ گنتی کے دوران کم ہوگئے۔

آسام کے کریم گنج حلقہ میں، جس میں 26 اپریل کو دوسرے مرحلے میں پولنگ ہوئی۔الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق11,36,538ووٹ ڈالے گئے۔ اور ایک بار پھر نتیجہ کے دن (4 جون کو) 11,40,349ووٹوں کی گنتی کی گئی۔3 ,811ووٹ بڑھ گئے۔

اگرچہ الیکشن کمیشن کی طرف سے اس بارے میں کوئی خاص وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اعداد و شمار کے دو سیٹوں کے درمیان اس مماثلت کی وجہ کیا ہے، اتر پردیش (یو پی) کے چیف الیکٹورل آفیسر نے یوپی میں تضادات کی وجہ اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا ہے۔

چیف الیکٹرولر آفیسر نے لکھا ہے کہ ووٹ کیے گئے ووٹوں اور ووٹوں کی گنتی کے درمیان فرق ہو سکتا ہے کیونکہ کچھ پولنگ اسٹیشن ایسے ہیں جن کے ووٹوں کو کمیشن کے جاری کردہ موجودہ پروٹوکول کے مطابق شمار نہیں کیا گیا جب کہ دستورالعمل اور ہینڈ بک میں فراہم کیا گیا ہے۰

انہوں نے ان دو منظرناموں کی مزید وضاحت کی جن میں گنتی کے ووٹوں کی تعداد ای وی ایم ووٹوں کی تعداد سے کم ہوسکتی ہے ۔

سب سے پہلے، جہاں پریزائیڈنگ آفیسر غلطی سے پولنگ شروع ہونے سے قبل کنٹرول یونٹ سے ’’موک پولنگ‘‘ ڈیٹا کو صاف کرنے میں ناکام رہتا ہے یا وہ اصل پول شروع کرنے سے پہلے VVPAT سے موک پول سلپس کو ہٹانے میں ناکام رہتا ہے۔ اور دوسرا، جہاں کنٹرول یونٹ میں پول ہونے والے کل ووٹ پریزائیڈنگ آفیسر کے تیار کردہ فارم 17-C میں ووٹوں کے ریکارڈ سے میل نہیں کھاتے جو غلطی سے غلط نمبر درج کرتا ہے۔

پولنگ کے دن صبح 5 بجے ’’موک پولنگ ‘‘ہوتی ہے۔تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ای وی ایم صحیح طریقے سے کام کر رہا یا نہیں ۔ عام طور پر فرضی پولنگ میں ہر امیدوار کے لیے 5 ووٹ پولنگ ہوتے ہیں، جن کے نتائج بعد میں چیک کیے جاتے ہیں۔ مثالی طور پر، پولنگ افسران کو اصل پولنگ شروع ہونے سے پہلے کنٹرول یونٹ کو صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

فارم 17C، جس کا سی ای سی نے اپنی پوسٹ میں ذکر کیا، ایک پولنگ بوتھ بہ پولنگ بوتھ جامع ووٹنگ ریکارڈ ہے۔ اس میں ہر پولنگ کے مقام پر کل ووٹرز کی تعداد، کسی مخصوص علاقے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد، ووٹ نہ ڈالنے کا انتخاب کرنے والے ووٹرز کی تعداد، ووٹ دینے کے موقع سے انکار کرنے والے ووٹرز کی تعداد، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے ذریعے پول کیے گئے ووٹوں کی کل تعداد، اور بیلٹ اور کاغذی مہروں سے متعلق تفصیلات ہوتی ہے

تاہم سی ای سی نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن حالات میں فاضل ووٹوں کی گنتی کی جا سکتی ہے۔

وہ حلقے جہاں زائد ای وی ایم ووٹوں کی گنتی کی گئی۔

کریم گنج میں، جہاں 3,811فاضل ووٹوں کی گنتی ہوئی، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار کرپناتھ ملّا نے18,360ووٹوں کے فرق سے کانگریس کے رشید چودھری کو شکست دے کر جیت درج کی ہے۔

