ڈھاکہ :ایجنسی’
بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہزاروں کارکن ہفتےکو دارالحکومت ڈھاکہ میں جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
ملک کے مختلف علاقوں سے بی این پی کے کارکن احتجاج میں شامل ہونے کے لیے ڈھاکہ پہنچے۔ احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی اور سرکاری فورسز کی گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی۔
اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اور نئے انتخابات نگراں حکومت کے تحت کرائے جائیں۔
بنگلہ دیش میں آئندہ برس جنوری میں عام انتخابات ہونا ہیں اور اس سے قبل اپوزیشن جماعت کی حکومت مخالف تحریک اور مطالبے میں شدت آ گئی ہے۔ تاہم حکمراں جماعت عوامی لیگ نے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے عہدے سے الگ ہونے کا اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
بی این پی کے رہنما مرزا عباس کا کہنا ہے کہ حکومت نے احتجاج روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن وہ اس میں ناکام رہی جب کہ ان کے لگ بھگ ایک ہزار کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ چند افراد کو حراست میں لیا ہے جن کے پاس آئی ڈی کارڈ نہیں تھا۔ تاہم پولیس نے گرفتار افراد کی تعداد نہیں بتائی۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بی این پی کے رہنما عبدالمعین خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کا ایک نکاتی ایجنڈا ملک میں جمہوریت کی بحالی کا ہے اور یہ ایجنڈا صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے رہتے ہوئے ملک میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ اس لیے حکومت فوری طور پر مستعفی ہو تاکہ نگراں حکومت کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد کرایا جائے۔
اپوزیشن کی دیگر جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن پر شدید تنقید کی ہے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ 2009 میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مسلسل اقتدار میں ہیں۔ انہوں نے 2014 اور پھر 2018 میں ہونے والے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم اپوزیشن نے ان کی انتخابی کامیابی کو دھاندلی قرار دیا تھا لیکن عوامی لیگ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
شیخ حسینہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کی آزادی پر قدغن، ناقدین اور اپوزیشن جماعت کے ورکرز کو جیلوں میں ڈالنے جیسے الزامات بھی ان پر لگتے ہیں۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی کی لیڈر خالدہ ضیا کرپشن الزامات پر 2018 سے جیل میں ہیں۔
ڈھاکہ میں ہفتےکو پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا جب کہ کئی مقامات پر ہجوم نے پولیس کی گاڑیوں کو گھیرتے ہوئے انہیں آگ لگا دی۔