ہندوستان میں انتخابی اور سیاسی اصلاحات پر کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کے شریک بانی، جگدیپ چھوکر نے کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ان تضادات کے لیے “حلقہ سے متعلق مخصوص وضاحتیں” پیش کرنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف EVM ووٹوں کے سرپلس یا خسارے کے بارے میں صرف ایک عمومی وضاحت دی ہے، وہ بھی ٹویٹر پر۔ پول باڈی کو یہاں تفصیلات بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ EC کے لیے فارم 17C کو عوام میں دستیاب کرنے کا معاملہ اور بھی مضبوط بنتا ہے۔ ہم انتخابات کے نتائج پر شک نہیں کر رہے ہیں لیکن ووٹوں کی گنتی کے لیے ایک شفاف اور مضبوط طریقہ کار کی ضرورت ہے۔

جن دیگر حلقوں میں فاضل ووٹوں کی گنتی کی گئی ان میں آندھرا پردیش کے اونگول، اڈیشہ کے بالاسور، مدھیہ پردیش کے منڈلا اور بہار میں بکسر شامل ہیں۔

اوڈیشہ کے جاجپور میں، جہاں 809 زائد ووٹوں کی گنتی ہوئی، بی جے پی امیدوار رابندر نارائن بیہرا صرف 1,887ووٹوں کے فرق سے جیت گئے۔

وہ حلقے جن میں ووٹ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

آسام کے کوکراجھاڑ حلقے میں،12,40,306ووٹنگ ہوئی مگر گنتی کے دن 12,29,546ووٹوں کی گنتی کی گئی10,760 ووٹ کم گنے گئے۔یونائیٹڈ پیپلز پارٹی کے امیدوار جوونتا باسوماتری نے15,560ووٹوں کے فرق سے یہ نشست جیتی۔

اسی طرح، اوڈیشہ کے ڈھینکنال میں11,93,460ووٹنگ ہوئی۔اور11,84,033ووٹوں کی گنتی کی گئی۔9 ,427ووٹ گنتی کے دوران کم ہوگئے۔

یوپی کے علی گڑھ میں، جہاں بی جے پی کے ستیش کمار گوتم نے 15,647ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔وہاں 5,896ووٹوں کو رد کردیا گیا ۔


اس معاملے کو سمجھنے کیلئے اس ویڈیو کو دیکھا جاسکتا ہے

الیکشن کمیشن کو مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔

دی کوئنٹ نے ہی 2019کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی پولنگ اور گنتی کیے گئے ووٹوں میں اسی طرح کی تضادات کو بے نقاب کیا تھا۔اس کے بعد ہی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ حتمی نتائج کے اعلان سے قبل الیکشن کمیشن کل ووٹ اور گنتی کئے گئے ووٹوں کی وضاحت کرے ۔
26 اپریل کو، سپریم کورٹ نے اس اور کئی دیگر درخواستوں کو مسترد کر دیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا صد فیصد ووٹوں کو وی وی پی اے ٹی پرچیوں سے ملایا جائے۔الیکشن کمیشن نے عدالت کو 4 کروڑ سے زیادہ پرچیوں کی ای وی ایم مشین کے ووٹ سے موازنہ کیا گیا ہے اور اس میں کوئی گڑبڑی نہیں پائی گئی ہے۔

سماجی کارکن انجلی بھردواج نے کہتے ہیں یہ پورا مسئلہ ہمارے انتخابی عمل پر اعتماد کا ہے۔انجلی بھردوار ستارک ناگرک سنگٹھن کی بانی رکن ہیں، جو حکومت میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے والے سول سوسائٹی کے گروپ کا حصہ ہیں۔

انہوںنے کہا کہ اگر ووٹ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداداور ووٹوں کی گنتی کے اعداد و شمار کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے، تو یہ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ فارم 17سی کو لوڈ کیا جائے اور اگرای وی ایم میں ڈالے گئے کل ووٹ گنتی کے دوران بڑھ جائیں یا پھر کم ہوجائیں تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ اس کی وجوہات کو سامنے لائی جائیں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین